سکھر (اصل میڈیا ڈیسک) احتساب عدالت نے پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو یکم اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر دیا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما خورشید شاہ کو احتساب عدالت کے جج امیر علی مہیسر کے روبرو پیش کیا گیا۔
وکیل نیب نے کہا کہ خورشید شاہ پر آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں انکوائری شروع کی ہے، خورشید شاہ انکوائری میں نیب سے تعاون نہیں کر رہے اور تعاون نہ کرنے پر ہی خورشید شاہ کو گرفتار کیا گیا۔
نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خورشید شاہ کو خط بھی لکھے گئے مگر ان کی جانب سے تعاون نہیں کیا گیا۔
دوران سماعت نیب حکام کی جانب سے خورشید شاہ کے 15 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔
خورشید شاہ کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ خورشید شاہ کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، خورشید شاہ کے خلاف 2014 میں بھی نیب نے ان ہی الزامات کے تحت انکوائری کی تھی۔
وکیل خورشید شاہ نے کہا کہ ہائیکورٹ کے حکم پر 2014 میں نیب نے ہی خورشید شاہ کے خلاف کیس ختم کیا تھا۔
احتساب عدالت کے جج نے نیب حکام سے خورشید شاہ کی گرفتاری کے حوالے کاغذات طلب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے گرفتاری اور الزامات کے حوالے سے کوئی کاغذات جمع نہیں کرائے۔
نیب حکام نے بتایا کہ کاغذت ساتھ نہیں لائے، دفتر میں موجود ہیں، جس پر جج نے نیب حکام کو آدھے گھنٹے میں تمام کاغذات پیش کرنے کا حکم دیا۔
جج امیر علی مہیسر نے کہا کہ بغیر کاغذات 15 روزہ ریمانڈ نہیں دے سکتا۔
عدالت نے خورشید شاہ نے استفسار کیا کہ آپ کو صحت کے حوالے سے کوئی مسئلہ تو نہیں ہے جس پر خورشید شاہ نے کہا کہ صحت کا کوئی مسئلہ تو نہیں ہے لیکن گھر سے کھانا منگوانے کی اجازت دی جائے۔
عدالت نے خورشید شاہ کو نیب حراست کے دوران تمام طبی سہولیات اور گھر سے کھانا منگوانے کے علاوہ فیملی ممبران سے ملاقات کی اجازت بھی دیدی۔
نیب ٹیم آدھے گھنٹے بعد خورشید شاہ کی گرفتاری سے متعلق دستاویزات لے کر احتساب عدالت پہنچی اور پھر احتساب عدالت نے خورشید شاہ کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرتے ہوئے یکم اکتوبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دیا۔