موجودہ دور میں دنیا میں جنگوں کے طریقے تبدیل ہو چکے ہیں، گولی، بم چلانے کی جگہ معیشت کا نقصان ملکوں کو بحرانوں میں دھکیل دیتا ہے۔ ایران اور سعودی کشیدگی دنیا میں ایک اہم موضوع کے طور دیکھی جاتی ہے، اب تک تہران اور ریاض نے صرف پراکسی جنگیں لڑی ہیں۔ دونوں ملک براہ راست جنگ کے لیے تیار نہیں۔ تاہم حوثی باغیوں کے سعودی عرب کے دارالحکومت پر کسی بڑے حملے یا حالیہ واقعے کی طرح اگر اس کی کسی اہم اقتصادی جگہ کو نشانہ بنایا گیا تو معاملات ہاتھ سے نکل بھی سکتے ہیں۔
سعودی عرب کے انفراسٹرکچر پر حوثیوں کے حملے نے تہران اور ریاض کے تعلقات کو مزید کشیدہ بنا دیا ہے۔ خلیج کی بحری سرحد پر، جہاں دونوں ممالک ایک دوسرے کا سامنا کرتے ہیں، بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے بڑی لڑائی بھی شروع ہو سکتی ہے۔ ، ایران نے سعودی مخالفت میں یمنی حوثیوں کو کھڑا کیا اور اپنے مقاصد کے لیے انکو اسلحہ ، پیسہ اور وسائل فراہم کیے۔ جنگِ یمن کا یہ پانچواں سال ہے ۔ اس برس جنگ کا دائرہ سعودی حدود تک پھیل چکا ہے اور حوثی باغیوں نے سعودی عرب کے سرحدی قصبوں، بحیرۂ احمر اور بعض اطلاعات کے مطابق سعودی دارالحکومت ریاض اور یو اے ای تک کو اپنے میزائل اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا ہے۔ یمن کی حکومت کے نزدیک، جسے اقوام متحدہ، سعودی عرب اور یو اے ای کی حمایت حاصل ہے، اس جنگ کا مقصد ایک ہی رہا ہے، اور وہ ہے ایران نواز حوثیوں کو ملک پر قبضے سے روکنا۔ وہ اس مقصد میں کامیاب تو رہی ہے، البتہ یمنی عوام کو اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ اب جبکہ یمن جنگ کا زور ٹوٹ رہا ہے یمنی باغی کا گروہ سی ڈی پی سی بھی مذاکرات پر آمادہ دیکھائی دے رہاہے ، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان مملکت کو بلندیوں کی جانب لیکر جا رہے ہیں سعودی معیشت پر بڑا حملہ کرکے مملکت کے تیل کی تقریباً آدھی پیداوار روک دی گئی ہے۔
سعودی آئل ریفائنیز پر ڈرون یا راکٹ کی مدد سے حملے کیے گئے، حملوں کے مقام کا یمن سے فضائی فاصلہ تقریبا 1000 سے 800 کلومیٹر (900 میل) بنتا ہے جبکہ ایران سے تقریبا 300 کلومیٹر اور عراق سے یہ مقامات تقریبا 500 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہیں۔ یمن کی نسبت زیادہ تر امکان یہی ہیں کہ سعودی ریفائنری پر حملے عراق یا ایران سے کیے گئے، عراق میں اس وقت برائے نام حکومت قائم ہے جبکہ اصل طاقت امریکہ کے ہاتھ میں ہی ہے دوسری طرف ایران براہ راست اپنی سر زمین سے ایسے حملے انجام دیتا دیکھائی دے نہیں رہا لیکن پس پردہ ان حملوں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا، اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ تہران کی جانب سے حوثیوں کی ہتھیار اور ٹیکنالوجی کی شکل میں مدد دی جاتی ہے۔
سعودی وزارت دفاع نے ایک پریس کانفرنس کے دوران ایرانی ہتھیار اور آلات دنیا کے سامنے پیش کرنے کا اعلان کیا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ حملے ایران نے ہی کروائے ہیں۔ حملوں کے فوری بعد امریکہ نے ایران کو قصوروار ٹھہراتے ہوئے تہران پر حملے کا اشارہ دیا ہے اس ساری صورتحال میں امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیو نے بھی دل کھول کر ایران کے خلاف اپنی بھڑاس نکالی، سعودی تاریخ میں ولی عہد محمد بن سلمان نے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے سعودیہ کی مدد لینے سے انکار کر دیا لیکن دوسری طرف امریکی عسکری اتحاد میں شمولیت کا بھی اعلان کر دیا، اس سے اگلے اقدام کے طور پر سعودی ولی وہد نے اپنا فضائی دفاع مضبوط کرنے کے لیے جنوبی کوریا سے تعاون کی درخواست کر دی ہے جنوبی کوریا کی نیوز ایجنسی کے مطابق دونوں ملکوں نے اس سلسلے میں مشاورت جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے ۔ دوسری طر ف سعودی عرب اور جنوبی کوریا کے درمیان مشترکہ ایٹمی ریسرچ پروگرام چلانے کا معاہدہ بھی طے پا گیا ۔بتایاگیاہے کہ معاہدے کا مقصد ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کیلئے سعودی عملہ تیار کرنا ہے ۔ایرانی حملے نے جہاں مشرق وسطی سمیت دنیا میں ایک نئی کشیدگی چھیڑ دی ہے وہیں سعودی عرب کی سکیورٹی بھی اس معاملے میں بےبس دیکھائی دے رہی ہے۔
دنیا کا ہر ملک جہاں اپنا دفاع مضبوط سے مضبوط تر کر رہا ہے وہیں اس سے قبل بھی کئی حملے ہونے کے باوجود سعودی عرب کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے ایسے حملے روکنے کی منصوبہ بندی یا نظام نہیں بنایا گیا، مملکت میں سیاحت اور تفریح کے نئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ دفاع کو بھی مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس ساری صورتحال میں امریکہ جنگی کیفیت پیدا کر رہا ہے سعودی عرب پر حملے کے بعد اس کے شور شرابے سے معلوم یہی ہوتا ہے کہ اس سارے کھیل کی تیاری ٹرمپ انتظامیہ نے پہلے سے کر رکھی تھی، جس ایران کے خلاف امریکہ چیخ رہا ہے اسی کے پڑوس میں اسکے سخت مخالف صدام حسین کو منظر نامے سے ہٹا کر اسی امریکہ نے ایران کو مشرق وسطی میں پراکسی وار کھیلنے کا موقع فراہم کیا۔
امریکہ نے ہی شام میں ایرانی حمایت یافتہ بشار الاسد کو اپنی مدد فراہم کرکے مسلسل کھڑا رکھا، سعودی عرب پر ڈرون حملوں کے وقت امریکہ کے پیٹریاٹ میزائل کہاں گئے جن کو بیچ کر امریکہ نے سعودیوں سے اربوں ڈالر کمائے۔ امریکی کی سارے گیم کا مقصد فی الحال تو اپنا اسلحہ بیچ کر نقصان پورا کرنے نظر آ رہا ہے لیکن حالات اس کے برعکس کہیں کہیں کشیدہ نظر آ رہے ہیں لیکن سعودی ولی عہد کی حکمت عملی نے وقتی طور پر مشرق وسطی میں جنگ چھیڑنے کی کوششیں ناکام بنا دی ہیں۔