واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان مزاحمت کاروں کو زیادہ شدت سے حملوں میں نشانہ بنایا جائے گا۔انھوں نے پانچ روز قبل طالبان سے جاری مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کردیا تھا۔
وہ امریکا پر نائن الیون حملوں کی اٹھارھویں برسی کے موقع پر پینٹاگان میں منعقدہ ایک تقریب میں تقریر کر رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ’’گذشتہ چار روز کے دوران میں امریکی فورسز نے ’ہمارے دشمنوں‘ کو ماضی کے مقابلے میں زیادہ شدت سے حملوں میں نشانہ بنایا ہے اور یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
انھوں نے طالبان سے خفیہ امن بات چیت کی تنسیخ کے بعد اختتام ہفتہ پرحملوں کا حکم دیا تھا۔انھوں نے گذشتہ ہفتے افغان دارالحکومت کابل میں بم دھماکے میں ایک امریکی فوجی کی ہلاکت کے بعد یہ اقدام کیا تھا۔طالبان نے اس بم حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔اس میں بارہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تاہم صدر ٹرمپ نے طالبان کے خلاف اپنے اعلان کردہ نئے امریکی حملے کی وضاحت نہیں کی ہے۔ انھوں نے گذشتہ سوموار کو کہا تھا کہ ہم اپنے دشمنوں کو زیادہ شدت سے حملوں میں نشانہ بنارہے ہیں اور گذشتہ دس سال کے دوران میں ایسے حملے نہیں کیے گئے ہیں۔
لیکن اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد چودہ ہزار کے لگ بھگ ہے۔2010ء میں جنگ زدہ ملک میں امریکی فوجیوں کی تعداد قریباً ایک لاکھ تھی۔ نیٹو مشن کے تحت فوج اس کے علاوہ تھی۔
صدر ٹرمپ نے اپنی تقریر میں امریکی سرزمین پر حملے کرنے والے جنگجوؤں کو بھی خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے کسی حملے کا ردعمل بہت ہی شدید اور بالکل مختلف ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ ’’اگر کسی بھی وجہ سے وہ ہمارے ملک میں آتے ہیں،تو وہ جہاں کہیں بھی ہوں گے،ہم وہاں جائیں گے اور ایسی طاقت کا استعمال کریں گے جو امریکا نے اس سے پہلے کبھی استعمال نہیں کی۔‘‘
صدر ٹرمپ نے دھمکی دی کہ ’’میں جوہری طاقت کے استعمال کی بات نہیں کررہا،اب ان کے ساتھ جو ہوگا، ایسا انھوں نے ماضی میں کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔‘‘
واضح رہے کہ امریکی صدر گذشتہ اتوار کو کیمپ ڈیوڈ میں طالبان کے لیڈروں سے ملاقات کرنے والے تھے لیکن انھوں نے ہفتے کے روز ٹویٹر پراچانک ان سے مذاکراتی عمل ختم نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ان کی ٹویٹ سے قبل صدر ٹرمپ کے قریبی حلقوں سے باہر کوئی بھی شخص اس پیش رفت سے باخبر نہیں تھا۔ اس اعلان کے بعد وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو ہٹا دیا گیا تھا۔