امریکی صدر ٹرمپ نے دوحہ مذاکرات کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔ کابل پر حملے جواز قرار دیے گئے ہیں۔ تاہم مذاکراتی عمل مکمل ہونے کے بعد فائر بندی کا اعلان کیا جانا تھا۔ معاہدہ پر دستخط سے قبل مذاکرات کا منسوخ کئے جانا، جنگ کی مزید طوالت کا سبب بنے گا۔ جس کا نقصان افغان عوام اور فائدہ اُن عناصر کو ہوگا جو امن مفاہمتی عمل کے پایہ تکمیل تک پہنچ جانے پر خوش نہیں تھے۔ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان نویں دوحہ مذاکرات نے زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی بردار کے درمیان مفاہمتی مسودے کی شکل اختیار کرلی تھی۔ دوحہ میں زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی بردار کے درمیان مفاہمتی عمل کا نواں دور ایک بار پھربغیر کسی مشترکہ اعلامیہ کے بغیر ختم ہوا جس کے بعد امریکی صدر کے خصوصی ایلچی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد نے کابل انتظامیہ کے سامنے افغان طالبان سے معاہدے کا ڈرافٹ پیش کردیاکہ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان امن معاہدہ طے پا چکا ہے اور یہ حتمی مسودے کا ڈرافٹ ہے۔ میڈیا کے سامنے مسودے کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آئیں لیکن یہ ضرور بتایا گیا کہ امریکا 135دنوں کے اندر اپنے5400فوجی واپس بلا کر پانچ فوجی بیس خالی کردے گا۔کابل انتظامیہ سمیت افغان طالبان مخالفین اور امریکی کانگریس کے کئی اراکین نے معاہدے پر اپنے شدید تحفظات اور افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے شکوک ظاہر کئے۔ اشرف غنی اپنی انتخابی مہم چھوڑ کر امریکا جانا چاہتے تھے لیکن انہیں امریکی صدر سے گرین سگنل نہ ملنے کے سبب اپنا دورہ ملتوی کرنا پڑا۔امریکی صدر کیمپ ڈیوڈ میں مصر اسرائیل طرز پر امن معاہدہ کرانا چاہتے تھے لیکن 7ستمبر کو افغان طالبان نے امریکا جانے سے انکار کردیا تھا۔ جس کے بعد اشرف غنی نے بھی اپنا دورہ منسوخ کیا اور امریکی صدر نے عجلت میں تمام مذاکراتی دور ہی منسوخ کردیا۔ دریں اثنا سہہ فریقی مذاکرات کا تیسرے دور میں، چینی اور افغان وزرائے خارجہ کی پاکستان پہنچے۔ زلمے خلیل زاد کی جانب سے مسودہ کو”اصولی بنیادوں پر متفقہ معاہدہ“ قرار دیا جارہا تھا۔ تاہم کابل انتظامیہ کی جانب سے شدید ردعمل پر زلمے خلیل زاد نے اسکاٹ ملر کے ہمراہ ہنگامی بنیادوں پر افغان طالبان سے قطر میں دوبارہ ملاقات کی، اس وقت بھی فریقین نے مسودے و مذاکرات کو پھر مثبت قرار دیا تھا۔تاہم صدر ٹرمپ کی جانب سے مسودے کی منظوری کا عمل باقی تھا۔ مسودہ امریکی انتظامیہ کے سامنے پیش کرنے کے سے قبل ہی سارا عمل ڈید لاک کا شکار ہوگیا۔کیونکہ دلچسپ امر یہی تھا کہ دوحہ مذاکرات کے اختتام کے بعد حتمی مسودے کو امریکی صدر ٹرمپ کی توثیق سے مشروط کیا گیا تھا۔ دوسری جانب ٹائم میگزین کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا تاہم بعد میں موقف سامنے آیا کہ تمام فریقین کی رضامندی کے بعد دستخط کردیئے جائیں گے۔
معاہدے کی مصدقہ تفصیلات سامنے نہ آنے کی وجہ سے ابہام و قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہا۔ تاہم سب سے زیادہ اس بات پر خدشات کا اظہار کیا جارہا تھاکہ افغانستان میں مستقبل کے حوالے سے حکومت سازی کے کسی مروجہ طریقہ کار کا ذکر نہیں ہے۔ نیز افغانستان میں سیز فائر کے حوالے سے بھی کوئی ایسی ضمانت موجود نہیں ہے جس میں طے کیا گیا ہو کہ امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان، کابل انتظامیہ کے زیر انتظام افغان سیکورٹی فورسز پر حملے کریں گے یا نہیں۔ معاہدے میں اس بات کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے کہ امریکا، افغانستان میں کسی ممکنہ خانہ جنگی میں اپنی مسلح طاقت کو استعمال کرے گا یا صرف مبصر کا کردار ادا کرتے ہوئے افغان طالبان و دیگر جنگجوؤں گروپوں کے درمیان صلح کے لئے سہولت کار بنے گا۔معاہدے میں اس بات کا بھی ذکر نہیں ہے کہ افغانستان میں 8600امریکی افواج کیا کریں گی؟۔(کیا وہ خفیہ جاسوسی کے فرائض انجام دیں گے)۔ یہاں یہ بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ کیا امریکی افواج انٹیلی جنس کے کردار تک محدود ہوگی اور افغان طالبان رہنماؤں کے منظر عام آنے کے بعد ’پرائیوٹ کنٹریکٹر‘ بلیک واٹر کے ذریعے انہیں ہدف بنائے گی۔ معاہدے میں اس بات کا ذکر بھی قیاس آرائیوں کا مرکز ہے کہ کیا 18برس کی اس جنگ کے دوران دونوں فریقین اپنے اپنے قیدیوں کا تبادلہ کریں گے یا نہیں۔ انس حقانی، جو اس وقت افغان طالبان شوری کے اہم رکن اور مذاکراتی ٹیم کے ممبر بھی تھے، انہیں بگرام جیل سے رہا کردیا جائے گا کہ نہیں۔ افغان طالبان نے جن5000 اسیروں کی فہرست زلمے خلیل زاد کو دی تھی اُن کا کیا ہوگا اور جو قیدی افغان طالبان کے پاس ہیں ان میں صرف امریکی یا غیر ملکی فوجی رہائی پائیں گے یا پھر افغان سیکورٹی فورسز کے قیدی بھی؟۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے بعد اگرصدر ٹرمپ نے مسودے پر دستخط نہ کئے تو کیا زلمے خلیل زاد کی ایک برس کی محنت رائیگاں چلی جائے گی یا پھر افغان طالبان صدر ٹرمپ کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے دوحہ میں مذاکراتی دور کو جاری رکھیں گے۔
واضح رہے کہ دوحہ مذاکرات میں امریکا اور افغان طالبان کے حتمی معاہدے کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ کا مرحلہ باقی تھا جو 23ستمبر کو ناروے میں ہونا تھا جس میں افغانستان کے انتظام و انصرام کا فیصلہ کیا جاتا۔ ممکنہ طور پر حکومت میں شامل کئی اہم شخصیات سے بھی مذاکرات ممکن تھے کیونکہ افغان طالبان نے اپنے بیانات میں واضح طور پر کہا تھا کہ امریکا سے معاہدہ ہونے کے بعد ہی دیگر مراحل طے کئے جائیں گے۔ اس وقت افغان طالبان افغان سیکورٹی فورسز سمیت غیر ملکی افواج کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ تاہم اس بات کا امکان تھا کہ مسودے پر دستخط کے بعد عارضی جنگ بندی ہوجائے تاکہ اس دوران اپوزیشن گروپس سمیت چھوٹے چھوٹے جنگجو گروپوں سے بھی معاملات فائنل ہوجائیں۔ واضح رہے کہ دوحہ میں سائیڈ لائن اس معاملے پر بھی کافی کام کیا جاچکا تھا۔ پاکستان بارہا کہہ چکا ہے کہ افغانستان میں پاکستان اپنی مرضی کی حکومت نہیں چاہتا۔ افغانستان کا مستقبل خود افغان عوام طے کریں گے۔ پاکستان، افغانستان میں بھارت کے کردار کے حوالے سے تحفظات ضرور رکھتا ہے لہذا اس حوالے سے امریکا کو پاکستان کے تحفظات کی ضمانت بھی فراہم کرنا ہوگی۔یہ بات تو ثابت ہوچکی ہے کہ افغان طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے برعکس صدر ٹرمپ کی مذاکراتی ٹیم کے پاس کسی فیصلہ کے لئے مینڈیٹ موجود نہیں تھا۔ انہیں اپنے ہر فیصلے کے لئے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اور امریکی صدر سے احکامات لینے لی ضرورت پڑتی ہے۔کابل انتظامیہ دوحہ مذاکرات میں کسی بھی مرحلے میں شریک نہیں ہوئے، لیکن امریکا اور افغان طالبان کے درمیان حتمی معاہدہ کی توثیق کی ذمے داری ان پر بھی عاید کردی گئی ہے کہ چاہے وہ مذاکرات میں شریک تھے یا نہیں، زلمے خلیل زاد چاہتے ہیں کہ وہ معاہدے کی تمام شقوں پر متفق ہوجائیں اور اس پر دستخط کردیں۔اسی طرح امریکا، افغان طالبان سے معاہدے کی شقوں پر ضمانت دینے والے ممالک سے بھی یہی چاہتا تھا کہ وہ ایک روایتی رسمی تقریب میں مسودے پر دستخط کردیں۔ پاکستان نے امریکا اور افغان طالبان کے درمیان براہ راست مذاکرات کے لئے بڑا خاموش اور اہم کردار ادا کیا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے افغان طالبان کو پابند رکھنے کے لئے پاکستان کو فریق اول کا درجہ دیا گیا ہو کہ اگر افغانستان میں ’کچھ بھی ہوا‘تو اس کی ذمے داری پاکستان پر عاید ہوگی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا کردار انتہائی محدود نظر آیا، ممکن ہے کہ پس منظر میں کچھ طے پایا ہو۔گذشتہ دنوں سعودی و متحدہ امارات کے وزراء خارجہ بھی پاکستان کا دورہ کرچکے ہیں، تاہم اس وقت تک قطر کے علاوہ روس، جرمنیناروے، آذربائیجان، چین، انڈونیشیا، ملائشیا، ایران اپنا کچھ نہ کچھ کردار اداکرسکتے ہیں۔ افغان طالبان کے لئے ضمانتی ممالک میں روس، چین، پاکستان کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے علاوہ قطر بھی شامل ہیں۔ لیکن اس پر بھی افغانستان میں افغان طالبان مخالف جماعتوں و سول سوسائٹی کی بیشتر تنظیموں کو تحفظات ہیں کہ ان18 برسو ں میں افغان طالبان کو نیٹو ممالک کی ایک لاکھ40ہزار کے کم و بیش فوجی قوت تمام تر جدید ٹیکنالوجی کے باوجود سرنڈر نہیں کراسکی تو چند ہزار غیر ملکی افواج مستقبل میں کیا کرسکتے ہیں؟، یا پھر افغان طالبان پر کون سی مزید پابندیاں عائد کرکے انہیں دباؤ میں لایا جاسکتا ہے۔ کیا امریکی صدر ایک کروڑ افراد پر ایٹم بم گرا کر افغانستان میں فتح کے لئے آخری اقدام اٹھائیں گے؟۔ جس کے بارے میں تواتر سے کہا جارہا ہے کہ ایک کروڑ افراد کو ہلاک کرکے افغانستان کی جنگ جیت سکتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرنا چاہتے۔ خدشات یہ بھی ہیں کہافغان طالبان کے زیر قبضہ علاقوں میں عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو اپنے معیار و مفادات کے مطابق صورتحال مناسب نہ لگے اور افغانستان میں داعش کے حملے جاری رہیں، جنگجو ملیشیاؤں کے ساتھ افغان طالبان خانہ جنگی کرتے رہیں تو امن مذاکرات کے حامیوں کو کہنے کا موقع مل جاتا کہ افغان طالبا ن اور امریکا کے درمیان معاہدہ بے سود رہا۔
ان تمام قیاس آرائیوں میں ”اگر“ مگر کی بڑی گردان رہی اورقیاس آرائیوں سے معاملات کو مبہم و مشکوک بنایاگیا۔ افغانستان میں جاری جنگ کے خاتمے کی پہلی اہم پیش رفت کو سوویت یونین کے انخلا سے جوڑا گیاکہ مستحکم امن تک امریکا کی موجودگی، افغانستان میں ضروری ہے۔ امریکا نے افغانستان میں کھربوں ڈالرز گنوائے ہیں، ہزاروں فوجیوں کے تابوت امریکا گئے ہیں، اربوں ڈالرز کے جنگی ساز و سامان کو اسکریپ کرکے بڑا نقصان اٹھایا گیا۔ امریکی عوام کے ٹیکسوں کی رقم سیکورٹی کے نام پر بے دریغ خرچ کی گئی۔ تواتنی بھاری سرمایہ کاری کے بعد امریکا نے افغانستان سے کیا حاصل کیا؟۔ عراق کی جنگ سے تو امریکا کئی سو برس تک مالی فائدے اٹھائے گا، شام جنگ سے عرب ممالک کو کھربوں ڈالرز کے اسلحہ فروخت کئے۔ لیکن افغانستان سے انہیں کیا ملا، کیا پوست کی کاشت سے ہونے والی کھربوں ڈالر کی اسمگلنگ اور معدنی وسائل سے امریکا نے اپنے اخراجات پورے کرلئے ہونگے یا پھر چین کو روکنے کے لئے ایک نئے ورلڈ آرڈر پر کام مکمل کیا جارہا ہے۔
افغانستان میں امن کے مستقبل کے کئی دور باقی ہیں۔ توقع تو یہی کی جارہی تھی کہ امریکی صدر معاہدے کی توثیق کردیں گے۔ کیونکہ امریکی صدر شروع سے اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ افغانستان سے تمام فوج کا انخلا نہیں ہوگا صدر ٹرمپ اور امریکی انتظامیہ کے مطالبے کو افغان طالبان نے تسلیم کرلیا تھا کہ فوری طور پر امریکی افواج کا انخلا نہیں ہوگا، لہذا اس کے بعدبظاہر جواز نہیں رہ جاتا تھاکہ امریکی انتظامیہ مسودے کی توثیق نہ کرتے۔ افغان طالبان نے مبینہ مسودہ کے مطابق امریکا کو مکمل افواج نکالنے کے لئے وقت دے دیا تھا۔ امریکی صدر افغانستان کی جنگ سے نکلنا چاہتے تھے۔ جو دوحہ میں اختتامی مذاکراتی عمل پر اتفاق کے بعد ممکن ہوگیا تھا۔ یہ بات طے شدہ ہوتی ہے کہ جب دو فریق کسی بھی الجھے و پیچیدہ مسئلے پر بیٹھتے ہیں تو ’کچھ لو، کچھ دو‘ کے اصولوں کے تحت ہی بات چیت کرتے ہیں۔ یہ بالکل ناممکن سی بات ہے کہ افغان طالبان کے تمام مطالبات مان لئے گئے ہوں، اسی طرح امریکا بھی کئی معاملات میں چار و ناچار پیچھے ہٹا ہوگا۔ اگر فریقین اپنے مطالبات میں لچک نہیں دکھاتے تو مذاکرات کبھی بھی کامیاب نہیں ہوتے۔ کچھ یہی عوامل امریکا اور افغان طالبان کے دمیان درپیش رہے۔ گوکہ یہ ممکن نہیں کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد اشرف غنی، حامد کرزئی یا زلمے خلیل زاد افغانستان میں رہتے۔ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اگر اشرف غنی و حامد کرزئی کو مستقبل میں کوئی حکومتی کردار نہیں ملتا تو وہ افغانستان میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی نہیں رکیں گے۔ اسی طرح جو حکومتی وزراء اس وقت بلند بانگ دعوے کررہے ہیں، امریکی عدم دلچسپی کے بعد اپنے گروپوں تک محدو د ہوجاتے۔ یہ جنگجو گروپ اتنے مضبوط و پروفیشنل نہیں ہیں، اس وقت چونکہ انہیں حکومت و امریکا کی جانب سے کمک مل رہی ہے اس لئے یہ گروپس اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ وہ افغان طالبان کو کابل میں داخلے سے روک سکیں گے۔ لیکن افغان طالبان کی جنگی صلاحیتوں و اسٹریجی کا مقابلہ نیٹو اور امریکی افواج جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود نہیں کرسکی تو چھوٹے گروپ عام عوام کو ہی دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی اسٹریجی ہی اپناسکتے ہیں۔ افغان سیکورٹی فورسز کی فضائی حملے کی قوت کم ہوجاتی اور یقینی طور پر امریکی بیس کیمپوں سے افغان سیکورٹی فورسز، افغان طالبان پر حملہ آور نہیں ہوتے، کیونکہ امریکی بیس کیمپوں سے اگر افغان سیکورٹی فورسز کی فضائیہ نے حملوں کے لئے اڑان بھرتے تو یہ امریکا کی جانب سے افغان طالبان کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی خلاف ورزی تصور بھی کیا جاسکتا ہے۔ امریکا کی باقی ماندہ فوج صرف ایک مبصر کی حیثیت سے افغانستان میں رہتی۔ اگر القاعدہ و مبینہ داعش کے ساتھ افغانستان کے باہر کسی بھی دہشت گردی کے واقعے میں افغان طالبان کی مدد ثابت ہوتیتو امریکا اپنا فیصلہ تبدیل کرسکتا تھا۔ تاہم موجودہ فیصلہ امریکی اسٹیبشمنٹ کے دباؤ کے تحت دیا گیا ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کو خطرات میں دیکھ کر امریکا، عراق پر مبینہ جھوٹے الزامات کی طرح دوبارہ کسی نئی جنگ کی تیاری شروع کردے، لیکن اس جنگ میں اس بار امریکا، پھر اکیلا نہیں ہوگا۔ اور نہ ہی یہ جنگ افغانستان تک محدود رہے گی بلکہ ایران، بھارت، چین، روس اور پاکستان بھی اس جنگ میں شامل ہوسکتے ہیں۔ جس سے اندازہ لگانے میں کوئی دقت نہیں کہ اس نئی جنگ کے بعد دنیا بھی جنگ کے شعلوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی اور ایک کے بعد ایک ملک نہ چاہتے ہوئے بھی جنگ کا حصہ بنتے چلا جائے گا۔اس وقت صرف ظاہری امکانات پر ہی بات ہوسکتی ہے۔ کسی یقینی ممکنہ صورتحال پر وثوق سے نہیں کہا جاسکتا۔ تاہم اس بات کے خطرات با اتم موجود ہیں کہ شام جیسی مملکت میں جو صورتحال، دو بڑی عالمی قوتوں کے ہوتے ہوئے بھی مخدوش ہے، تو افغانستان بھی عالمی طاقتوں کے درمیان اجارہ داری کا اکھاڑہ بن سکتا ہے۔ چین اگر پاکستان سے صرف نظر بھی کرتا ہے تو ایران کے راستے سے پھر بھی چین کو افغانستان سے ہی گزرنا ہوگا اور چین کو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ وہ کسی بھی عالمی طاقت کے پراکسی وار کا شکار نہیں ہوگا۔ اگر چین، قطر کی طرح شدت پسندوں کو اپنی تنصیبات کو نقصان نہ پہنچانے کے عوض معاوضہ دے تو چین، امریکا کی ہی نہیں بلکہ دیگر عالمی طاقتوں کی پابندیوں کی زد میں آسکتا ہے۔ ان حالات میں چین کا سلامتی کونسل میں رہنا بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکے گا۔
28 ستمبر 2019 صدارتی انتخابات سے پہلے ہر صورت افغانستان کے مستقبل کا فیصلہ و معاہدے کے مندرجات منظر عام پر آنے سے قبل مفاہمتی عمل ڈیڈ لاک کا شکار ہوگیا۔ راستہ ہموار رکھنے کے لئے فریقوں کو کیا کیا قربانی دینا ہوں گی اور کون کون اس بزگشی کا حصہ بنے گا، چند دنوں میں تمام ٹیکنکل معاملات سے دنیا باخبر ہوجائے گی۔ اس وقت گیند صرف اور صرف امریکی صدر کے کورٹ میں ہے۔ زلمے خلیل زاد اور ملا عبدالغنی بردار کی ٹیمیں اپنے تمام ہوم ورک کے ساتھ ایک برس کے عرصے میں دس مذاکراتی ادوار میں ممکنہ نتیجے پر پہنچ چکی تھی جو ایک عجلت میں دی گئی ٹوئٹ نے اکارت کردی گیں۔ نیز دوئم بین الافغان کانفرنس میں اپوزیشن و سیاسی جماعتوں کے ساتھ کابل انتظامیہ کے درمیان کوئی درمیانی راستہ نکلنے کی توقع تھی۔ لیکن مفاہمتی عمل روک دیئے جانے سے اب کیا فرق پڑے گا اس اندازہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے۔ بصورت دیگر خانہ جنگیوں سے ہی فیصلہ کرنا ہے تو پھر سوویت یونین کے بعد والے دور کو یاد ضرور رکھیں کہ اس کا انجام کیا نکلا تھا۔باہمی اختلافات و نا اتفاقیوں سے سوویت یونین اور امریکا کی طرح کوئی نہ کوئی افغانستان پر مسلط ہوتا رہے گا۔ہزاروں برس پر میحط تہذیب تباہی و زوال کے دہانے پر کھڑی ہے۔ اس تباہی کو افغان عوام نے خود ہی روکنا ہوگا۔ کیونکہ یہ ان کے آبا و اجداد کا وطن ہے۔امریکی اسٹیبلشمنٹ اپنے مقاصد کے لئے جنگ کو مزید آگے لے جاسکتی ہے اسی طرح افغان طالبان کو بھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ فرق صرف عوام کو پڑنا ہے جو امن کا انتظار کررہے ہیں۔ امریکا کی سیاسی و دفاعی پوزیشن کمزور ہوئی ہوئی ہے جب کہ افغان طالبان نے بہت کچھ پا لیا ہے۔ لہذا جب تک جنگ جاری ہے، جنگ پسند عناصر افغانستا ن میں امن کی تمام کوششوں کو سبوتاژ کرتے رہیں گے۔ جو افغانستان کے لئے ایک اچھا فیصلہ نہیں ہے۔