اسرائیل (اصل میڈیا ڈیسک) اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ اگلے ہفتے دوبارہ انتخاب جیتنے کی صورت میں فلسطینی علاقے میں واقع وادی اُردن کا اسرائیل سے الحاق کریں گے۔ عرب ممالک نے اس بیان کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم کے بیان کے بعد فلسطین نے فوری ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نتین یاہو امن کی امیدوں کو ہی تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ نتین یاہو کے انتخابی مخالفین نے ان پر انتہائی مذموم کھیل کھیلنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس طرح دائیں بازو کے قوم پرستوں کے ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
نیتن یاہو کا ٹیلی وژن پر خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ مغربی کنارے کی وادی اُردن کا اسرائیل سے الحاق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہم آہنگی سے ہی کریں گے۔ امریکی صدر نے اسرائیلی انتخابات کے بعد مشرق وسطی کے لیے ایک ‘امن منصوبہ‘ پیش کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اگر اسرائیلی وزیراعظم ایسا کرتے ہیں تو بین الاقوامی سطح پر دو ریاستی حل کی امیدیں ختم ہونے کا خطرہ ہے۔
نیتن یاہو کا ٹیلی وژن پر نقشہ دکھا کر کہنا تھا، ”ایک جگہ ایسی ہے جہاں ہم انتخابات کے فورا بعد ہی اسرائیلی خودمختاری کا اطلاق کر سکتے ہیں۔‘‘ ان کا اسرائیلی شہریوں کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ اگر انہیں ایسا کرنے کا واضح مینڈیٹ ملا، تو وہ وادی اردن اور شمالی بحیرہ مردار پر اسرائیلی خودمختاری قائم کر دیں گے۔
فلسطینی مغربی کنارے کے اس علاقے میں ساٹھ ہزار فلسطینی رہائش پذیر ہیں جبکہ اسرائیل کی طرف سے وہاں تعمیر کی گئی غیر قانونی بستیوں میں پانچ ہزار یہودیوں کو آباد کیا جا چکا ہے۔
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے نیتن یاہو کے اس اعلان پر شدید تنقید کی ہے اور اسے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے انتہائی نقصان دہ قرار دیا ہے۔ سعودی عرب نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی ”صریحاﹰ خلاف ورزی‘‘ ہو گی۔ سعودی عرب نے اس کو ”فلسطینی عوام کے خلاف ایک خطرناک بڑھاوا‘‘ قرار دیتے ہوئے اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے 57 ممبر ممالک کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس طلب کیا ہے۔
اردن کے وزیر خارجہ ايمن الصفدی نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کا یہ اقدام پورے خطے کو تشدد کی جانب دھکیل سکتا ہے اور مکمل امن عمل کے ختم ہونے کا خطرہ ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے مولود چاوُش اولُو نے نیتن یاہو کے اس بیان کو نسل پرستانہ قرار دیا ہے۔