کراچی اس وقت رہائش کے اعتبار سے دنیا کے بدترین شہروں میں پانچویں نمبر پرشمار کیا جاتا ہے۔اس سے قبل جرائم کی مناسبت سے کراچی دنیا کے خطرناک شہروں میں چھٹے نمبر پر تھا۔ اب ورلڈ کرائم انڈیکس میں 70ویں نمبر پر ہے۔ کراچی اس وقت احساس محرومی کے بدترین بحران سے گزر رہا ہے۔ مملکت کو 70فیصد ریونیو دینے والے اس شہر کی حالت کا ذمہ دار تقریباََ سب سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ اہل کراچی بھی ہیں۔کراچی میں بھتے کے لئے جس کا ڈنڈا اُس کا جھنڈا کے فارمولے کے تحت چار، پانچ گروپوں میں تقسیم ہوگیا تھا۔ چندا، بھتہ اور تاوان کے لئے یہ گروہ علاقوں پر قبضے کے لئے جنگ کرتے۔ٹارگٹ کلنگ اور سیاسی چھتری کے استعمال نے اہل کراچی کو برباد کردیا تھا۔ رینجرز نے چار اہداف بنا کر آپریشن کئے اور کراچی سے بڑے جرائم پیشہ عناصر سے لے کر سیاسی کارکنوں تک کے گرد جال خوب کس کا رکھا، جس سے جرائم پیشہ عناصر کو سیاسی چھتری دینے والی سیاسی جماعتوں کی چیخیں نکل پڑیں۔ لیکن کراچی کو سنگین جرائم کی بدترین فہرست سے نکال کر ایک پر امن شہر بنا دیا گیا۔بے امنی کی تمام کوششیں ناکام ہوئی۔
کراچی کو قبضہ کرنے کی اس جنگ کو نیا رنگ ملا، جب ایم کیو ایم مائنس الطاف ہوئی۔ایم کیو ایم کے دو بڑے دھڑوں کے درمیان باہمی چپقلش اور گروہ بندی کی وجہ سے انہیں قومی، صوبائی اور سینیٹ کی نشستوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ایم کیو ایم کے دونوں بڑے دھڑے جو بہادر آباد اور پی آئی بی کے نام سے معروف ہوئے تھے۔ انہیں یکجا ہونے سے روکنے کے لئے خود ایم کیو ایم کے ذمے داران نے اہم کردار ادا کیا۔انتخابات سے قبل دونوں دھڑوں کے درمیان اتحاد کی کوشش کو ایک معروف قانون دان نے باریک قانونی نکتہ بتاکر ناکام بنادیا اور کراچی کے ووٹ تقسیم ہوگئے۔معروف قانون دان بڑے ملائم اور دلنشین طبعیت کا حامل ہیں، خود کو سینیٹر بنانے کے لئے قانون میں مہارت نے وفاق میں بڑے عہدے تک پہنچا دیا۔ گزشتہ دنوں موصوف قانون دان نے آئین سے ایک بار پھر باریک نکتہ نکال کر اپنی ذاتی رائے کی شکل میں میڈیا کے توسط سے گرم ہانڈی میں پھینک دیا۔ جس کے خطرناک اُبال سے وفاق کی علامت سمجھے جانے والی جماعت کے چیئرمین غصے سے آگ بگولہ ہوئے اور بات بڑھتے بڑھتے سندھو دیش، پختونستان تک پہنچ گئی۔
یہ ایک بہت بڑے آئینی حملے کی تیاری لگتی تھی جو بظاہر آئین میں درج ہے لیکن اس سے باہمی نفاق کی جو بنیاد رکھ دی گئی اور کراچی کو سیاسی طور پر ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔وقتی طور پر بیانات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا والا راگ اور سب ٹھیک کی بانسر ی بجا کر طوفان کو روکنے کی کوشش کی گئی لیکن نادان دوست نہ جانے کس ایجنڈے کے تحت پاکستان کی بقا و سلامتی کو داؤ پر لگارہے ہیں اگر تمام سیاسی بیانات کو یکجا کر کے ملاحظہ کیا جائے تو اس کی جو خوفناک شکل سامنے آتی ہے وہ مستقبل کے لئے پریشان کن ہے۔معروف قانون دان، کراچی کمیٹی میں کراچی کا مسئلہ حل کرانے کی اس قسم کی تجویز دے کر جس ایجنڈے پر کام کرنا چاہتے ہیں اس کی تمام ڈوریں لندن میں ملتی نظر آتی ہیں اور صاف نظر آتا ہے کہ سندھ کی تقسیم کے منصوبوں کی تاریں کہاں سے ہلائی جارہی ہیں۔
کراچی میں کچرا جمع کئے جانے سے لے کر کراچی کو کرچی کرچی کرنے کی ذمے دار کوئی ایک جماعت نہیں ہے بلکہ کراچی کی کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مینڈیٹ کے مطابق ذمے دار ہیں۔ ابراہیم حیدری کی ساحلی پٹی پر کراچی سے اٹھایا جانے والا کچرا پھینکا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے جہاں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ ہوا تو دوسرے جانب اہلیان علاقہ بھی مختلف بیماریوں کا شکار ہونے لگے۔ ایک بااثر سیاسی شخصیت کراچی میں پیدا ہونے والے 12ہزار ٹن کچرے کا نصف سے زاید سمندر کے کنارے میں ڈلواتے اور پھر اس کچر ے کو آگ لگا دی جاتی۔ آہستہ آہستہ اس کچرے نے سمندر کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا اور سمندر کی جگہ زمین نے لے لی جو کچرے کی وجہ سے بن گئی تھی۔ ابراہیم حیدری سے ریڑھی گوٹھ تک لینڈ مافیا با اثر سیاسی گھرانوں نے سمندر کی جگہ پر قبضہ کرکے جیٹیاں بنا لیں۔
سرکاری طور پر یہاں ایک ہی جیٹی ہے، جہاں ماہی گیر اپنی کشتیوں کو باندھا کرتے تھے۔ لیکن سمندر پر قبضے کے ساتھ ساتھ غیر قانونی طور پر کئی جیٹیاں بنتی چلی گئیں۔ جہاں ماہی گیر اپنی کشتیاں باندھنے لگے۔ کیونکہ سرکاری جیٹی پر اتنی جگہ نہیں ہوتی کہ تمام ماہی گیر اپنی کشتیوں کو لنگر انداز کرسکیں اس لئے انہوں نے سمندری قبضہ شدہ جگہ پر کشتیاں لنگر انداز کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ بتدریج ان کے معاش پر بھی قابض ہوگیا۔ من پسند ریٹ پر جرائم پیشہ گروپ نے مچھلیاں خریدنا شروع کردیں جس کے سرکاری و مارکیٹ ریٹ میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ لیکن ماہی گیر اس لئے مجبور ہیں کہ اگر جرائم پیشہ گروہ کو مچھلیاں فروخت نہیں کیں تو ان کی کشتیوں کو جیٹیوں میں لنگر انداز نہیں ہونے دیا جائے گا۔ راقم کی رپورٹس پر سینیٹ کی اسٹنڈنگ کمیٹی برائے ماحولیات نے دو مرتبہ ابراہیم حیدری کا دورہ کیا تھا اور سمندری ماحولیاتی آلودگی پر اپنے سخت تحفظات کا اظہار کیا۔ کمیٹی کی ہدایت پر دفعہ144بھی نافذ کی گئی تھی۔کچرا ڈالنے پر پابندی عاید کی گئی۔ لیکن سمندری حدود پر قبضہ کرنے والوں کے خلاف کیا قانونی کاروائی کی گئی۔ اس سے لاعلم ہیں۔ ہزاروں ایکٹر جگہ اب قبضہ مافیا کے چنگل میں ہے۔ سمندر ی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سمندری حیات کو بھی بڑا نقصان پہنچا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کا شکار بننے والا روشنیوں کا شہر سنجیدگی و توجہ کا متقاضی ہے۔ وبائی امراض سمیت مہلک بیماریوں اور تبدیل ہوتے موسم کی وجہ سے انسانی حیات کو خطرات لاحق ہیں۔
کراچی کا کچرا بھی ایک سونا ہے جس کا فائدہ یہاں کے بیوپاری و سیاسی اٹھاتے رہے ہیں۔ گذشتہ بلدیاتی دور میں بیشتر ناظمین نے ایک طریقہ کار اختیار کیا تھا۔ جس میں یونین کونسل کے ہر گھر سے روزانہ کی بنیاد پر کالے پلاسٹک تھیلیوں میں کچرا اٹھایا جاتا تھا۔ جس کا معاوضہ بلدیاتی خدمات کے عوض لیا جاتا تھا، لیکن یہ رقم سرکاری اکاؤنٹ کے بجائے زیادہ تر نقد ی کی صورت میں استعمال ہوتی۔ کیونکہ آڈٹ، کوٹیشن اور سرکاری افسرا ن کو کمیشن دینے سے بچانے کے لئے یہ اقدام ضروری سمجھا گیا تھا۔ اس سے کئی یونین کونسلیں صفائی ستھرائی کاماڈل بن گئی۔کراچی بھی وہی ہے، اہل کراچی اور ان کے نمائندے بھی وہی ہیں لیکن کراچی کا کچرا، سیاست کا شکار ہوگیا ہے۔
گزشتہ بلدیاتی دور میں آبادی اور میدان کے قریب گاربیج اسٹیشن بنائے گئے۔ جو بڑھتے بڑھتے اب پہاڑ ہوچکے ہیں۔جب تک چائنا کی کمپنی کو کچرا اٹھانے کا ٹھیکہ نہیں دیا گیا تھا تو تقریباََ ہر علاقے کا سپر وائزر کچرے کو مٹی کا تیل ڈال کر آگ لگا دیتا تھا۔ جن گاڑیوں کی ذمے داری کچرا پوائنٹ پر پہنچانے کی ہوتی تھی، وہ ڈیزل بچانے کے لئے کراچی کو جلادیا کرتے تھے۔ اس طرح لاکھوں روپیہ کرپشن کی نظر ہوتا چلا گیا۔کہا جارہا ہے کہ جس طرح قیام امن کی ذمے داری رینجرز کو دی گئی تھی، کراچی کی صفائی کے لئے اختیارات بھی انہیں دے دیئے جائیں تو امید ہے کہ کچرا نہ اٹھانے والے کسی ربورٹ کی طرح کچرا اٹھائیں گے بھی اور ٹھکانے لگائیں گے بھی۔ لیکن المیہ یہی تو یہ ہے کہ رینجرز کی واپسی کے بجائے کراچی کو نت نئے مسائل میں الجھایا کیوں جارہا ہے۔
رینجرز واٹر بورڈ کا نظام سنبھالے تو کبھی پولیس کا کردار ادا کرے۔ کیا اب جرائم پیشہ عناصر کے کچرے کے ساتھ بلدیاتی گند کو بھی رینجرز ہی ٹھکانے لگائے۔ شاید ہمیں اس سوچ پر شرمندہ ہونے کی ضرورت ہے کہ ہم دفاعی ادارے سے کیا کام لینا چاہتے ہیں۔ اس وقت دفاعی اداروں کو سرحدوں پر مملکت کی حفاظت کی اشد ضرورت ہے، لیکن ایک بڑے حصے کو مغرب شمال سرحدوں پر الجھا دیا گیا ہے تو دوسری جانب ملک کے سب سے بڑے شہر میں کئی عشروں سے رینجرز کو گومگوں مسائل میں پھنسا کر کچرا سیاست کی جا رہی ہے۔وزیر اعظم نے کراچی کے مسائل کے حل کے لئے جو سفارشاتی کمیٹی تشکیل دی ہے، اُن کے سفارشات پر عمل درآمد تو نہ جانے کب ممکن ہوگا، لیکن یقین مانئے کہ اہل کراچی شدید گھٹن اور بدترین احساس محرومی کا شکار ہیں۔ جس کے نتائج پورے ملک پر اثر انداز ہونے کے خدشات ہیں۔
کراچی کے مسائل کا حل سیاسی طور پر نکالنے کے لئے بلدیاتی نظام میں پائے جانے والے سقم کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ بلدیاتی نظام میں بدترین سقم کی وجہ سے عوام کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کراچی کے مسائل کا کس کے پاس ہے۔ وفاق کے نمائندے آتے ہیں۔فنڈز خرچ ہوجاتے ہیں لیکن کوئی مستقل حل نہیں نکلتا۔ صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ اربوں روپے خرچ کردیئے لیکن مسئلہ جوں کا توں ہے۔ بلدیاتی ادارے کبھی اختیارات کا رونا روتے ہیں تو کبھی فندز کی کمی کا۔ اختیارات کی بات آئے تو چند دنوں میں ہزاروں دوکانیں و چھوٹے کاروبار کو ختم کردیا جاتا ہے۔ جب بحالی کی بات آئے تو ذمے دار صوبائی حکومت کو قرار دے دیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کراچی کی بدترین تصویر کشی کرکے پورے پاکستان کو بد نما کررہے ہیں۔ جس شہر میں سیاحت کے لئے بیرون ملک سے سیاح آتے تھے، پہلے بدامنی کی وجہ سے سرمایہ دار و سیاح کراچی کا رخ نہیں کرتے تھے اب انفرااسٹرکچر اور بدترین بلدیاتی نظام کے ہاتھوں تباہ حال کراچی جانے کا تصور بھی نہیں کرتے۔ ڈھائی کروڑ نفوس کی آبادی والے کثیر القومی شہر کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر قانون میں ترامیم سمیت اقدامات کی ضرورت ہے۔