18 برس کی ایک طویل جنگ میں امریکا اور امارات اسلامیہ افغانستان (افغان طالبان) کے درمیان مذاکرات کی تمام مشقت امریکی صدر نے صرف ایک ٹویٹ سے ختم کردی ۔ امارات اسلامیہ افغانستان سے افغان مفاہمتی عمل کے لئے امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد کوستمبر2018میں نامزد کیا گیا۔ واضح رہے کہ قطر حکومت نے امارات اسلامیہ افغانستان( افغان طالبان) کے لئے 2013میں سیاسی مذاکراتی دفتر قائم کیا گیا ۔ تاہم حامد کرزئی انتظامیہ نے سیاسی دفتر پر اُس وقت اعتراض اٹھا دیا گیا جب انہوں نے امارات اسلامیہ افغانستان کے نام و جھنڈے کوتسلیم کرنے سے انکار کردیا ، جس کے بعد امریکا ، کابل انتظامیہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہوگئے۔ کرزئی انتظامیہ ، امارات اسلامیہ افغانستان کے نام و تشخص کو تسلیم کرنے پر رضا مند نہیں تھے تاہم دوحہ میں افغان طالبان کا سیاسی دفتر قائم رہا۔ واضح رہے کہ 2012میں ایک امریکی فوجی سارجنٹ کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے میں امریکا نے پانچ افغان طالبان رہنمائوں کو رہا کیا جو قطر منتقل ہوگئے ۔ جن پر امریکی ذرائع ابلاغ اور اسٹیبلشمنٹ نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا کہ یہ آزاد کردہ قیدی امریکی مفادات کے لئے خطرات بن سکتے ہیں۔ ان کے آزادنہ نقل و حرکت پر تنقید بھی کی جاتی رہی۔لیکن اہم امر یہ تھا کہ2010 تک امریکا کو اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ افغان طالبان کے ایسے کون سے رہنما ہیں جن سے بات چیت کی جا سکتی ہے۔ پہلے مرحلے میں افغان طالبان کے اُن رہنمائوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی جو افغان مفاہمتی عمل میں امریکا کے مطالبات تسلیم کریں۔ اس حوالے سے امریکا نے اُن قیدیوں کو رہائی دینے کے لئے حامی بھرلی جو اُن کے نزدیک افغان مفاہمتی عمل میں کردار ادا کرسکتے تھے۔ جس کے بعد اس بات کی توقع رکھی گئی کہ افغان طالبان سے بات چیت کے لئے راستہ ہموار کیا جائے۔
افغان طالبان نے جنوری 2016میں پہلی مرتبہ بگواش کانفرنس کے زیر اہتمام ‘ افغانستان میں امن و سلامتی ‘ کے عنوان سے اپنا موقف دنیا کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ان کے جائز مطالبات کو تسلیم کرلیا جائے تو وہ بھی افغانستان میں امن ، معاشی ترقی ، بنیادی انسانی حقوق اور خواتین کی جدید تعلیم سمیت پڑوسی ممالک کے ساتھ بہتر تعلقات کو یقینی بنائیں گے ۔ افغان مفاہمی عمل کا باقاعدہ آغاز بگواش کانفرنس کے بعد شروع ہوا۔جو جرمنی و قطرفارمیٹ کے نام سے مشہور ہوا۔ جس میں روس نے اہم کردار ادا کیا۔روس نے افغان طالبان اور افغانستان کے بیشتر اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اہم کانفرنس کا اہتمام کیا ۔ جس میں غنی انتظامیہ نے شدید ردعمل ظاہر کیا اور اقوام متحدہ کو شکایت بھی کی افغان طالبان رہنما عالمی پابندیوں کی پاسداری نہیں کررہے۔
جولائی 2018میں امریکی نائب معاون وزیرِ خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا ایلس ویلز نے دوحا میں افغان طالبان کے نمائندوں کیساتھ ملاقات کی تھی جس کا مقصد طالبان کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے امکانات کا جائزہ لینا تھا۔امریکی عہدیدار سے ملاقات کرنے والے چار رکنی طالبان وفد کے ایک رکن نے بعد ازاں کہا تھا کہ اس ملاقات سے بہت مثبت اشارے ملے ہیں۔خصوصی ایلچی برائے افغانستان کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد زلمے خلیل زاد نے پاکستان، افغانستان، بھارت ،برطانیہ، روس،جرمنی ازبیکستان، ترکمانستان، بیلجیم، متحدہ عرب امارات، قطراور چین کے دورے بھی کئے اور افغان مفاہمتی عمل کی پیش رفت سے آگاہ کرتے رہے ۔ بالخصوص پاکستان کے خصوصی دوروں میں وزیر اعظم سمیت اعلی سنیئر وفوجی حکام کے ساتھ ملاقاتیں ہوئی اور امریکی صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے افغان مفاہمی عمل میں مدد دینے اور زلمے خلیل زاد کے ساتھ خصوصی تعاون کے لئے باقاعدہ تحریری طور پر اپیل کی ۔جس کے بعد امریکا اور پاکستان میں تعلقات میں بہتری کا راستہ بھی ہموار ہوا۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں پہلا غیر رسمی مذاکراتی دور12اکتوبر2018کو دوحہ میں ہوا تھا۔زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے پہلے دورے میں سیاسی دفتر کے سربراہ، محمد عباس ستانگزئی سے ملاقات کی تھی۔ طالبان کی ٹیم میںدوحہ دفتر کے نائب سربراہ مولوی عبدالسلام حنیفی، صلاح الدین دلاور، قاری دین محمد، زاہد احمدزئی اور محمد سہیل شاہین شامل تھے۔16نومبر2019کو دوحہ دوسرا جبکہ تیسرا دور17دسمبر2018کوابو دوبئی میں ہوا ۔ جس کا اہتمام پاکستان کی سہولت کاری کے سبب ممکن ہوا تھا ، جس پر امریکانے پاکستان کی کوششوں کو سرہاتے ہوئے امن کوششوں کا خیر مقدم کیا۔
دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کاچوتھادور 19جنوری 2019 میںدوحہ میں ہوا۔ کیونکہ18برس کی جنگ کے خاتمے کے لئے امریکا کی جانب سے پہلی بار سنجیدہ بنیادوں پر براہ راست مذاکرات ہو رہے تھے۔ جس میں دونوں فریقین کے درمیان عدم اعتماد و بے یقینی کی فضا کے خاتمے سمیت آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے فضا کو ساز گار کرنا ضروری تھا۔ افغان مفاہمتی عمل کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے پاکستان میں بھی مذاکرات پر مشاورت کی گئی تھی۔توقع کی جا رہی تھی کہ افغان طالبان، کابل انتظامیہ کو بھی مذاکرات میں شریک کرنے پر آمادہ ہوجائے گی، لیکن نویں دور کے اختتام تک افغان طالبان اپنے موقف پر سختی سے ڈٹے رہے اور اپنے حلیف ممالک کی اپیل پر بھی انہوں نے کابل انتظامیہ کو کسی بھی مذاکراتی عمل میں شریک نہیں کیا۔ جس پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات نے ناراضگی کا اظہار بھی کیا اور ان ممالک سے افغان طالبان کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں۔
دوحہ مذاکراتی عمل کا پانچواںدور25فروری 2019میں ہوا ۔ افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں اب سنجیدہ کام شروع ہورہا ہے، یہ ایک اہم گھڑی ہوسکتی ہے۔ زلمے خلیل زادکا کہنا تھا کہ ملاقات میں مزید طالبان راہنمائوں کی شرکت سے مذاکرات کا حالیہ دور انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں نے مذاکرات کی میزبانی اور معاونت کے لیے قطر اور پاکستان کی تعریف کی۔ دوحہ مذاکرات میں پہلی دفعہ تنظیم کے بانی رکن اور ملا محمد عمر مجاہد کے انتہائی قریبی ساتھی سمجھے جانے والے طالبان راہنما ملا عبدالغنی برادر بھی نہ صرف قطر پہنچے بلکہ وہ جاری مذاکرات میں طالبان وفد کی قیادت بھی کی۔ واضح رہے کہ2010میں پاکستان نے ملا عبدالغنی بردار کو گرفتار کیا تھا جنہیں افغان طالبان کے مطالبے پر رہا کردیا لیکن دوبئی میں ہونے والے مذاکراتی دور میں پاسپورٹ نہ ہونے کے سبب شریک نہیں ہوپائے تھے ۔احتجاج پر زلمے خلیل زاد نے بذات خود ملا عبدالغنی بردار کی قطر آمد کو یقینی بنایا۔ امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان کے رہنما ملا عبدالغنی برادر کی قطر میں مذاکرات کے چوتھے دور سے پہلے ایک غیر رسمی ملاقات بھی ہوچکی تھی ۔
افغان طالبان نے امریکا کے ساتھ مفاہمتی عمل مذاکرات کے لیے 14 رکنی ٹیم بنائی۔ جس میں انس حقانی سمیت گوانتاناموبے کے 5 سابق قیدی بھی شامل تھے جب کہ انس حقانی اب بھی کابل جیل میں اسیر ہیں۔ افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ ملا برادر نے امیر ہیبت اللہ اخند زادہ کی مشاورت سے ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ٹیم کی سربراہی ملا شیر محمد عباس استانکزئی کررہے ہیں جب کہ دیگر اراکین میں مولوی ضیاء الرحمان مدنی، مولوی عبدالسلام حنفی، شیخ شہاب الدین دلاور، ملا عبدالطیف منصور، ملا عبدالمنان قمری، مولوی عامر خان، ملا محمد فضل مظلوم، ملا خیر اللہ، مولوی مطیع اللہ، ملا محمد انس حقانی، ملا نور اللہ نوری، مولوی محمد نبی عمری اور ملا عبدالحق واثق شامل ہیں۔ ملا عبدالغنی بردارکو دوحہ سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا گیا۔اپریل2019میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان میں کابل انتظامیہ سمیت کئی اہم شخصیات سے بھی ملاقاتیں کیں اور دوحہ مذاکرات دور سے قبل پاکستان کا دورہ کیا ۔ اس وقت زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان کے ساتھ پاکستان میں ہی مذاکرات کرنے کی خواہش ظاہر کی اور پاکستان میں دو روز اپنے شیڈول سے زاید قیام کیا لیکن افغان طالبان ، کابل انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے لئے رضا مند نہیں ہوئے کیونکہ افغان طالبان کابل انتظامیہ کو امریکا کی کٹھ پتلی سمجھتے تھے کہ مفاہمتی عمل کابل انتظامیہ کے بجائے امریکا ہی حل کرسکتا ہے۔ یہ ایک بڑا الجھن والا دور تھا اور زلمے خلیل زاد کی تمام تر کوشش کے باوجود افغان طالبان ، پاکستان میں کابل انتظامیہ سے مذاکرات پر آمادہ نہیں ہوئے اور مفاہمتی عمل ہی ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا ۔ ڈیڈ لاک کو ختم کرنے کے لئے پاکستان نے اہم خاموش کردار ادا کیا اور افغان طالبان کو امریکا سے دوبارہ مذاکرات کرنے پر رضا مند کرالیا۔
امریکا اور افغان طالبان کے درمیان29اپریل 2018 میں چھٹا دور منعقد ہوا جس کی تصدیق قطری حکومت کی جانب سے کی گئی۔ قطری دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ تحریری اعلان میں واضح کیا گیا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مئی کو درالحکومت دوحہ میں سر انجام پانے و الے مذاکرات افغانستان میں امن و استحکام کے قیام کا ہدف رکھنے والے اور اس سے قبل کے دو مرحلوں کے دوام کی حیثیت رکھتے ہیں۔اعلامیہ کے مطابق طرفین نے گزشتہ دو ملاقاتوں میں حتمی شکل دیے گئے’غیر ملکی قوتوں کے افغانستان سے انخلائ’ اور’ افغان سر زمین کو امریکہ یا پھر کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کیے جانے’ پر مبنی فریم معاہدے پر غور کیا ہے۔مزید بتایا گیا ہے کہ قطر حالیہ مذاکرات سے افغان امن سلسلے میں معاونت ملنے کی امید رکھتا ہے۔19اپریل2019میں افغان طالبان اور اپوزیشن جماعتوں کے درمیان پہلا بین الافغان کانفرنس کا انعقاد ہونا تھا لیکن کابل انتظامیہ کی جانب سے 250افراد کی ایسی ٹیم تیار کی گئی جس پر افغان طالبان کو کہنا پڑا کہ شادی کی کوئی تقریب نہیں ہے۔ بین الافغان کانفرنس منسوخ ہوگئی اور ایسا لگا کہ امن کوششوں کو دھچکا پہنچانے کی کوشش غنی انتظامیہ کی جانب سے دانستہ کی گئی ہو۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کا 18 سال سے یہ مطالبہ رہا ہے کہ امریکا مذاکرات سے قبل افغان سے فوج نکالنے کا اعلان کرے۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ اگر امریکا نے افغانستان سے فوج کی واپسی کا فیصلہ نہ کیا تو اس کے ساتھ مذاکرات مزید آگے نہیں بڑھائے جاسکتے۔یہ دھمکی امریکی خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد کے افغانستان پہنچنے کے کچھ دیر بعد سامنے آئی تھی۔ اس سے قبل انہوںنے چین اور بھارت کے دورے کے دوران افغانستان میں قیام امن کے امور پر تفصیلی بات چیت کی تھی۔خلیل زاد نے کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان مذاکرات پرآمادہ ہوں تو ان کے ساتھ بات چیت کی جاسکتی ہے۔ اگر وہ لڑائی چاہتے ہیں تو ہم بھی لڑائی کے لیے تیار ہیں۔ادھر وائٹ ہائوس نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان سے فوج کی واپسی کے لیے پینٹا گون کو ہدایات جاری نہیں کی گئیں ہیں۔حالاں کہ چند روز قبل امریکی صدر نے افغانستان میں تعینات 14 ہزار میں سے نصف فوج واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔امریکی مندوب زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ طالبان امن کا موقع ضائع نہیں کریں گے۔اگر انہوں نے مذاکرات کا راستہ نہ چنا تو ہم لڑائی کے لیے بھی تیار ہیں۔ لڑائی کی صورت میں امریکا افغان حکومت اور قوم کے ساتھ کھڑا ہوگا۔مئی 2019میں امریکا ، بھارت کی جانب سے افغان مفاہمتی عمل میں کسی قسم کے کردار ادا کرنے سے مایوس ہوا اور زلمے خلیل زاد کا دہلی دورہ ناکامی کا شکار ہوا۔ جس پر صدر ٹرمپ نے بھی برہمی کا اظہار کیا کہ” بھارت ، افغانستان میں کوئی کردار ادا نہیں کررہا ۔ بھارت نے لائبریری بنانے کے علاوہ افغانستان میں کیا کیا ہے”۔
29جون 2019میں امریکا اور افغان طالبان کے درمیان ساتواں مفاہمتی عمل دور ہوا۔دوحا میں افغان طالبان کی جانب سے مختص کردہ نمائندگان اور امریکا کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد کے درمیان طویل مذاکرات کے بعد چار نکات افغان سرزمین کی امریکہ اور اُن کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہ ہونا،امریکی اور بین الاقوامی افواج کا انخلا،افغان حکومت کے ساتھ بین الافغان مذاکرات،جنگ بندی میں سے پہلے دو نکات پر اتفاق رائے ہوگیا جبکہ دو نکات بین الافغان مذاکرات کے لئے چھوڑ دیئے گئے۔امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کا کہنا تھا کہ دوحا میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کا دور مکمل ہوا، امن کے لیے شرائط میں بہتری آئی ہے اور اب واضح ہے کہ فریقین جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔دوسری جانب افغان طالبان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین اب اپنی اپنی قیادت کو آگاہ کر کے آئندہ ملاقات کی تیاری کریں گے۔یاد رہے کہ افغان طالبان اور امریکی حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے اب تک افغان حکومت کو دور رکھا گیا ہے کیوں کہ افغان طالبان اپنی حکومت سے بات کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔تاہم امریکی حکام کا کہنا ہے کہ حتمی معاہدہ ہونے کے بعد طالبان کو افغان حکومت سے بات کرنی ہوگی اور باضابطہ طور پر جنگ بندی کا اعلان کرنا ہوگا۔اس سے قبل دوحا میں افغان طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات میں 18 تا24ماہ کے اندر افغانستان سے غیر ملکی افواج کے انخلاء پر اتفاق کیا گیا تھا۔اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا تھا کہ جنگ بندی کا شیڈول آئندہ چند روز میں طے کیا جائے گا جبکہ طالبان جنگ بندی کے بعد غنی انتظامیہ سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔ مذاکرات میں خاص طور پر افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی اور طالبان کی طرف سے اس بات کی گارنٹی دیے جانے، امریکی افواج کی واپسی کے بعد افغان سرزمین کو عالمی سطح پر دہشت گردی کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور استعمال نہ کرنے کا ایجنڈے کو ہی بڑھایا گیا خلیل زاد قبل ازیں یہ کہہ چکے تھے کہ اس بارے میں ایک ابتدائی معاہدے کا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا ہے۔
29جون2019کودوحہ میں جاری امریکا طالبان امن مذاکرات کا ساتواں دور بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا تاہم امریکہ نے دعوی کیا کہ مذاکرات میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے۔ جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق کچھ باتیں بدستور حل طلب ہیں اس لئے افغان امن عمل سے متعلق بات چیت اگلے مذاکرات میں جاری رہے گی۔واضح رہے کہ قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں ہونے والے امن مذاکرات کے بعد جس میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء اور طالبان کا کچھ علاقوں میں اپنی حکومت کے قیام سے متعلق معاملات کو حتمی شکل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے. امریکی وزیر خارجہ نے کابل کے غیر اعلانیہ دورے پر پہلی ستمبر تک امن ڈیل کے طے ہونے کی امید ظاہر کی تھی۔تاہم اس وقت تک دونوں فریقین کے درمیان ڈیڈ لاک موجود تھا۔قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغان مفاہمتی عمل کے درمیان طالبان اور افغانستان کے نمائندوں کے درمیان منعقد کی گئی 2 روزہ ابین لافغان افغان کانفرنس بھی ہوئی ۔ جس میں قیام امن اور 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے منصوبے پر اتفاق رائے پایا گیا۔ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ وہ یکم ستمبر تک افغانستان میں قیام امن کے حتمی معاہدے کے لیے پْرامید ہیں جس کے بعد امریکا اور نیٹو کی افواج کو انخلا کی اجازت صدر ٹرمپ دیں گے۔
زلمے خیل زاد نے مزید کہا طالبان سے مذاکرات کے بعد چین کا دورہ کرکے واپس واشنگٹن جاؤنگا، واشنگٹن جاکر افغان امن عمل سے متعلق پیشرفت سے آگاہ کرونگا۔ بین الافغان مذاکرات کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ جنگ کے خاتمے کے بعد افغانستان میں اسلامی قانونی نظام نافذ ہوگا، اسلامی اقدار کے تحت خواتین کے حقوق کی حفاظت کی جائے گی اور تمام قومیتوں کے لیے مساوات کو یقینی بنایا جائے گا۔ بین الا افغان مذاکرات میں طالبان، افغان حکومت کے نمائندوں، خواتین اور دیگر نامور شخصیات نے شرکت کی، جس کا مقصد افغان معاشرے میں اتفاق رائے قائم کرنا تھا۔ تاہم اس حوالے سے آئندہ مذاکرات کے لیے کوئی تاریخ نہیں بتائی گئی تھی۔ 03اگست 2019 میں افغانستان میں جنگ کے خاتمے کیلئے طالبان اور امریکہ کے مابین امن مذاکرات کا آٹھواں دور قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہوا۔آٹھواں دور امریکی انتظامیہ کی جانب سے متنازعہ بیانات کی وجہ سے تعطل کا شکار ہوگیا۔تاہم آٹھویں دور میں امریکا اور امارات اسلامیہ نے نے کسی ڈیڈ لاک کا تاثر دیئے بغیر معاہدے کے اگلے مراحل کے بارے میں اپنے رہنمائوں سے مشاورت کے بیانات دیئے۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اس شرط پر ہوگا کہ عسکریت پسند افغانستان کو دوسرے ملکوں پر حملوں کیلئے اڈے کے طور پر استعمال نہیں کریں گے۔
ادھر افغانستان کے مصالحتی عمل کے بارے میں امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد جو مذاکرات میں امریکہ کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی ہیں نے ایک بیان میں کہا کہ دیرپا اور باوقار امن معاہدے کے لئے سخت محنت کی جارہی ہے۔ بعد میں عید الاضحی کی مناسبت سے ایک ٹویٹ میں زلمے خلیل زاد نے کہا کہ افغانی امن کے خواہشمند ہیں اور امید ہے کہ یہ عید حالت جنگ میں افغانستان کی آخری عید ہوگی۔22اگست2019کے نویں دور میں امریکا اور امارات اسلامیہ کے درمیان حتمی معاہدہ طے پا گیا جس پر امریکی صدر نے توثیق کرنا تھی لیکن 08ستمبر2019کو امریکی صدر نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیا۔افغان طالبان کے مطابق معاہدے کا دوسرا مرحلہ بین الافغان مذاکرات23ستمبر کو ہونا تھے ۔ امریکی صدر نے عجلت میں مذاکرات ختم کردیئے ہیں اور افغا ن طالبان کے خلاف سخت اقدامات کی سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے ۔ جواباََ افغان طالبان نے غیر ملکی افواج کے انخلا تک جنگ بندی مسترد اور سخت جنگ جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی برداری دونوں فریقین پر دوبارہ مذاکرات کو جاری رکھنے پرزور دے رہے ہیں، تاکہ افغانستان میں پائدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔