ٹیکساس (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ٹرمپ اتوار کو ہیوسٹن میں بھارتی وزیر اعظم کے ایک جلسے میں شرکت کر رہے ہیں۔ اس موقع پر امریکا میں مقیم پاکستانی اور کشمیری کمیونٹی بھرپور احتجاج کا ارادہ رکھتی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی دونوں اپنے اپنے ملکوں میں اکژیت کے قوم پرستانہ جذبات کی نمائندگی کرتے ہوئے اقتدار میں آئے۔ دونوں کے طرز عمل میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں ٹوئٹر پر بڑے فعال ہیں اور اکثر اوقات اہم اعلانات اسی پلیٹ فارم پر کرتے ہیں۔
اتوار کو دونوں امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہیوسٹن میں اکھٹے ہو رہے ہیں۔ امریکا میں تعینات بھارتی سفیر ہرشا وردھان شرنگلا کے مطابق یہ جلسہ ایک نئی روایت قائم کرے گا۔
اس رنگا رنگ تقریب کا انعقاد ہیوسٹن کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں ہو رہا ہے۔ منتظمین کو تقریبا پچاس ہزار بھارتی نژاد امریکی شہریوں کی شرکت کی توقع ہے۔ ہاڈی مودی کے نام سے سجنے والے اس میلے کو امریکا میں کسی غیر ملکی رہنما کا سب سے بڑا اجتماع کہا جا رہا ہے۔
امریکی صدر ویسے تو بڑے بڑے اجتماعات کی شکل میں اپنی مقبولیت دکھانے کے شوقین ہیں لیکن انہیں کثیر الثقافتی معاشرے یا پھر امریکی سرزمین پر غیر ملکیوں کے حامی کے طور پر نہیں دیکھ جاتا۔ امیگریشن پر سخت گیر موقف ان کی سیاست کا اہم جزو ہے۔ تو پھر کیا ہے جو انہیں مودی کی اس ریلی کی طرف لا رہا ہے؟
امریکا میں آئندہ انتخابات چودہ ماہ میں متوقع ہیں۔ ہیوسٹن مختلف رنگ و نسل کے لوگوں کا شہر مانا جاتا ہے اور ٹرمپ کی کوشش ہے کہ وہاں قدم جمائے جائیں اور ساتھ ہی امریکا میں تقریبا چار ملین بھارتی کمیونٹی کی حمایت حاصل کی جائے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مودی حکومت کے حالیہ اقدامات پر مختلف حلقوں کی طرف سے مذمت جاری ہے۔ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ صدر ٹرمپ نے بارہا کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کر چکے ہیں۔ لیکن بھارت کا موقف ہے کہ کشمیر اس کا داخلی معاملہ ہے، جس پر کسی پر ثالثی کی گنجائش نہیں۔ بعض حلقوں کے نزدیک یہ مشترکہ ریلی اس بات کا ثبوت ہے کہ کشمیر کے معاملے پر دونوں رہنماں میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں اور وہ ایک دوسرے کے حامی ہیں۔
دوسری جانب ہاڈی مودی کے موقع پر امریکا میں مقیم کشمیری اور پاکستانی نژاد لوگ احتجاج کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی نھمہ نگار مونا کاظم نے ڈیلس سے بتایا کہ ریلی کے مقام پر احتجاج کے لیے امریکا کے مختلف حصوں سے پاکستانی وفود ہیوسٹن کا رخ کر رہے ہیں۔ بعض اندازوں کے مطابق مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہو سکتی ہے۔