قصور بابا بلھے شاہ کی دھرتی، پنجاب کی ثقافت و تہذیب کی پہچان، صوفیائے اکرام اور بزرگان دین کی پاک سر زمین کو شیطان کے شکنجے میں ہیں ،اس کے امن و سلامتی پر کسی بدروح کا سایہ پڑ گیا ہے جو اس کے معصوم بچوں کو نگل رہا ہے۔شہر کی گلیاں اور بازار ، سڑکیں اپنے ہی لعلوں کے لئے موت کا ساماں پیدا کررہی ہیں ۔ مائیں پریشاں ہیں کہ اپنے جگر گوشوں کو کیسے ان درندوں سے بچائیں جودن دیہاڑے ان کی نظروں کے سامنے اٹھا کر لے جاتے ہیں بعدازاں معصوموں کی لاشیں کوڑے کے ڈھیر سے ملتی ہیں۔2018ء میں ننھی زینب کے قتل کے دلخراش واقعے نے پورے ملک کی فضا کو سوگوار بنا دیا تھا اور احتجاج و مظاہروں ، ہڑتالوں کے بعد ملزم کی گرفتاری عمل میں آئی اور ملزم کو سزائے موت بھی دیدی گئی۔ تو پھر اب کون درندہ ہے جو شہر کی گلیوں میں معصوم پھولوں کے تعاقب میںہے وہ ان سے اپنی ہوس پوری کرتا ہے اور بے دردی سے قتل کر کے پھینک دیتا ہے؟۔
اگر اس وقت پس پرد ہ اس گھنائونے فعل میں ملوث عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاتااور لوگوں کے اشتعال اور غم وغصہ کو ٹھنڈاکرنے کیلئے عجلت میں ملزم کو سزا نہ دی جاتی تو آج دوبارہ قصور میں درندگی کا یہ سفاک کھیل نہ کھیلا جاتا۔ سچ تو یہی ہے کہ حکومت ،پولیس سمیت متعلقہ اداروں نے اپنی نااہلی چھپانے کے لیے کسی غریب کو قربانی کا بکرا بنا دیا گیا۔اب بھی پولیس افسران کی معطلی اور اعلیٰ عہدیدران کی سرزنش کے بجائے اس طاقتور مافیا یا گروہ کا پتہ چلایا جائے جن پر ہاتھ ڈالنے سے پولیس بھی ڈرتی ہے اور جن کے اثر و رسوخ کے آگے حکومتی وزراء اور مقامی سیا ستدان بھی بے بس دکھائی دیتے ہیں۔قصور پاکستان کا وہ بد قسمت ضلع ہے جو 2006 سے بچوں کی ہلاکتوں کے زخم کھا رہا ہے 2015 ء میں 300 بچوں کی زیادتی اور قتل کے واقعات منظر عام پر آئے جس میں متاثرہ والدین کو بلیک میل کرکے لاکھوں روپے بٹورے گئے۔ 2018 ء میں زینب و دیگر بچیوں کے اغوا اور قتل کی سلسلہ وار وارداتیں اور اب 2019 میں بچوں کے اغوا اور قتل کی سلسلہ وار وارداتوںہر پاکستانی کو ہراساں کر دیا ہے ۔چونیاں کے محلہ پیر جہانیاں کے محمد فیضان 16 ستمبر 2019ء ، محلہ رانا ٹاؤن کے محمد عمران ولد محمد رمضان 3 جون 2019ء ، محلہ غوثیہ آباد کے سلمان ولد محمد اکرم 8 اگست 2019ء ، علی حسنین ولد افضل 17 اگست سے لاپتہ تھے۔
محمد فیضان کی لاش عقب چونیاں انڈسٹرئیل اسٹیٹ سے برآمد ہوئی ہے اس کے ساتھ دو کھوپڑیاں، انسانی ہڈیاں، کپڑوں کے کچھ ٹکڑے وغیرہ بھی برآمد ہوئے ہیں۔ تمام بچوں کی عمر 8 سے 12 سال کے درمیان ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے چند اور بچے بھی اغوا ہوئے۔ جمبر ، پھولنگر، پتوکی اور دیگر جگہوں سے ان میں کچھ بچے مل گئے کچھ تاحال لاپتہ ہیں۔چونیاں سے اغوا ہونے والے بچوں کی لاشوں کا ایک ہی مقام سے ملنا اس بات کی جانب نشاندہی ضرور کرتا ہے کہ یہ کام ایک ہی قاتل کا ہے۔ جو یا تو شیطانی فعل کی خاطر، یا پھر جادو ٹونے کی خاطر ان بچوں کو قتل کر رہا ہے۔
فیضان کی والدہ نے بتایا کہ ‘اس افسر نے مجھے یقین دہانی کروائی کہ میں تمہارا بیٹا جلد ڈھونڈ دوں گا۔ مگر میں نے کہا کہ مجھ سے سچ بات کرو کیونکہ پہلے ہی ہمارے علاقے میں دو تین بچے اغوا ہو چکے تھے۔ ان بچوں کے لواحقین پولیس کو بلا کر لاتے تھے اور پولیس بس سب دیکھ کر چلی جاتی تھی۔’فیضان کی والدہ نے پولیس اور اعلی حکام سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس پہلے اپنا کام درست انداز میں کرتی تو ان کے بچے کو بچا سکتی تھی۔فیضان کی والدہ کے مطابق پولیس نے انہیں یقین دہانی کروائی کہ وہ اگلے دن تین بجے تک ان کا بچہ ڈھونڈ لائیں گے مگر اگلے دن تین بجے فیضان کی جگہ اس کی لاش گھر آئی۔علی حسنین کے والدین افضال اور فرزانہ نے کہا’ ہمارا بچہ ایک مہینے تین دن سے غائب ہے۔ ہماری کسی نے کوئی مدد نہیں کی ہمیںانصاف چاہیے’ ۔انھوں نے بتایا کہ علی حسنین ان کا سب سے بڑا بیٹا ہے اور وہ اپنے والد کے ساتھ مل کر کباڑیے اور پراندوں کا کام کر کے گھر کا خرچہ چلاتا تھا۔
علی حسنین کے والدنے کہا’ہم بہت غریب ہیں۔ مجھے پتا چلا کہ میرے بیٹے کی ویڈیو ایک کیمرے میں نظر آئی ہے۔ میں نے اپنا سامان بیچ کر فلیش ڈرائیو لے کر اس میں ڈلوائی۔ پولیس کو دی لیکن پھر بھی پولیس نے کچھ نہیں کیا۔ پولیس نے انہیں خون سے بھرے ان کے بیٹے کے کپڑے دکھائے۔’بھورے رنگ کے کپڑے میرے بیٹے کے ہی تھے۔ امید تھی کہ شاید ہماراا بیٹا زندہ ہے لیکن وہ امید بھی ٹوٹ گئی۔ ہم غریب لوگ ہیں ہماری کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہمیں انصاف دیا جائے۔ٰایسے مجرم کہاں سے آتے ہیں وہ کیسے بچوں کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، اس بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ ابھی چند ماہ قبل ایک ماں سے راہ چلتے بچی چھیننے کی کوشش کی گئی۔ پولیس کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کا پتہ لگائے۔ لیکن وہ نہیں لگاتے۔ٰزینب امین کے واقعہ کے بعد حکومتی سطح پر کئی ادارے متحرک ہو گئے تھے۔ ایسے واقعات کے سد باب کے لیے کئی اقدامات کیے گئے۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو پنجاب نے اس حوالے سے سکولوں، محلوں اور دیہاتوں میں آگاہی مہمات کا آغاز کیا۔ تاہم ان اقدامات کے اثرات تو قصور شہر کی گلیوں میں دکھائی نہیں دیتے، تاہم سی سی ٹی وی کیمرے ضرور دکھائی دیتے ہیں۔ یہ کیمرے اب چند صاحبِ حیثیت افراد نے اپنی مدد آپ کے تحت گھروں کے باہر نصب کروا رکھے ہیں۔
قصور کی ضلعی انتظامیہ کے ایک افسر کے مطابق 18 سال سے کم عمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات کا سلسلہ عمران علی کو فوری سزائیں ملنے کے باوجود نہیں رکا۔رواں برس جنسی زیادتی کے لگ بھگ 100 سے زائد کیسز سامنے آئے۔ ان میں زیادہ تر لڑکوں کے ساتھ زیادتی کے تھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بچیوں کے ساتھ زیادتی کی زیادہ تر شکایات تفتیش کرنے پر غلط اور ذاتی دشمنیوں کا شاخصانہ ثابت ہوتی تھیں۔ تاہم گذشتہ ماہ سامنے آنے والے 18 واقعات میں سے تین میں لڑکیوں کے ساتھ پر زیادتی کی گئی۔’یہ تین وہ واقعات ہیں جن میں طبی معائنے کے بعد زیادتی کے شواہد ملے تھے۔’ ان کا کہنا تھا کہ ان میں زیادہ تر کیس ضلع قصور کے دیہاتی علاقوں سے سامنے آ رہے تھے۔اگست کے مہینے میں قصور شہر میں صدر کے علاقے جوڑا سے ایک سات سے آٹھ سالہ بچی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ سامنے آیا تھا۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ پولیس اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے اس بات پر انتہائی سختی سے عمل کروایا جار ہا ہے کہ بچوں کے ساتھ مبینہ زیادتی کے ان واقعات کے اعدادوشمار سامنے نہ آنے پائیں۔’کچھ عرصہ قبل ایک پولیس افسر نے میڈیا پر بتا دیا تھا کہ رواں برس اب تک 59 کیس سامنے آ چکے ہیں تو انھیں محکمانہ کارروائی اور معطلی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ افسوس کبھی یہ دھرتی بابا بلھے شاہ کے نام سے جانی جاتی تھی اب پچھلے کچھ سالوں سے بچوں کے ساتھ کی گئی درندگی اور ان واقعات میں کمی واقع نہ ہونا، قصور کی ظاہری علامت بن رہی ہے۔ قتل ہونے والے آٹھ سالہ سلمان کے والد اپنی کہانی سناتے ہوئے بلک بلک کر رو رہے تھے اس نے بتایا کہ میں کہاں کہاں نہیں گیا ڈھونڈنے، کبھی پیدل کبھی سائیکل پر، کبھی کسی کی منت کر کے موٹرسائیکل ادھار پکڑا۔ ایک مہینہ ایسے ہی گزر گیا مجھے نہیں پتا میرے گھر میں کھانا کیسے بنا۔ کبھی سوچتا کام پہ جاؤں باقی بچے تو بھوکے نہ مریں، لیکن اگلے دن پھر سلمان کو ڈھونڈنے نکل جاتا۔’ زینب کے والد امین انصاری سے جب یہ سوال کیا گیا کہ ان کی بیٹی کے قاتل کو تو سزا بھی مل گئی پھر بھی اس طرح کے واقعات میں کمی ہوتی نظر کیوں نہیں آ رہی۔
ان کا یہ کہنا تھا کہ’ایک پھانسی سے کام نہیں چلے گا لگا تار ان مجرموں کو پھانسیاں ملیں اور سر عام ملیں تو لوگوں کے اندر خوف بیٹھے گا۔ میں آج بھی سمجھتا ہوں کہ اس کے پیچھے کوئی بڑا ہاتھ ہے یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا۔بچوں کے حقوق کے حوالے سے سرگرم ایک غیر سرکاری ادارے ‘کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں گھر میں یا کسی کونے میں نہیں بلکہ کھلے مقامات پر زیادہ ہوتی ہیں۔ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ا47 فیصد سنسان گلیوں میں واقعات ہوئے۔سنسان اور آبادیوں سے دور ہونے کے باعث قبرستان بھی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے مقامات کے طور پر خطرناک ترین جانے جاتے ہیں۔ 2017 ء کے مقابلے میں 2018 کے دوران بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات میں 11 فیصد اضافہ ہوا۔ عمر کے لحاظ سے 11 سے 15 سال کے لڑکے اور لڑکیاں بڑی تعداد میں زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔ اسی طرح 2018 ء میں 963 بچوں کو اغوا کیا گیا 537 بچوں کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ 452 بچے لاپتہ ہوئے اور 96 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد قتل کر دیا گیا۔
صوبوں کے لحاظ سے بچوں کے ساتھ زیادتی کے سب سے زیادہ واقعات آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں ہوئے جہاں 2403 کیس رپورٹ ہوئے جبکہ سندھ 1012 واقعات کے ساتھ اس سلسلے میں دوسرے نمبر پر رہا۔ خیبر پختونخوا میں ایسے واقعات کی تعداد 145 رہی جبکہ اسلام آباد میں 130 اور بلوچستان میں 98 واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح جموں و کشمیر میں 34 اور گلگت بلتستان میں چھ واقعات رپورٹ ہوئے۔ایسے ہی نوے کی دہائی میں لاہور کے اندرون شہر میں سو سے زائد بچوں کو زیادتی کے بعد قتل کرنے والا سیریل کلر جاوید اقبال کا کیس تھا جس نے ایک عرصے تک دہشت پھیلائے رکھی۔ اس کا پتہ بھی تب چلا جب لاہور کی ہر گلی سے بچہ اٹھایا جانا لگا ۔اس واقعے کا ڈراپ سین مجرم کی جیل میں خودکشی پر اختتام پزیر ہو گیا ۔ اسے پولیس کی لاپرواہی کہے، یا غفلت یا پھر روایتی بے حسی کہ مجرم کی خودکشی پر کیس بند کرنے پر اکتفا کیا اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ واقعی اس نے اپنی جان خود لی تھی یا اسے قتل کیا گیا تھا جس پر آج تک سوالیہ نشان ہے؟۔