٣٠ مارچ ٢٠٠٣ء کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو تین معصوم بچوں کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔ یہ اس بہادرکما نڈو جرنل نے کیا، جس نے٦٠٠پاکستانیوں کو ڈالر کے عوض مسلم دمشن امریکا کو فروخت کیا تھا۔ جس میں عافیہ بھی شامل تھی۔اس کا انکشاف اپنی ”کتاب سب سے پہلے پاکستان” میں بھی ذکر کیا ہے۔ سات سال عافیہ اتا پتہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا۔ عافیہ کے گھر والے اذیت میں مبتلا رہے۔ اللہ کا کرنا کہ نو مسلم صحافی مریم ریڈلے صاحبہ نے افغانستان کی جیل کی دیواروںسے باہر آتی عافیہ کی چیخیں سنی۔ اس کے بعد پاکستان میں مریم ریڈلے نے دنیا کوبتایا کہ ایسے ایک خاتون کو جیل میں اذیتیں دی جارہیں ہیں۔ جب امریکا بدنام ہونے لگا تو افغانستان سے عافیہ کو امریکا میں منتقل کیا گیا۔دنیا کو دکھانے کی لیے امریکا میں عدالتی کاروائی کی گئی۔ اور بلا آخر ٢٣ ستمبر ٢٠١٠ء کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی ،حافظہ قرآن،بچوں کی تعلیم میں پی ایچ ڈی اعلی تعلیم یافتہ اور مبلغہ اسلام کو امریکا ایک عدالت کے ایک متعصب یہودی جج نے بغیر ثبوت اور گواہوں کے امریکی عدالتی نظام پر بلکہ سارے دنیا کے عدالتی نظام پر تعصب کا دھبہ لگاتے ہوئے ٦٨ سال کی قید سنائی ۔اسے اگر” یوم قتل انصاف” کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔
٢٠٠٨ ء میں امریکا کے صدارتی امیدوار اور دو دفعہ امریکی سینیٹ کے منتخب ہونے والے سینیٹر جناب مائک گریول نے پاکستان کے دورے کے دوران کہا تھا کہ عافیہ کو ناجائز سزا دی گئی ۔ سزا سے پہلے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا۔قید تنہائی میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جو کہ ایک جرم ہے۔پاکستانی حکومت کو چاہیے کہ وہ اوبامہ انتظامیہ کو عافیہ کی رہائی کے تحریری مطالبہ کرے۔ اسی طرح ایک اور سابق امریکی اٹارنی جرنل رمزے کلارک صاحب نے پاکستان کے دورے کے دوران کہا تھا کہ عافیہ بین لاقوامی سیاست اقتدار کی دوڑ کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ میں نے زندگی میں ایسی بے انصافی نہیںدیکھی۔ مظلومہ عافیہ پر قید میں تین دفعہ گولیاں چلائی گئیں۔یہ قانون کی کھلی خلاف دردی ہے۔
میں امریکا میں عافیہ کی رہائی کے لیے آواز اُٹھائوں گا۔ممتاز امریکی دو شہریوں کے یہ بیانات اس کا ثبوت ہیں کہ عافیہ کے ساتھ نانصافی گی گئی۔عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ عافیہ موومنٹ چلا رہی ہیں ۔ اس کی ترتیب دی گئی ویب سائٹ http://aafiamovement.comپر مذید معلومات دیکھی جاسکتی ہیں۔عافیہ نے تو کوئی جرم نہیں کیا تھا اورعدالت بھی کوئی جرم بھی ثابت نہ کر سکی۔ مگر بے انصاف یہودی جج نے عافیہ کو ٨٦ سال کی قید سنائی۔ فیصلہ کے وقت ایکامریکادانشور نہیں ریمارکس دیے تھے۔ یہ سزا عافیہ کو نہیں سنائی گئی۔ یہ سزا اسلام کو سنائی گئی ہے۔ جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلانے والا ریمنڈ ڈیوس نے دن دھاڑے لاہور کی سڑکوں پر دو پاکستان کو شہید کیا اور دوسر کرنل جوزف جو اس جرم میںشریک تھا کوپیپلزپارٹی کے دور حکومت میںقصاص کا مقدمہ بنا کر عدلالتی کاروائی کے ذریعے قید سے رہا گیا ۔ پہلے سے موجود لاہور ایئر پورٹ پر گھڑے امریکی جہاز میں بیٹھا کرامریکہ روانہ کر دیا۔ یہ انصاف کہ ایک عورت جس نے کسی کو نہ قتل کیا نہ دہشت گردی کے کسی مقدمے میںملوث ہے ،کو ٨٦ سال قید کی سزا سنائی گئی۔
عافیہ نے امریکا کی رزویل جیل میںاپنے ساتھ روا ظلم کی داستان کو امریکا میںپاکستان کے کونصل جنرل کو بیان کی مگر اس سے پاکستان میں عافیہ کے اہل خانہ کو معلومات نہیں دی گئیں۔ اس کے بعد چھ ماہ ہوگئے ہیں جیل میں جاکر قوم کی بیٹی عافیہ سے حالات معلوم کرنے کے کی کوشش نہیں کی۔ کسی ملک کے کونصل جنرل کا اپنی شہری کے ساتھ ایسا رویہ مناسب نہیں لگتا ہے۔عافیہ نے مدد کے لیے پاکستان کے وزیر اعظم کے وزیر اعظم جناب عمران خان کو خط لکھا ۔اس بات کو بھی ایک سال ہونے کو ہے۔ عافیہ کی والدہ شدید بیمار ہے ۔ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ بیماری کی وجہ کافی عرصہ سے عافیہ کے متعلق آگائی نہ ہونے کی وجہ سے بیماری میں اضافہ ہو رہا ہے۔٢٠٠٣ء میںعافیہ کو ایک بیٹی اور بیٹا تو پیپلز پارٹی کے دور میں رحمان ملک صاحب کی کوشش سے مل گئے تھے۔ مگر ایک بچہ جو اس وقت چھ ماہ کا تھاسلیمان، کا ابھی تک اتا پتہ نہیںمعلوم کہ زندہ ہے یا پھر وفات پا چکا ہے۔
عمران نے خان نے میڈم مریم ریڈلے کے ساتھ مل کر پریس کانفرنس کر کے بگرام کی جیل کی قیدی نمبر٦٥٠ عفایہ کی چیخیں تو دنیا کے سامنے بیان کی تھی مگر اب عمران خان حکومتی کاموں اور سیاست میں اس طرح مصروف ہو گئے ہیں کہ عافیہ کو بھول گئے ہیں۔ آج عمران خان صاحب امریکا پہنچ گئے ہیں۔ ٢٧ ستمبر کو اقوام متحدہ میں پاکستانی لباس اور قومی زبان اُردو میں کشمیر کا مسئلہ دنیا کے سامنے رکھیں گے۔ اللہ سے دعا ہے ٤٨ دنوں سے کرفیو کی سختیاں برداشت کرنے والے کشمیریوںپرکرفیو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔ اے کاش! کہ وہ صدر امریکا ڈونلڈ ٹرپ صاحب سے بات چیت کر واپس پاکستان آتے ہوئے قوم کی بیٹی عافیہ کو بھی ساتھ لائیں۔ اس سے پاکستان کیا پوری دنیا میں عمران خان کی مقبولیت کا گراف آسمان کو چھونے لگے گا۔
دوسری طرف پوری قوم بھی عافیہ کی رہائی کے لیے دعائیں کر رہی ہیں۔ لوگ اپنے اپنے طور پر عافیہ کی متعلق ظلم کی داستان شیئر کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں عافیہ موددمنٹ سول سوسائٹی پاکستان نے بھی ہمیں دو صفحہ کا خط ورلڈ آیپ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے دنیا کہ ملک اپنے اپنے پھنسے ہوئے لوگوں کو کوششیں کر کے رہائی دلا لے لیتے ہیں کہ ہمارے پاکستان میں مشکل کی گھڑی میں حکومت کے کارندے کسی شہری کے کام کے نہیںآتے۔ انہوںنے واضع کیا کہ عیسائی آسیہ مسیح عیسائی، ہندو لال پری دیوی کو ہندو، افغانستان والے شربت گلہ کو اور امریکا والے کرنل جوف اور ریمنڈ ڈیوس کو چھڑا کر لے گئے۔ مگر افسوس ہوتا ہے پاکستان پر کہ وہ قوم کی بیٹی عافیہ کو ابھی تک رہا نہیں کر وا سکے۔ بلکہ کوئٹہ کے ایک بہادر کانسی کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا تو امریکا کے ایک وکیل نے پاکستان کے منہ پر تمانچہ مارتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان والے پیسے کے لیے اپنے ماں تک فروخت کر دیتے ہیں۔ اے اللہ پاکستان کے حکمرانوںکی غیرت کب جاگے گی، کہ وہ عافیہ کو رہائی دلا سکیں۔