اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر سے درخواست کی کہ وہ بھارتی وزیراعظم مودی سے کشمیر میں کرفیو ختم کرنے کا کہیں جس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے یقین دہانی کرائی کہ وہ نریندر مودی سے بات کریں گے۔
نیویارک میں وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشترکہ پریس کانفرنس کی جس میں امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی۔
وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کیلئے امریکا میں ہیں جہاں وہ 27 ستمبر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔
پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بہت جارحانہ زبان استعمال کی۔
امریکی صدر نے ایک بار پھر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ تیار ہیں لیکن دوسری طرف بھی ثالثی کی پیشکش قبول کرے تو میں تیار ہوں’۔
امریکی صدر نے کہا کہ ‘پاکستان کے ساتھ امریکا کی تجارت بہت کم ہے، اگر پاکستان اور بھارت چاہیں تو ثالثی کیلئے تیار ہوں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں نے ہمیشہ کہا کہ پاک بھارت ثالثی کیلئے تیار ہوں لیکن دونوں جینٹلمین کا راضی ہونا ضروری ہے’۔
ٹرمپ نے کشمیر کے حوالے سے کہا کہ ‘یہ بہت پیچیدہ معاملہ ہے جو بہت عرصے سے چلا آرہا ہے، اگر دونوں چاہتے ہیں تو ثالثی کیلئے تیارہوں، اگر دونوں لیڈر کہتے ہیں کہ کچھ نکات پر ہم ایک ہیں تو میں بہت اچھا ثالث ہوں گا، ناکام نہیں ہوں گا’۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں بہت اچھی مدد کرسکتا ہوں لیکن ضروری ہےکہ دوسرا فریق بھی راضی ہو’۔
ٹرمپ نے کہا کہ عمران خان عظیم لیڈر ہیں، عمران خان انسداد دہشتگردی میں پیشرفت چاہتے ہیں کیونکہ دوسرا راستہ نہیں، دوسرا راستہ موت، افراتفری اور غربت کی طرف جاتاہے، عمران خان یہ بات سمجھتے ہیں۔
امریکی صدر نے کہا کہ 3 دن کےمختصر وقت میں بہت سے سربراہان سے ملنا تھا لیکن پاکستان کے وزیراعظم سے ملنا چاہتا تھا، پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان سے ملنا اعزاز کی بات ہے’۔
امریکی صدر کا کہنا تھا کہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن میرے نمبر ون دوست ،اسمارٹ اور ٹف ہیں، ایران کی جوہری ڈیل کی معیاد ختم ہونے والی تھی اور بورس جانسن دوسری ڈیل چاہتے ہیں، ایرانی جوہری ڈیل کیلئے خرچ کی گئی رقم ضائع ہوگئی، ایران کے ساتھ یہ کس طرح کی ڈیل تھی کہ ہمیں اس کے معائنے کی اجازت نہیں تھی’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ‘ایران کو بیلسٹک میزائل اور دیگر چیزوں کی آزمائش کی بھی اجازت تھی، میں بورس جانسن کی بہت عزت کرتا ہوں وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے نئی ایرانی ڈیل کی بات کی’۔
ٹرمپ نے کہا کہ ‘میں وزیراعظم عمران خان اور پاکستان پر اعتماد کرتاہوں، نیویارک میں بہت اچھے پاکستانی دوست بھی ہیں جو اچھے مذاکرات کار ہیں’۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ‘مجھ سے قبل امریکی قیادت نے پاکستان سے اچھا سلوک نہیں کیا، وزیر اعظم عمران خان اور بھارتی وزیراعظم سے بہت اچھے تعلقات ہیں’۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سوال پر کہا کہ ‘میں چاہتاہوں کہ ہر ایک سے برابر کا سلوک کیاجائے’۔
انہوں نے کہا کہ کل اسٹیڈیم میں بھارتی وزیراعظم نے میری موجودگی میں بہت جارحانہ زبان استعمال کی۔
ٹرمپ نے کہا کہ صدر اوباما کو نوبیل انعام ملا تو انہیں خود بھی حیرانی ہوئی کہ کیوں ملا؟ اوباما کی اس ایک بات پر ان سے اتفاق کرتاہوں’۔
اس موقع پر وزیراعظم عمران خان نے امریکی صدر سے درخواست کی کہ وہ بھارتی وزیراعظم سے مقبوضہ کمشیر میں کرفیو ختم کرنے کا مطالبہ کریں۔
اس کے جواب میں امریکی صدر نے یقین دہانی کرائی کہ ‘میں کشمیر سے کرفیو اٹھانے کیلئے مودی سے بات کروں گا’۔
عمران خان نے کہا کہ ٹرمپ دنیا کے طاقت ور ترین ملک کے صدر ہیں، طاقت ور ترین ملک پر بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ’میں افغان مسئلے پر بات کرنا چاہتا ہوں یہ مسئلہ ہمارے لیے بہت اہم ہے’۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت سے ثالثی کی امریکی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں، ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں پاکستان اور بھارت ثالثی پر تیار ہوجائیں لیکن بدقسمتی سے بھارت ہم سے بات کرنے کو تیار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ مجھے لگتا ہے یہ بحران مزید بڑا ہوسکتا ہے، صدر ٹرمپ اور میں اس پر بات کریں گے، امریکا طاقت ور ترین ملک ہے وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل پر اثر ڈال سکتا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل وزیراعظم پاکستان عمران خان نے امریکی کونسل فار فارن ریلیشنز سے خطاب میں کہا تھا کہ پاکستان نے نائن الیون کے بعد امریکا کی جنگ میں شامل ہوکر بہت بڑی غلطی کی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ 2008 میں امریکا آیا تو ڈیموکریٹس کو بتایا تھا کہ افغان مسئلے کا فوجی حل نہیں، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں 70 ہزار لوگوں نے جانیں قربان کیں، 200 ملین ڈالرز کا نقصان ہوا۔
عمران خان نے کہا کہ سوویت فوج نے افغانستان میں جنگ کے دوران 10 لاکھ شہریوں کو ہلاک کیا، پاکستان میں 27 لاکھ افغان پناہ گزین رہ رہے ہیں۔