حزب اللہ اور حزب شیطان

Satan

Satan

تحریر : میر افسر امان

اللہ تعالی نے جب انسان کو پیدا کیا تو پہلے سے موجود فرشتوں اور جنوں سے کہا کہ انسان آگے جھک جائو۔ فرشتے تو اللہ کے حکم کے پابند ہیں۔ جبکہ انسان اور جنوں کو اللہ نے ارادے کی اجازت دی ہوئی ہے۔ چاہے تو اللہ کا حکم مان کر اللہ کے فرمانبردار مخلوق بنیں۔ چائیں تو اللہ کا حکم نہ مان کر اللہ کے نافرمان بندے بنیں۔ دوسرے لفظوں میں حزب اللہ بن جائیںیا پھر حزب شیطان بنی جائیں۔فی واقع دنیا میں انسان ان ہی دو پارٹیوں میں تقسیم چلے آ رہے ہیں۔ فرشتے تو اللہ کا حکم کو مان کر انسان کے آگے جھک گئے۔ مگر جنوں کے سردار ابلیس شیطان نے اللہ کے حکم کی نافرمانی کی۔ اللہ نے ابلیس سے باز پرس کرتے ہوئے معلوم کیا۔ کیا وجہ ہے کہ تم نے میرا حکم نہیں مانا۔ ابلیس نے تکبر کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے مجھے آگ سے پیدا کیا ۔ جبکہ انسان کو مٹی سے پیدا کیا۔ میں انسان سے افضل ہوں۔ اس لیے میں انسان کے آگے نہیںجھکا ۔ اللہ نے ابلیس کو کہا کہ تم بڑئی کے گھمنڈ میں پڑھ کرنافرمان ہو گیاہے۔ابلیس نے اللہ سے التجا کہ تو مجھے قیامت تک قوت دے میں تیرے بندوں کو آگے سے پیچھے، دائیں سے بائیں سے تیرانافرمان بنائو۔ اللہ نے ابلیس کو اجازت دے دی۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ تو میرے نیک بندوں کو میرا نافرمان نہیں بنا سکے گا۔ تم صرف میرے بندوں کوسبز باغ اوروسوسے ڈال کے میرے راستے سے ہٹاسکو گے۔ کسی کو ہاتھ پکڑ کر میرے راستے سے نہیں ہٹا سکے گا۔جو بندے تیری بات مانیں گے، انہیں اور تم کو دوزخ میں ڈالوں گا۔ میری دوزخ وہ ہے جس کے ایدھن پتھر اور انسان ہو نگے۔

اللہ نے آدم کے بعد حوا کو پیدا کیا۔آدم اور حوا کو ہدایت کی کہ میری جنت میں آرام سے رہو۔یہاں جو چاہو کھائو پیو۔ مزے سے رہو، مگر فلاں درخت کو ہاتھ نہیں لگانا۔ ورنہ تم میرے نافرمان ہو جائو گے۔یاد رکھو شیطان تمھارا ازلی دشمن ہے۔ پھر یہ ہی ہوا کہ آدم اور حوا کو رفتہ رفتہ ابلیس، اپنے ڈھنگ پر لے آیا۔ آدم کو وسوسوں میں ڈالا ، سبز باغ دکھایا اور کہا کہ اللہ نے تمھیں اس درخت کو ہاتھ لگانے سے اس لیے منع کیا ہے کہ کہیں تمھیں ہمیشہ کے لیے زندگی حاصل نہ ہوجائے۔ آدم ابلیس کے جھانسے اور سبز باغ میں آکر اس درخت کوہاتھ لگا بیٹھا۔ اس کے بعد جو آدم اور حوا کواللہ کی طرف سے جو لباس ملا ہوا تھا وہ کھل گیا۔ دونوںپریشان ہو گئے۔آدم اور ہوا جنت کے بتوں سے جسم ڈھاکنے لگے۔ آدم نے اس کمزروری پر اللہ سے معافی مانگی ۔ اللہ نے آدم کو معاف کر دیا۔ کیونکہ اللہ اپنے بندوں کو ہمیشہ معاف کرنے والا ہے۔اللہ نے آدم اور ابلیس کو جنت سے بے دخل کرکے زمین میں اُتار دیا۔ کہا ،کہ تم کو اب قیامت تک اسی زمین میں رہنا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ ہدایت بھی دہیں کہ میرے انبیا تم کو میرے ہدایات پہنچاتے رہیں گے۔جو کوئی بھی میرے احکامات پر عمل کرے گا وہ حز ب اللہ یعنی اللہ کی پارٹی کا ، اور جوبھی میرے احکامات کی نافرمانی کرے گا وہ حز ب شیطان، یعنی شیطان کی پارٹی میں شمارکیا جائے گا۔ اللہ کا یہ نظام ازل سے ابد تک چل رہا ہے۔ اللہ کی ہی پارٹی والے کامیاب ہو نگے اور شیطان کے پارٹی والے نامراد ہو نگے ۔اللہ کی پارٹی والے اپنی نیک اعمال کی وجہ سے واپس جنت میں داخل ہونگے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں ۔ شیطان کی پارٹی والے اپنے بد اعمال کی وجہ سے شیطان کے ساتھ دوزخ میںداخل ہونگے، جہاں وہ ہمیشہ رہیں نگے۔اللہ ہمیں شیطان کی پارٹی سے بجائے۔

قرآن کے اس ہی فلسفے پر دنیا میں اللہ کا نظام چلتا رہا ہے اور چل رہا ہے۔ حق و باطل کی لڑائی ہمیشہ سے جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ کچھ خوش قسمت انسان اللہ کے انبیا کی طرف سے آئے ہوئے اللہ کے احکمات پر عمل کرکے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بناتے رہے ہیں۔ کچھ بد بخت انسان اللہ کی نافرمانیں کر کے آپنے آپ کو دوزخ کامستحق بناتے رہے ہیں۔ یہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اپنے انجام کے انتظار میں قبروں میںمدفون ہیں ۔ ہاں اللہ جن سے راضی ہوا، ان کے چہرے جنت کے کسی باغ کے طرف کھلے ہوئے ہیں ۔جو اللہ کے باغی ہیں ان کے چہرے دوزخ کی طرف کھلے ہوئے ہیں ۔پھر اللہ نے اس دنیا میں اپنا آخری پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔آدم سے لے کر آج تک جتنی ہدایات اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے انسانیت تک پہنچائیں تھیں ان سب کا نچوڑ اپنی آخری کتاب قرآن میں بیان کر دیں ۔ آخر میں حجةالوادع کے موقعہ پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اللہ کے آخری پیغمبرۖ پر یہ آیات نازل ہوئیں ۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے کہ ” آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا ہے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو بحیثیت دین پسند کر لیا ”( المائدہ۔ ٣) یہ دین کیا تھا جو مکمل کر دیا گیا۔یہ دین، دنیا کے انسانوں کے لیے دستور عمل تھا۔ جس پر رہتی دنیا تک انسانوں نے عمل کرنا ہے اور یہی اللہ کو پسند ہے۔ ان احکامات کو آخری پیغمبرۖ نے دنیا تک پہنچایا۔ ان احکامات کی روشنی میںآخری پیغمبرۖ نے پہلے پورے عرب کے خطہ کو شرک سے پاک کیا۔

کیونکہ قرآن کے مطابق انسان کے سارے گناہ معاف ہو سکتے ہیں مگر اللہ کے ساتھ شرک کو اللہ کبھی بھی معاف نہیں کرتا۔ پھر اللہ کے آخری پیغمبرۖ نے اللہ تعالیٰ کی نگرانی میں مدینہ میں ایک مثالی اسلامی فلاحی ریاست قائم کی۔ اس لیے کہ اس مثالی حکومت کو دنیا کے لیے رول ماڈل ہونا تھا۔ مگر افسوس کی دنیا نے اس مثالی حکومت سے فاہدہ نہیں اُٹھایا اور اللہ کے احکامات کے احکامات کے مخالف حکومتیں قائم کر کے ، حزب اللہ کے بجائے حزب شیطان میں شامل ہو گئے۔

اللہ نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے اس لیے حکومت الہیا( اسلامی نظام حکومت) میں انسان ہونے کے ناتے سب انسانوں کے حقوق برابر تھے۔ خزانہ اللہ کی طرف سے حکمرانوں کے پاس مسلمانوں کی امانت تھا۔ اللہ کے رسولۖ نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔شام ہونے سے پہلے پہلے خزانے کے انچارج حضرت بلال حبشی مدینہ کے عوام میں تقسیم کر دیا کرتے تھے۔ اللہ کا حکم ہے کہ جب ان کو اقتدار بخشا جائے گا تو یہ صلوٰة کا نظام قائم کریں گے۔ اس حکم کے مطابق صلوٰة کا نظام قائم تھا۔ لوگ پانچ وقت کی نماز مسجدں میں ادا کرتے تھے۔نماز کو جاتے ہوئے لوگ بازاروں میں دکھانوں پر تالے نہیں ڈالتے تھے۔کیونکہ چوری کرنے والے کے ہاتھ کاٹ دیے جانے کا ایک نظام بھی قائم تھا۔ جمعہ کی نماز کا بھی انتظام تھا۔ انصاف کا یہ عالم تھا کہ رسولۖ اللہ کے سامنے ایک فاطمہ نام کی کسی بڑے قبیلہ کی خاتون کو چوری کے کیس میں پیش کیا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ یہ ایک بڑے قبیلہ کی خاتون ہے اس کے ہاتھ کاٹنے سے امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔

اللہ کے رسولۖ نے کہا کہ اس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کے الزام میں پیش ہوتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔ زکوٰة کا نظام قائم تھا۔ حکومت ایک نصاب کے مطابق لوگوں سے زکوٰة وصول کرتی تھی۔ پھر اس رقم کو قرآن میں بیان کیے اللہ کے حکم کے مطابق آٹھ مدوں میں، حقداروں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ ایک صاحب کو زکوٰة وصول کرنے پر لگایا تھا۔وہ زکوٰة وصول کر آیا اور کہا کہ یہ زکوٰة کی رقم ہے اور یہ مجھے تحفہ میں ملے ہیں۔رسولۖ اللہ نے کہا کہ اگر تم حکومت کے نمائندے نہ ہوتے تو تمھیں یہ رقم تحفہ میں ملتی؟ تحفہ والی اس رقم کو زکوٰة میں شامل کرو۔ انصاف کا نظام قائم تھا۔کسی کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کرتا تھا۔لوگوں کے ڈے ٹو ڈے کے معاملات رسولۖ اللہ کے پاس پیش ہوتے تھے۔ رسولۖ اللہ نے لوگوں سے کہا کہ اگر میں نے کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو وہ مجھ بدلہ اسی دنیا میں لے لے۔ ایک صحابی نے کہا کہ آپ نے ایک دفعہ میرے نگے جسم پر کوڑا مارا تھا۔ رسولۖ اللہ نے اپنی قمیض اُتاری اور اس سے کہا لو مجھ سے بدلہ لے لو۔ اُس شخص نے رسول ۖاللہ کے کاندھے پر بنے نبوتۖ کے نشان کوپیار سے چوم لیا۔ اور کہا میں نے ایسا کرنے کے لیے یہ حرکت کی ہے۔باہر سے آئے وفود کو مسجد نبوی میں ٹہرایا جاتا تھا۔ باہر ملکوں کے سفیروں یہیں ملاقات ہوتی تھی۔بیرون ملک سلطنتوں کر رسولۖ اللہ نے مسجد نبیۖ میں بیٹھ کر خطوط لکھے تھے۔

جنگ کا اعلان بھی مسجد نبویۖ میں ہوا کرتا تھا۔وہیں سے فوجوں کو جنگ لڑنے کی ہدایات دے کر روانہ کیا جاتا تھا۔ اپنی موت سے پہلے رسولۖ اللہ نے اسامہ کو ایک جنگی مہم پر فوج کا کمانڈر بنا کر روانا کرنا تھا۔ اس فوجی دستہ میںبڑے بڑے نامی گرامی صحابہ کو بھی شامل کیا تھا۔اللہ کا کرنا کہ رسولۖ اللہ کی وفات واقعہ ہو گئی۔ حضرت ابوکر خلیفہ اوّل بنے تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ اتنے بڑے بڑے صحابہ موجود ہیں۔ کسی نامور صحابی کو فوج کے اس دستے کا سربراہ بنائو۔ابوبکر نے کہا کہ جس کام کا حکم میرے نبیۖ نے دیا ہوا ہے،میں کون ہوتاہوں اسے تبدیل کرنے والا۔ یہ تھی نبیۖ کی پیروی۔سچ اور حق کی گواہی کو چھپایا نہیں جاتا تھا۔امر بی لمعروف اور نہی المنکر کا نظم قائم تھا جس معاشرے ٹھیک سمت میں چل رہا تھا۔ لڑائی میں زخمی ہونے والے زخمیوں کا علاج کیا جاتا تھا ۔اس لیے مسجد نبویۖ میں ہی دارلشفاء بھی قائم کیا گیا۔ رسولۖ اللہ نے جنگ کے خاتمے کے بعد مسجد کے صحن کے اندر ایک خیمہ لگایا ،تا کہ سیدّ الا ئوس حضرت سعد بن معاذ جو غزوہ احزاب میں زخمی ہو گئے تھے کا علاج ہو سکے۔اس لڑائی میں حضرت اُمِ رفیدہ ایک خاتون شریک تھیں جو کہ زخمیوں کا علاج کیا کرتی تھیں۔ اس کے پاس دوائیں تھیں۔یہ خیمہ ان ہی کا تھا۔جہاد فی سبیل اللہ میں خواتین بھی شامل ہوتیں تھیں۔یتیموں اور بیوائوں کی کفالت کا نظام قائم تھا۔ فتح مکہ کے وقت سودی نظام کو یک سر ختم کر دیا گیا۔کہ یہ تو اللہ اور رسولۖ کے ساتھ جنگ قرار دیا گیا تھا۔سود کے بغیر کاروبار چل رہا تھا۔ انسان کی اس قدر قیمت تھی کہ بغیر حق کے کسی کو قتل کیا جاتا تو اس سے قصاص کے قانون کے مطابق نمٹا جاتا۔نکاح عام کر دیا گیا تھا۔ خواتین کو اتنی آزادی تھی کہ وہ رسولۖ اللہ کے پاس آکر کہتیں تھی میں فلاں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔ پھر اس کو فارغ کر دیا جاتا اور کسی دوسری کی زوجیت میں چلی جاتی۔ ایک مرد کو چار چار شادیاں کرنے کی اجازت تھی۔ اتنی آسانیوں کے بعد بھی کوئی اللہ کے قانون کو توڑ کر زنا کا مرتکب ہوتا تو اسے سنگسار کیا جاتا۔ ہر طرف خوشحالی تھی۔ امن امان تھا۔ انسان کی قدر تھی۔

اصل میں اس وقت اللہ کے رسولۖ پر اللہ کی طرف سے وحی جاری تھی۔ اللہ اپنے بندوں کی اپنے رسول ۖ کے ذریعے خودنگرانی کر رہا تھا۔ اس لیے کہ اللہ کے دین کو انسانیت کے لیے مکمل ہونا تھا۔پھر ایسا ماحو ل کیوں نہ ہو تا کہ اللہ کا فرمان ہے کہ بستیوں کے لوگ اگر اللہ کے احکامات پر عمل کرتے تو اللہ آسما ن سے رزق نازل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی۔ جب اللہ کے حکم پر رسولۖ اللہ کے ہوتے ہوئے عمل ہو رہا تھا تو اللہ آسمان سے رزق پرسا رہاتھا اور زمین اپنے خزانے اُگل رہی تھی۔ پھر رسولۖ اللہ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے مدینے کی کی فلاحی اسلامی ریاست کو چلا کر دکھا یا۔ یہ تھے حز ب اللہ والے لوگ ۔ دوسری طرف اللہ سے بغاوت کرنے والے حزب شیطان والے لوگوں نے اس دنیا کو دکھوں سے بھر دیا ہے۔ لوگوں کے بنیادی حقوق کو ختم کر دیا گیا۔ ہر طرف ہو کا عالم ہے۔ شخصی حکمرانی اور ہر طرف بادشاہت تھی۔ باپ کے بعد بیٹا عوام پر مسلط ہو جاتا تھا۔عوام کے خزنوں کے مالک بادشاہ ہوتے تھے۔عوام کو بھیر بکریوں کی طرح رکھتے تھے۔سودی نظام تجارت کی وجہ سے عوام غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔اگر ساری دنیا میں مدینے کی اسلامی فلاحی ریاست اور بعد میں خلفائے راشدین کے دور حکومت کی طرح حکومتیں ہوتیں تو یہ دنیا دکھوں سے بھری نہ ہوتیں۔

مسلمان مدینے کی اسلامی، فلاحی اور جہادی ریاست کے وارثیں ہیں ان کو چاہیے کہ اپنے حکمرانوں پر دبائو ڈال کر واپس اپنی اصل کی طرف لوٹائیں۔ اللہ اور رسولۖ کے بتائے ہوئے احکامات پر عمل کرتے ہوئے حزب اللہ کی پارٹی بن جائیں۔ اپنی موجودہ نام نہاد جمہوری غیر جمہوری اور مغربی طرز حکمرانی کو چھوڑ دیں۔ حکومتوں کو تبدیل کر کے اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی ،فلاحی اور جہادی ریاستیں قائم کریں۔ پھر ان اسلامی، فلاحی اور جہادی ریاستوں کی ایک” لیگ آف مسلم نیشنز” بنائیں۔جس کا مرکز ایک ہو۔ جس کی کرنسی ایک ہو۔تجارت ایک ہو۔فوج ایک ہو۔پارلیمنٹ ایک ہو۔ پھر اللہ مسلمانوں پر آسمان سے رزق نازل کرے گا زمین اپنے خزنے اُگل دی گی۔ امن و امان ہو گا۔ غربت ختم ہو گی ۔ صداقت ،عدل، شجاعت ا ورا نصاف کا دور دورا ہو گا۔ ایک دوسرے کا احترام ہو گا پھر یہ دنیا جنت کاسا ماں پیش کرے گی ۔ پھر مسلمان حزب شیطان کی پارٹی والی حکومتوں کو چلینج کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔ پھر مسلمانوں میںویسا ہی سماں ہو گا جیسا اٹھارویں صدی سے پہلے تھے۔ جس میں مسلمانوں نے دنیا پر بارا سو سال کامیابی سے حکومت کی تھی۔ لوگ جوق در جوق حزب شیطان سے حزب اللہ کی پارٹی میں آتے جائیں گے۔ نذر آ رہا کہ اس کی پہل ،مثل مدینہ ریاست” مملکت اسلامیہ جمہوریہ پاکستان، ایٹمی اور میزائیل ٹکنالوجی کی طاقت والی ریاست پاکستان کرے گی۔کیونکہ یہ اسلامی دنیا کی فطری لیڈربھی ہے۔ شاہد مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت علامہ شیخ محمد اقبال ، شاعر اسلام، فلسفی شاعر۔ شاعر مشرق، حکیم الامت نے اسی لیے فرمایا تھاکہ:۔
سبق پڑھ پھرصداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تم سے کام دنیا کی امامت کا
آئیں ہم سے سب مل کر اللہ سے دعاء کریں کہ اللہ کرے ایسا ہی ہو ایسا ہی ہو۔آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان