لندن (اصل میڈیا ڈیسک) برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے لیے سکاٹ لینڈ کی ایک اپیل کورٹ کا یہ فیصلہ نیا جھٹکا ثابت ہوا ہے کہ اکتیس اکتوبر کی بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن سے پہلے برطانوی پارلیمان کا جبراﹰ معطل کیا جانا ایک غیر آئینی اقدام ہے۔
وزیر اعظم بورس جانسن کی خواہش کے مطابق لندن میں برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں یا دارالعوام کے جبری طور پر معطل کیے جانے کے بارے میں ایک سکاٹش اپیل کورٹ نے بدھ گیارہ ستمبر کو اپنے فیصلے میں کہا کہ بریگزٹ سے پہلے حکومت نے ملکی پارلیمان کو جس ‘جبری رخصت‘ پر بھیج دیا ہے، وہ اس لیے غیر آئینی ہے کہ اس کا مقصد بظاہر ‘پارلیمان کے کام کی راہ میں رکاوٹ‘ ڈالنا ہے۔
یہ عدالتی موقف بورس جانسن کی بریگزٹ سے متعلق سیاست کے لیے ایک اور بڑا جھٹکا ہے۔ حالانکہ شروع میں اس بارے میں ایک آئینی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرنے سے انکار کر دیا گیا تھا، تاہم اب برطانیہ میں سکاٹ لینڈ کی اعلیٰ ترین عدالت نے اس مقدمے کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لیا ہے۔
ساتھ ہی سکاٹش اپیل کورٹ نے وزیر اعظم بورس جانسن کے ایماء پر ہاؤس آف کامنز کی معطلی کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے ‘غیر قانونی‘ بھی قرار دے دیا۔ پھر جیسے ہی ایڈنبرا میں اس عدالت نے یہ فیصلہ سنایا، اس کے فوری بعد لندن میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس کے خلاف اپیل بھی دائر کر دی گئی۔
یہ مقدمہ 75 ایسے اراکین پارلیمان نے دائر کیا تھا، جن کا دعویٰ تھا کہ جانسن کی خواہش کے مطابق ہاؤس آف کامنز کی کارروائی کو چند ہفتوں کے لیے معطل کرنے کا جو فیصلہ کیا گیا ہے، وہ پارلیمان کے اختیارات کو محدود کرنے کی ایک کوشش ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ لندن حکومت کے اس اقدام کے خلاف ایسے ہی مقدمات شمالی آئرلینڈ اور انگلینڈ میں لندن کی عدالتوں میں بھی دائر کیے گئے ہیں۔
سکاٹ لینڈ میں اس مقدمے کو پہلے ایک سیشنز کورٹ نے سماعت کے قابل نہیں سمجھا تھا۔ اسی طرح لندن میں بھی ہائی کورٹ نے ایسی ہی ایک درخواست کو سماعت کے لیے منظور نہیں کیا تھا۔ اب لیکن سکاٹش اپیل کورٹ کے فیصلے کے بعد اس بارے میں حتمی اور ملک گیر سطح پر مؤثر فیصلہ برطانیہ کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ کو کرنا ہو گا۔
اس مقدمے کی کارروائی میں شامل وکیل جو موہم کے مطابق سپریم کورٹ میں اس بارے میں ایک اپیل کی سماعت 17 ستمبر یعنی آئندہ ہفتے منگل کے دن شروع ہو جائے گی۔
بورس جانسن کی خواہش کے مطابق دارالعوام کی معطلی کا فیصلہ نو اور دس ستمبر کی درمیانی رات مؤثر ہو گیا تھا اور اسی دن ایوان زیریں میں منتخب ارکان کی طرف سے پارلیمانی کارروائی کے دوران اس اقدام پر واضح ناپسندیدگی کا اظہار بھی کیا گیا تھا۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان نے حزب اقتدار پر یہ الزام بھی لگایا تھا کہ حکومت نے پارلیمان کو زبردستی خاموش کرا دیا ہے۔
سکاٹس اپیل کورٹ کا فیصلہ برطانوی وزیر اعظم کے لیے پے در پے ناکامیوں اور سیاسی جھٹکوں کے ان واقعات کا تسلسل ہے، جن کا انہیں حکومت سنبھالنے کے بعد سے اب تک سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس سے قبل ان کی اکتیس اکتوبر کی بریگزٹ ڈیڈ لائن سے پہلے ملک میں قبل از وقت عام انتخابات کرانے کی دو پارلیمانی کوششیں بھی ناکام ہو گئی تھیں۔ اس کے علاوہ ایوان زیریں کی طرف سے ایک قانون سازی اور پھر اس مسودہ قانون کی ملکہ الزبتھ کی طرف سے تائید کے بعد بورس جانسن کے لیے یہ بھی ناممکن ہو گیا تھا کہ 31 اکتوبر کو برطانیہ کسی ڈیل کے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے۔
جانسن کئی بار کہہ چکے تھے کہ یورپی یونین سے کوئی نئی ڈیل ہو یا نہ ہو، بریگزٹ پر ہر حال میں 31 اکتوبر کو عمل درآمد ہو جائے گا۔ لیکن اب ان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ اکتوبر کے آخر میں ‘نوڈیل بریگزٹ‘ کے اپنے ارادوں پر عمل کر سکیں۔
کوئی نئی ڈیل طے نہ ہونے کی صورت میں جانسن کو یورپی یونین سے بریگزٹ کی موجودہ ڈیڈ لائن میں توسیع کی درخواست کرنا پڑے گی۔ لیکن جانسن یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ یونین سے ایسی کسی ‘توسیع کی درخواست تو مر کر بھی نہیں‘ کریں گے۔