نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ایران کی بڑھتی ہوئی جارحیت کا جواب دے۔انھوں نے ایرانی قیادت کو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ سب سے پہلے ایرانی عوام کی بہتری پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔
وہ منگل کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے چوہترھویں سالانہ اجلاس سے خطاب کررہے تھے۔انھوں نے ایران کے ’استبدادی‘ نظام کو امن پسند قوموں کے لیے سب سے بڑا سکیورٹی خطرہ قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا:’’ چار عشروں کی ناکامی کے بعد اب ایران کے لیڈروں کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ آگے آئیں ،دوسرے ممالک کو ڈرانے دھمکانے کا سلسلہ ترک کردیں اور اپنے ملک کی تعمیر وترقی پر توجہ مرکوز کریں۔‘‘
انھوں نے دوسرے ممالک پر بھی زور دیا ہے کہ وہ امریکا کی پیروی کرتے ہوئے ایران کے خلاف اقدامات کریں۔صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’’ امریکا نے ایران کے سعودی عرب میں تیل تنصیبات پرحملوں کے ردعمل میں اس کے مرکزی بنک کے خلاف سخت ترین پابندیاں نافذ کی ہیں۔تمام قوموں کا فرض ہے کہ وہ بھی اس کے خلاف کارروائی کریں۔ کسی بھی ذمے دار حکومت کو ایران کی خون ریزی کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
صدر ٹرمپ نے ایران پر چودہ ستمبر کو سعودی آرامکو کی تنصیبات پر حملوں کا الزام عاید کیا ہے لیکن ایران نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اس موقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر ایران اس حملے کے پیچھے ہوتا تو پھر اس آئل ریفائنری میں کچھ بھی نہیں بچتا۔‘‘
امریکی انٹیلی جنس کی رپورٹ کے مطابق آرامکو کی دو تنصیبات پر ایران سے ڈرون حملے کیے گئے تھے ۔عرب اتحاد کی ابتدائی تحقیقات میں بتایا گیا تھا کہ ان حملوں کے لیے ایران ساختہ ہتھیار استعمال کیے گئے تھے۔
جواد ظریف نے سوموار کو اقوام متحدہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس یہ یقین کرنے کا کوئی جواز نہیں کہ یمن کے حوثی باغی ان حملوں کی ذمے داری قبول کرنے سے متعلق غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ان حملوں کے نتیجے میں سعودی عرب کی تیل کی نصف سے زیادہ پیداوار معطل ہوکر رہ گئی تھی اور خام تیل کو مصفا بنانے کے دنیا کے سب سے بڑے پلانٹ کو نقصان پہنچا تھا۔
امریکا کے علاوہ برطانیہ ، جرمنی اور فرانس نے بھی ایران پر ان ڈرون حملوں کا الزام عاید کیا ہے۔ان تینوں ممالک کی حکومتوں نے آج ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم پر یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان حملوں کی ذمے داری ایران پر عاید ہوتی ہے۔اس کی کوئی اور معقول وضاحت نہیں ہے۔‘‘
یورپی لیڈروں نے ایران پر یہ بھی زور دیا ہے کہ وہ عالمی طاقتوں کے ساتھ اپنے جوہری اور میزائل پروگرام اور علاقائی سلامتی کے ایشوز پر نئی بات چیت کرے اور وہ مذاکرات کے ایک طویل المیعاد فریم ورک کو قبول کرے۔‘‘
امریکی صدر نے جمعہ کو ایران کے مرکزی بنک پر نئی پابندیاں عاید کرنے کا اعلان کیا تھا اور انھیں سخت ترین قرار دیا تھا۔امریکی وزیر خزانہ اسٹیون نوشین نے کہا تھا کہ مرکزی بنک ایران کو فنڈز کی فراہمی کا آخری ذریعہ تھا۔ اس کے ردعمل میں ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا کہنا تھا کہ اب تو امریکا سے مذاکرات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے سعودی آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملوں کا جواب دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ان حملوں کے نتیجے میں تیل کی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔