فضائیہ کے شاہین

Pak Air Force

Pak Air Force

تحریر : شاہ بانو میر

مؤرخ اسلام مولانا اکبر شاہ خاں نجیب آبادی صاحب کی

انتہائی خوبصورت اور قابل ستائش کتاب

تاریخ اسلام پڑھ رہی تھی

شھادت عثمان کے بعد حضرت علی کی

خلافت کا باب شروع ہی ہوا تھا

کہ

بہت ہی کم آواز میں چلتے ٹی وی سے

جیسے جانی پہچانی آواز ابھری

نگاہیں اٹھا کر دیکھا

تو

عالمگیر حق

مایہ ناز پاکستانی پاپ گلوکار سامنے تھے

آنسوؤں سے تر آنکھیں

پس پردہ

تم سے ہی تو اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے

تین دہائیوں سے فضائیہ کے شاہینوں کی طرح

فضا میں تیرتا گونجتا

جوانوں کا لہو گرماتا نغمہ

جس پر پاک فضائیہ نے انہیں

لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ کیلئے چنا تھا

عالمگیر کی شخصیت

دنیائے موسیقی میں گراں قدر خدمات رکھتی ہے

عمر بھر دنیائے موسیقی سے منسوب رہنے والے

اس شہرہ آفاق گلوکار نے

پاکستان کیلئے

اور

خاص طور سے پاک فضائیہ کیلئے اس نغمے کو

اپنے خوابوں کی تعبیر قرار دیا

کسی بھی شاہکار تخلیق کیلئے

ہُنر کے ساتھ ساتھ روح سینچی جاتی ہے

خواہ

وہ تین سے پانچ منٹ کا نغمہ ہی کیوں نہ ہو

تب کہیں جا کر کوئی شاہکار تخلیق ہوتا ہے

ان کا کہنا تھا

کہ

اس نغمے کو شاہکار بنانا چاہتے تھے

اور

اس کے لئے انہوں نے بہت سوچ بچار کی

اور

جب نغمہ پاکستان کی آزاد فضاؤں میں بکھرا

تو

ہر جانب سے پزیرائی نے ان کی روح کو سرشار کر دیا

کہ

وہ شاہکار نغمہ تخلیق کرنے میں کامیاب ہو چکے ہیں

عمر بھر ذاتی شہرت اور فائدے کیلئے کام کرنے والے

اس گلوکارکو ہم نے عمر بھر اچھل کود کرتے دیکھا

پاپ موسیقی پر اس کے ساتھ سب کو ناچتے دیکھا

بہترین آواز کے باوجود

کوئی اہمیت تھی نہ کوئی مقام

مگر

جب سوچ قومی زاویے پر مرکوز ہوئی

تو

شاہکار تخلیق ہوا

جس نے اس فنکار کی عزت میں چار چاند لگا دیے

ہال میں موجود پاک فضائیہ کی باوقار قیادت

اور

دیگر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد

باوقار انداز میں اس نغمے کو سن رہے تھے

اور

میں نے بغور دیکھا

آہنی عزائم کے ساتھ بڑے سے بڑے دشمن سے بے خوف و خطر بھِڑ جانے والے

شیر جوان

اس نغمے کے لطیف پیرائے کو محسوس کر رہےتھے

احساس سے لبریز حروف نے ان کے آہنی دلوں کو جیسے

نرم گیلی مٹی بنا دیا ہو

حساس یوں ہوئے

کہ

آنسو بہہ رہے تھے

اور

آنسو پونچھے بھی جا رہے تھے

یہی شاہکار کا کمال ہے

اللہ رب العزت ہر فنکار کو شاہکار نہیں دیتا

جو اسے لازوال کر دے

جسے تاریخی بنانا مقصود ہو

اس کو وہ تان ملتی ہے جو سننے والے کو

داد تحسین دیتے ہوئے جھومنے پرمجبور کر دے

میرے سامنے پاک فضائیہ کے وہ جری بہادر جوان بیٹھے ہوئے ہیں

جو ملک کا قیمتی سرمایہ ہیں

خاموش وقار کے ساتھ وہ وطن پر اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں

حرف شکایت زباں پر نہیں لاتے

دوسری جانب اسی ملک کی سیاست ہے

شور شرابہ زندگی کا بابِ مستقل ٹھہرا

ملک کے دگرگوں حالات

کسی کے دل میں ہمدردی یا احساس نہیں جگاتے

کہ

اس کم بخت سیاست کو ترک کر کے

اس ملک کی بیس کروڑ سے زائد سادہ لوح آبادی کیلئے سوچے

ہر سیاسی کارکن تیر کمان تانے ہوئے

ترکش سے تاک تاک کر تیر داغ رہا ہے

اور

ظالم گھائل بھی کسے کر رہے ہیں

بار بار اپنے دیس کو اپنے وطن کو

جس کی سلامتی کیلئے

ان جیسے پاک فوج کے جوان

دن رات شھادتوں کے نذرانے پیش کر رہیے ہیں

اتنا تضاد

اتنا اختلاف

دو ادارے ملک ایک مگر

سوچ اور طرز تعمیر الگ الگ

ایک سر بکف ہے مادر وطن کی حرمت پر نثار ہونے کیلئے

اور

دوسری طرف

اس کی حرمت کو فراموش کر کے

صرف مفادات کی سیاست کے علمبردار

ہر طرح کی سوداگری کے لئے مستعد و چوکس ہیں

کتنے ہفتے ہو گئے

قلم لکھنے کا نام نہیں لے رہا تھا

سکرین پر ابھرتے ڈوبتے خونیں مناظر کشمیر پر لکھنے کا کہتے

مگر

اگلے ہی لمحے

کوئی سیاسی مفکر سیاسی دانشوری سے

ایسا احمقانہ بیان دیتا دکھائی دیتا

لگتا

کشمیر بھارت کی ڈھٹائی سے نہیں

بلکہ

ہمارے اختلاف رائے سے

ہم سے دور اور دور ہوتا جا رہا ہے

سب کہتے ہیں

کشمیر بنے گا پاکستان

میرا دل کہتا ہے

نہ مقبوضہ نہ آزاد

کشمیر کشمیر ہی بنے گا

اپنے لوگوں کی قربانیوں کی یادگار

اور

عظیم شھداء کی جانوں کی پہچان

ان کا اپنا وطن

خود کشمیریوں کا وطن

جو یقینی طور پے

پاکستان کے ساتھ جڑواں بھائی جیسے رہے گا

انشاءاللہ

کشمیر کے مسئلے کو حل کرنا ہے تو ہمیں

کشمیریوں کی ضرورت

پاکستان اور پاکستانیوں سے صرف یہ ہے

کہ

پاکستان سفارتی محاذ پر پوری دنیا میں

کشمیر پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو اجاگر کرے

کہ

وہاں کے مسلمانوں کیلئے

اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب رائے دہی سے

کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کیا جا سکے

لیکن

کشمیر میں مبحوس کشمیریوں کی

اس آزاد دنیا میں

قید کو چالیسواں روز بھی گزر گیا

اور

ہمارے سیاسی قائدین

اپنے بیانات میں سیاسی تشہیر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر پائے

ایسے بودے روّیے کیا کشمیر کیلئےکچھ کریں گے؟؟؟؟

یہ شور مچانے والے گرجنے والے بادل ہیں

جو برسنا نہیں جانتے

یہی ان کے غیر سنجیدہ انداز

ہفتوں سے لکھنے پر طبیعت کو مائل نہیں کر سکے

لیکن

آج ازخود قلم حرکت میں آیا

جب سامنے کچھ کرنے والے نظر آئے

ٹی وی پاک فضائیہ کے وہ خاموش کارنامے بیان کیے جا رہے تھے

جنہیں مجھ سمیت عام پاکستان نہیں جانتا

کیونکہ

یہ سیاسی ادارہ تو ہے نہیں

جو ہمہ وقت اپنی تشہیر میں مصروف عمل رہے

آج

اس پروگرام میں ان کے تکنیکی اور عسکری کارناموں کی لمبی فہرست بیان کی جا رہی تھی

جس سے مجھے علم ہوا

کہ

پاکستان میں ابھی بھی شاہکار تخلیق کیے جا رہے ہیں

ان ماہرین کی صورت جو ہمارے ملک کی زمین ہی کی نہیں

بلکہ

فضائی حدود میں دشمنوں کے دانت کھٹے کرتی ہے

ملک کو اپنی جاں دے کر مشکل سے نکالنے والے سامنے تھے

روشن چہرے

اور

توکل باللہ کے ساتھ چمکتی ذہین آنکھوں والے شاہین

جو دشمن پر جھپٹنے کو بالکل تیار بیٹھے ہیں

حوصلہ ہوا

ابھی اس ملک میں صرف باتوں کی سوداگری کرنے والے ہی نہیں

بلکہ

عملی میدان میں کچھ کر گزرنے والے حیات ہیں

عالمگیر کی آنکھوں کے آنسو نظر آئے

اس بہترین محفل میں شرکت کا اعزاز اور ایوارڈ ملا

جس نے ان کی موسیقی کا سفر یادگار بنا دیا

آج پاک فضائیہ کے اس خصوصی پروگرام کو دیکھ کر

ایک بار پھر شدت سے احساس ہوا

یہی وہ

اللہ کی غیبی مدد ہے

جس نے اس نیم مردہ ملک کے تن میں

زندگی کی رمق باقی رکھی ہوئی ہے

ورنہ

ملک کے عام معاشی و سیاسی حالات سے یہی لگتا ہے

کہ

ہم کسی طاقتور عمل سے کشمیر پر بات نہیں کر سکتے

جاں دیتے ہوئے نہتے لاچار کشمیریوں کیلئے

کوئی معجزاتی حل نکل آئے

جس سے یہ بے ضمیر سیاست کامیاب کہلائے

پاک فضائیہ کے ادارے اور اس کے کارناموں کو سن کر

قلم آمادہ تحریر ہوا

میرا ٹوٹا ہو حوصلہ بحال ہوا

کہیں کوئی ہے

جو

محافظ ہے اس عوام کا

اینکر جو بتا رہا تھا

اس سے واضح ہوا

کہ

جو گرجتے ہیں

وہ عمل سے محروم شور مچاتے ہیں

شور مچانے والوں کی دنیا سیاست ہے

جو عمل سے محروم نمائشی دنیا ہے

جہاں کرنے کو کام نہ ہوا وہاں صرف

ذات کی تشہیر پر زندگی صرف کی جاتی ہے

زندگی میں یہ لوگ بظاہر نامور ہوتے ہیں

جیسے ہی زندگی کا اختتام ہوتا ہے

آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل

اور

دوسری جانب

کچھ کرنے والوں کے پاس شہرت نمائش کیلئے چنداں وقت نہیں ہوتا

کرنے کے کام بہت اور وقت کم ہوتا ہے

خاموشی ان کی میراث اور عمل ان کے رویے میں نظر آتا ہے

یہی ہے

ان فضا کے شاہینوں کےعمل کی دنیا

جو

بلند طاقت پرواز رکھتی ہے

ضرورت پڑنے پر

دشمن کو دھول چٹاتے ہوئے خاک میں ملا دیتے ہیں

اپنے لہو سے اس دھرتی کو سینچ جاتے ہیں

ان کےخاموش کارنامے

ان کو حیات جاوداں عطا کر دیتے ہیں

وہ تو چلے جاتے ہیں

مگر

ان کی شھادت

انہیں ہمیشہ ہمیشہ زندہ کر جاتی ہے

پاکستان کی مترنم فضاؤں میں

اسی لئے تو ہمہ وقت گونج سنائی دیتی ہے

تم سے ہی تو اے مجاہدو

جہاں کا ثبات ہے

کیونکہ

تم پاک فضائیہ کے شاہین ہو

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر