گزشتہ ایک ہفتہ سے وطن عزیز پاکستان بالخصوص صوبہ پنجاب میں ڈینگی مچھر کے کاٹنے کا خوف طاری ہے ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ اورچند شہروں میں ہلاکتوں کی خبروں نے ہر شخص کو مچھر سے خوف زدہ کر رکھا ہے ڈینگی وائرس کے بارے بہت کچھ لکھا جا چکا ہے راقم الحروف نے گزشتہ چند سالوں میں بارہا سانچ کے قارئین کرام کو ڈینگی مچھر اور ڈینگی وائرس سے آگہی دی اس بات میں بڑی صداقت ہے کہ ڈینگی وائرس سے ہونے والی ہلاکتوں سے کئی گنا زائد ہلاکتیں ملیریا کی وجہ سے ہوتی ہیں ملیریا بھی مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے ہوتا ہے جبکہ ڈینگی بخار بھی مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے ہی ہوتا ہے فرق صرف یہ بتایا جاتا ہے کہ ڈینگی مچھر صاف کھڑے پانی پر پیدا ہوتا ہے جبکہ ملیریا کا مچھر گندگی والی جگہوں پر پیدا ہوتا ہے دونوں صورتوں میں صفائی کا نہ ہونا اِن بیماریوں کا سبب بنتا ہے ،ملیریا کی بیماری مچھر کی ایک خاص قسم اینوفیلیز کی مادہ کے کاٹنے سے پھیلتی ہے،جب یہ مادہ مچھر کسی ملیریا سے متاثرہ شخص کو کاٹتی ہے، اس شخص کے خون سے ملیریا کے جرثومے مچھر میں منتقل ہو جاتے ہیںیہ جرثومے مچھر کے جسم میں ہی نمو پاتے ہیں اور تقریباً ایک ہفتے بعد جب یہ مادہ مچھر کسی تندرست شخص کو کاٹتی ہے تو پلازموڈیم یا ملیریا کے جرثومے اس شخص کے خون میں شامل ہو جاتے ہیں جراثیم انسانی جسم میں داخل ہو کر جگر کے خلیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں،ہر سال دنیا بھر میں ملیریا کے 20 کروڑ جبکہ پاکستان بھر میں 10 لاکھ کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ پاکستان میں ملیریا دوسری عام پھیلنے والی بیماری ہے۔
پاکستان میں گلوبل فنڈ کے تعاون سے ملیریا کی تشخیص کے لیے 3 ہزار 155 سرکاری و نجی سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جن کا مقصد سال 2020 تک ملیریا کے مکمل خاتمے کے ہدف کو پورا کرنا ہے،جس مچھر نے آجکل سب سے زیادہ خوف طاری کر رکھا ہے وہ ڈینگی مچھر ہے پنجاب میں گزشتہ روز 243نئے کیس سامنے آئے جبکہ ملک بھر میں مریضوں کی تعداد 10 ہزار 13 ہو گئی،جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے گزشتہ روز مزید 3مریض دم توڑ گئے جن میں سے ایک راولپنڈی کے ہسپتال میں زیر علاج تھا جس کے بعد پنجاب میں ڈینگی وائرس سے ہلاکتوں کی تعداد 7 ہو گئی جبکہ ملک بھر میں سینکڑوں نئے مریض وائرس کا شکار ہورہے ہیں۔
یہ ہلاکت خیزبیماری 1979میں شناخت ہوئی اسے ڈینگو بخار(Dengue fever) کا نام دیا گیا، ڈینگو سپینی زبان کا لفظ ہے جس کے معانی cramp کے ہیں جبکہ اسے گندی روح کی بیماری بھی کہا جاتا تھا،کہا جاتا ہے کہ 1990کے آخر تک اس بیماری سے ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ افراد ہلاک ہو ئے 1975سے1980تک یہ بیماری عام ہو ئی 2002میں برازیل کے جنوب مشرق میں واقع ریاست Rio de Janeiro میں یہ بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی اور اس سے دس لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہوئے جن میں 16سال سے کم عمر کے بچے زیادہ شامل تھے۔
وطن عزیز پاکستان میں پہلی بار ڈینگو وائرس کراچی میں 1995 میں سامنے آیا اور145 مریض متاثر ہوئے جبکہ ہلاکت صرف ایک ہوئی، اکتوبر 1995 میں جنوبی بلوچستان اور 2003 میں صوبہ سرحد کے ضلع ہری پور اور پنجاب کے ضلع چکوال میں ڈینگی وائرس کی بیماری پھیلی ان دونوں اضلاع میں ترتیب 300 اور700 کیسز ریکارڈ ہوئے ،لوگوں میں ڈینگی مچھر کے کاٹنے کا خوف اور ڈر گزشتہ ایک دہائی سے زیادیکھنے کو ملا ہے پنجاب میں 2003میں ضلع خوشاب کے علاقہ نوشہرہ میں ڈینگی مچھر کے کاٹنے کی وجہ سے ڈینگی وائرس میں مبتلا مریض کا کیس سامنے آیا سال 2008 میں صوبہ بھر میںچودہ سو سے زائدافراد ڈینگی بخار میں مبتلا ہوئے، 2009میں سو سے زائدافرادکے بلڈ ٹیسٹ میں ڈینگی وائرس مثبت آیا، لیکن 2010-11میں لاہور میں ڈینگی کا مسئلہ شدت اختیار کر گیا ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی، سابقہ حکومت کے وزیراعلی میاں شہباز شریف نے دن رات ایک کر کے ڈینگی مچھرکے خاتمہ اور اس سے متاثرہ مریضوں کے علاج معالجہ کے لئے بھر پور کاوشیں کی جسکی وجہ سے کافی حد تک پنجاب میں ڈینگی مچھر کا خاتمہ ممکن ہوا اور مریضوں کی تعداد بھی ہر سال کم سے کم ہوتی چلی گئی۔
مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے چیف ایگزیکٹو آفیسر ہیلتھ اتھارٹی ڈاکٹر عبدالمجید ،ڈسٹرکٹ اینٹا مالوجسٹ محمد اقبال محمود سے خصوصی نشست کی جس میں انہوں نے راقم الحروف کو بتایا کہ ضلع اوکاڑہ میں ڈینگی کا کوئی مریض نہ ہے ، جو دو مریض گزشتہ روز ڈینگی وارڈ میں لائے گئے ہیں وہ اوکاڑہ کے رہائشی ہیں لیکن راولپنڈی میں محنت مزدوری کرتے ہیں جہاں پر بیماری سے متاثر ہو ئے جنھیں علاج کی خاطر اوکاڑہ منقل کیا گیا ہے جبکہ ڈینگی سے بچائو کے لئے ضلع بھر میں ٹیمیں کام کر رہی ہیں انکا کہنا تھا کہ یہ مچھر پانی میں پیدا ہوتا ہے مادہ مچھر ٹھہرے ہوئے پانی میں انڈے دیتی ہے ڈینگی مچھرکے انڈوں (لاروا)کی پیدائش کے مقامات گھروں میں پانی کی ٹینکی ،دوکانوں پرپڑے پرانے ٹائرز،روم کولر کاپانی،گملوں میں جمع شدہ پانی،ٹوٹے ہوئے برتن،فرنیچر ، باغیچہ اورکاٹھ کباڑ شامل ہیں ڈینگی مچھر سے بچائو کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو اس کی پیدائش کو روکا جا سکتا ہے مادہ مچھر کے انڈے ایک سال تک زندہ رہتے ہیں مناسب نمی ملنے پر مچھر کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔
چیف ایگزیکٹوآفیسرڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈاکٹر عبدالمجید نے مزید بتایا کہ عام ڈینگی بخار کی علامات میں شدید بخار، جسم پر لرزہ طاری،جسم میں شدید درد،بھوک نہ لگنا،آنکھوں کے پیچھے شدید درد، پٹھوں اور ہڈیوں میں شدید درد،جسم پر سرخ دھبوں کا نمودار ہونا ہے جبکہ ڈینگی بخار کی خطرناک صورتحال جس میں مندرجہ بالا علامات کے علاوہ پیٹ میں شدید درد،سیاہ پاخانہ،چارسے پانچ گھنٹوں کا پیشاب کا نہ آنا،ناک یا جسم کے مختلف حصوں سے خون بہنا اور بلڈ پریشر کے کم ہونا شامل ہیںایسے مریض کو فوری طور پر ہسپتال میں داخل کروادیناچاہیے حکومت پنجاب نے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں میں ڈینگی وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لئے سپیشل وارڈ بنائے ہیں جہا ں علاج کی تما م تر سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔سانچ کے قارئین کرام !ڈینگی مچھر کی زندگی کے چار مراحل ہیںانڈہ ،لاروا،پیوپا ،بالغ مچھر،مادہ مچھر زندگی میں چار سے پانچ بارانڈے دیتی ہے اور ہر بار انڈوں کی تعداد100 تا 250 تک ہو سکتی ہے انڈے گہرے بھورے رنگ کے ، شکل میں لمبوترے اور گچھوں کی مانند نظر آتے ہیں انڈوں کی تعدادکا انحصارمادہ مچھرکے انسان سے چوسے ہوئے خون کی مقدار پر ہوتا ہے۔
ڈینگی مچھر کو بالغ ہونے سے پہلے ختم کرنا ضروری ہوتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ پانی جمع کرنے کے برتن مثلاً گھڑے،ڈرم بالٹی،ٹب اور ٹینکی کو اچھی طرح ڈھانپ کر رکھیں، گھروں میں موجود فواروں،آبشاروں اور سوئمنگ پول وغیرہ کا پانی باقاعدگی سے تبدیل کریں، جھیل وغیرہ میں لاروا خور مچھلیاں پالیں،مچھروں سے بچائو کے لیے کوائل میٹ،مچھر بھگائولوشن اور مچھر دانی کا استعمال کریں،گٹر کے ڈھکن پر بنے سوراخوں میں پانی کھڑا نہ ہونے دیں،اے سی اور فریج سے خارج ہونے والا پانی زیادہ دیر کھڑا نہ رہنے دیں،پرندوںاور جانوروں کے برتنوں کو باقاعدگی سے صاف کرکے خشک کریں اور ان میں بلا ضرروت پانی نہ رہنے دیں۔اپنے گھروں میں مچھر مار سپرے باقاعدگی سے کروائیں۔ٹمپریچرسازگار ہو یا انڈوں کو پانی لگ جائے یاانڈے پانی میں ڈوب جائیںتو48گھنٹوں کے اندر انڈوں سے بچے نکل آتے ہیں جن کو لاروا کہتے ہیں۔
لاروا پتلا ،لمبوترا اور شفاف ہوتا ہے اور جسم اندر سے دھاری نما نظر آتا ہے لاروے پانی کی اوپر والی سطح کے نیچے الٹے لٹکے رہتے ہیںلاروا خوراک کے لئے پانی کے اندر رہتا ہے لارو ے کے جسم کی پچھلی جانب ایک ہلکے کالے رنگ کی ٹیوب ہوتی ہے سانس لینے کے لیے مچھر اس ٹیوب کو پانی کی سطح کے باہر لاتاہے، 72 گھنٹوں کے بعد مناسب درجہ حرارت میں لاروا پیوپا کی شکل اختیار کر تاہے یہ چھوٹا اور چوڑا ہونے کے ساتھ پانی میں تیزی سے حرکت کرتا ہے اس کی حرکت کو ٹمبلر بھی کہتے ہیں پیوپا کھا تا کچھ نہیںاور سانس لینے کے لئے پانی کی سطح کے نیچے الٹا لٹکا رہتاہے اور سانس لینے کے لیے ٹرمپٹس کا استعمال کرتاہے، 48 گھنٹوں کے بعد مناسب حالات پرپیوپا سے مچھر بن کر کھلی ہوا میں چلا جاتا ہے یہ مچھرمیلوں سفر کر سکتا ہے اس کا پروانہ گہرے کالے رنگ کا،جسم پر سفید رنگ کے نشان ، ٹانگیں لمبی اور ٹانگ کے ہر جوڑ پر سفید نشان ہوتے ہیں۔
نر مچھر جسامت میں مادہ سے چھوٹا ہوتا ہے۔نر مچھر صرف پھولوں کے نیکٹر سے کاربوہائیڈریٹ حاصل کرتا ہے اور انسان وغیرہ کو کاٹتا نہیں اور چند دن بعد مر جاتا ہے۔صرف مادہ مچھر خون چوستی ہے مادہ مچھر جتنا خون حاصل کرے گی اتنے ہی زیادہ انڈے د ے گی۔یہ تین ہفتے تک زندہ رہ سکتی ہے ، بیماری چاہے ملیریا ہو یا ڈینگی دونوں صورتوں میں اس کے پھیلنے کی بنیادی وجہ صفائی ستھرائی کی صورتحال کا بہتر نہ ہونا ہے الحمد للہ ہم مسلمان ہیں حدیث نبوی ۖ ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے ، جبکہ ہمارے شہروں قصبوں دیہاتوں میں صفائی کی صورتحال انتہائی خراب ہے کئی بار صفائی مہم چلائی گئیں لیکن افسوس صورتحال پھر بھی جوں کی توں ہے ہم سب کو اس جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ ملیریا اور ڈینگی جیسی موزی بیماریوں سے چھٹکارہ پایا جا سکے۔