امریکہ امن چاہتا ہے

Imran Khan-Trump Meeting

Imran Khan-Trump Meeting

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور

آج کے موضوع پربات کرنے سے قبل زلزلہ متاثرین کیساتھ اظہار افسوس کے ساتھ ایک بہت ہی خوبصورت پیغام جو زلزلہ آنے کے بعد پیارے بھائی ناصر حمید نے شیئر کیا اسے مزید شیئر کرنا چاہتا ہوں،زلزلے اس لئے نہیں آتے ہیں کہ آپ اسٹیٹس لگائیں یہ تو اسلئے آتے ہیں کہ آپ دوڑ لگائیںاللہ کی طرف گناہ سے نیکی کی طرف شر سے خیر کی طرف غلطی سے توبہ کی طرف توبہ کی قبولیت سے بخشش کی طرف جب ذاتوں میں زلزلے آئیں تو اللہ سے جڑتے ہیںاورجب کائناتوں میں زلزلے آئیں تب بھی یہی مقصد درپیش ہے رب جھنجھوڑ رہا ہے آپکو دیر ہونے سے پہلے جلدی سے اسکی طرف پلٹ آئیں،ناصرحمیدانسانیت کادردرکھنے والے بہت اچھے انسان ہیں۔

زلزلہ متاثرین کیلئے نیک خواہشتات اوربہت ساری دعائوں کے بعد چلتے ہیں آج کے موضوع کی طرف۔امریکہ کس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھناچاہتاہے کس کے ساتھ سخت رویہ اختیارکرناچاہتاہے اور کس کس کولالی پاپ دیناچاہتاہے یہ امریکہ کی پالیسی اوراختیارہے ہمیں تویہ سوچنااورفیصلہ کرناہے کہ چین،ترکی،ملائشیا،سعودی عرب اورکسی بھی دیگرملک پربھروسہ کرنے کی بجائے خوداپنی حیثیت میں رہ کرہم کیاکرناچاہتے ہیں اورکیاکرسکتے ہیں،ہرریاست کی اپنی پالیسیاں، مفادات، ضروریات کے ساتھ کچھ مجبوریاں بھی ہوتی ہیں،حکومتی انتظامیہ دوسروں کی طرف دیکھنے کی بجائے خودپرتوجہ دیں،امریکہ،برطانیہ اوراقوام متحدہ پاکستان کے ساتھ بھارت کوبھی لالی پاپ ہی دے سکتے ہیں جبکہ بھارت خودکوامریکہ سمجھنے کی سنگین غلطی کررہاہے،بھارت کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کودبانے کیلئے جووسائل استعمال کررہاہے وہ بھارت کے ذاتی ہیں ناکہ امریکہ کے،پاکستانی اوربھارتی حکمران ملکی وسائل اپنے عوام کی فلاح وبہبودکی بجائے جنگی سازسامان خریدنے پرخرچ کرتے ہیںتواس میں امریکہ کو فائدہ ہے۔

کیا ہم اپنے ماضی کوفراموش کرسکتے ہیں جس میں انگریزوں نے ہند اورمسلم کی تفریق کیے بغیرہمیں غلام بنائے رکھا،ہندو و مسلم میں فرق اتناہے کہ ہندوئوں نے انگریزکی زیادہ چمچہ گیری کی جس کے باعث انگریزہندوئوںکوزیادہ پسندکرتے ہیں،امریکہ اور بھارت فطری طورپراسلام مخالف نظریات کے حامل ممالک ہیں،یہاں پریشانی کی بات یہ نہیں کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں،فکرکی بات یہ ہے کہ مسلم ممالک کے آپسی تعلقات کمزورکیوںہیں؟جب غیرمسلم مسلمانوں کو دہشتگردکہتے ہیں تووہ کسی خاص مسلم ریاست،کسی مسلک کودہشتگردنہیں کہتے بلکہ وہ تو بلاتفریق مسلمانوں کودہشتگردقراردیتے ہیں اس کے باوجودمسلم قیادت آپسی معاملات ٹھیک کرنے پرتوجہ نہیں دے رہی یہی اصل فکرکی بات ہے،ہم نہ صرف امریکہ بلکہ پوری دنیاکوتنازعہ کشمیر حل کروانے کیلئے سنجیدہ کرداراداکرنے کیلئے نہ صرف کہہ رہے ہیں بلکہ باربارمطالبہ کر رہے ہیں جبکہ صدرٹرمپ بھارتی وزیراعظم کوثالثی قبول کرنے یاکم ازکم کشمیرمیں انسانی حقوق کی بحالی پرمجبورکرنے کی بجائے مودی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کرنہ صرف مسلمانوں کو دہشتگرد کہتاہے بلکہ اسلامی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھارت کواتحادی کہتاہے اور کتنی عجیب بات ہے کہ چند گھنٹے بعدوزیراعظم پاکستان کے ساتھ بیٹھ کرایک بارپھر مسئلہ کشمیرپرثالثی کی پیشکش کرتا ہے۔

بھئی کوئی امریکی صدرکوبتاوکہ پاکستان نے ثالثی کی پہلی پیشکش نہ صرف قبول کی بلکہ اسے خوش آنند قراردیاتھا،امریکی صدر نئے سرے سے ثالثی کی پیشکش کرنے کی بجائے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیرحل کرنے کی طرف توجہ دیںتوزیادہ بہترہوگا،منگل کے روز امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے ایران کو نہ صرف دہشت گردوں کا سب سے بڑا اسپانسر قراردیا بلکہ شام اور یمن میں دہشت گردی کا ذمہ دار بھی ٹھہریا،صدرٹرمپ کاکہنا تھا کہ امریکا نے ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لئے معاہدہ توڑا،سعودی عرب پر حملے کے بعد ہم نے ایران پر بڑی پابندیاں لگائیں،رویہ بہتر بنانے تک ایران پر ایسی ہی پابندیاں لگتی رہیں گی۔

امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ حکمرانوں کا مستقبل محب وطن ہونے میں ہے، بہتر حاکم اپنے عوام کا سوچتا ہے، اس کے لیے سب کچھ اس کا اپنا ملک ہوتا ہے،ہم مستقبل میں کسی تنازعہ میں نہیں الجھنا چاہتے پر اپنے مفادات کا تحفظ ضرورکریں گے، ہم امن چاہتے ہیں، میں امریکی مفادات کو تحفظ دینے میں دیر نہیں لگاؤں گا”امریکی صدر کے خطاب میں پاک،بھارت حکمرانوں کیلئے ایک خاص پیغام یہ تھاکہ لڑتے رہو،مرتے رہوں ہم اپنے ملک کے وفادار،اپنے عوام کے خیرخواہ اورملکی مفادات کے محافظ ہیں،یہ جوتم باربارہماری قدم بوسی کیلئے بیتاب ہوجاتے ہویہی ہمارے سپرپاورہونے کی ضرورت ہے،تم اپنے مسائل میں نہ صرف الجھے رہوبلکہ اپنے تمام تر وسائل جنگ کی آگ میں جلاکرراکھ کرتے رہوگے تبھی توہماری سپرپاوری قائم رہے گی،وزیراعظم پاکستان نے بڑی خوبصورت بات کی کہ اسلام دونہیں ایک ہے۔

اسلام کی غلط تشریح یعنی اسلام کو دہشتگردی کے ساتھ جوڑناانتہائی خطرناک ہوگا،اسلام وہ ہے جوہمیں رسول اللہ ۖ نے عنایت فرمایاہے،عمران خان نے ایک بارپھردہرایاکہ پاکستان نے افغان جنگ میں امریکہ کا اتحادی بن کرسنگین غلطی کی،بالکل درست کہاوزیراعظم پاکستان نے نائن الیون کے بعد ہمیں امریکہ کااتحادی بننے کی بجائے غیرجانبداررہناچاہئے تھا،میں سمجھتاہوں کہ ہمیں آج بھی امریکہ،طالبان مذاکرات میں محتاط کرداراداکرناچاہیے،ماضی کے تجربات کومدنظررکھاجائے توآسانی سے سمجھاجاسکتاہے کہ طالبان امریکہ اورامریکہ طالبان پرکسی صورت اعتبارنہیں کرسکتے جبکہ پاکستان افغان مسئلہ کے پرامن حل کاخواہاں ہے اوریہ بھارت کوکسی صورت منظورنہیں کہ پاکستان افغان مسئلہ میں امریکہ کی مددکرکے امریکہ کے قریب ہوجائے،اقوام متحدہ کااجلاس ابھی جاری ہے جس میں وزیراعظم پاکستان کااہم خطاب ہوناباقی ہے،پاکستان مقبوضہ کشمیر،افغانستان،خطے اوردنیاکے امن کیلئے کس قدرفکرمنداورمتحرک ہے اس بات کاندازہ دنیاکووزیراعظم پاکستان کے خطاب کے بعدہوجائے گا۔

مجھے لگتاہے کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان اجلاس میں دوٹوک موقف پیش کریں گے کہ ہم نے نائن الیون کے بعدافغان جنگ میں امریکہ کاساتھ دے کربہت نقصان اُٹھایالہٰذاآئندہ ہم کسی ایسی جنگ کاحصہ بننے کیلئے ہرگزتیارنہیں،امریکہ اپنے مفادات کاتحفظ ضرورکرے پرضروری نہیں کہ اس کیلئے جنگ ہی لڑی جائے،پرامن مذاکرات سب کیلئے انتہائی مفیداورعالمی امن کے ضامن ہیں لہٰذاہم پوری دنیاکودعوت دیتے ہیں کہ انسانیت کی فلاح وبہبودکیلئے جنگ وجدل سے دوررہیں،جنگ کسی بھی مسئلے کاآخری حل ہواکرتی ہے جبکہ طاقتورکوکمزورپرحملہ آور ہونے سے پہلے کروڑ بار سوچناچاہیے،جس کے پاس پابندیاں عائدکرنے کااختیارہواس طاقتورسپرپاورملک کوکبھی کسی کمزورپرحملہ آورنہیں ہوناچاہیے،امن کیلئے جو کردار امریکہ اداکرسکتاہے کوئی اور نہیں کر سکتا،ہماری ماضی کی غلطیاں ہمیں یہ سبق دے رہی ہیں کہ آئندہ اپنی سرزمین کسی کیخلاف استعمال ہونے دونہ کسی کیخلاف کسی کوجنگی تربیت اورمالی مدد دو،تمام مسائل کاحل پرامن بات چیت میں میں تلاش کرو،ہم آج دنیاکوامن کاپیغام دیتے ہیں اورساتھ ہی مقبوضہ کشمیر،بھارتی سکھوں،افغانستان،فلسطین،عراق سمیت دنیابھرمیںمذہبی،نسلی امتیازسے بالاترہوکرانسانی حقوق کی بحالی کامطالبہ کرتے ہیں،ہم صرف اپنے لئے امن نہیں چاہتے ہم توپوری دنیاکے امن کی بات کرتے ہیں،ہم سمجھتے ہیں حالات کتنے ہی کشیدہ کیوں نہ ہوجائیں مسائل کاحل پرامن مذاکرات کے ذریعے نکالناممکن اورجنگ کے مقابلے میں بہت آسان ہے۔

قوی امیدہے کہ وزیراعظم پاکستان اقوام متحدہ میں اپنے خطاب میں دنیاکوامن کے پیغام کے ساتھ مسلم دنیا،کشمیراورپاکستانی عوام کے مفادات اورحقوق کی بات بڑے موثراندازمیں کریں گے،امریکن سپرپاورہونے کے باوجود اپنے معاشی،مالی مفادات کے تحفظ کیلئے پوری دنیامیں کسی بھی وقت کسی بھی ملک پرحملہ کرنااپناحق سمجھتاہے جبکہ سپرپاورکی حیثیت سے پوری دنیاامریکہ کی بات کواہمیت دیتی ہے دوسری جانب فلفسہ اسلامی جہادہے جس کے مطابق جب کوئی ظالم انسانیت کی تمام حدیں توڑدے،جب مسلمانوں کوان گھر،کھیت اوروطن سے محروم کردیاجائے،جب مسلمانوں کی عزتیں غیرمحفوظ ہوجائیں،جب مسلمانوں کاقتل عام شروع کردیاجائے توپھرمسلمانوں کو صرف ذاتی مفادات کے تحفظ کیلئے نہیں بلکہ انسانیت کی بقاء کی خاطرجہادکی نہ صرف اجازت ہے بلکہ دین اسلام جہادکا حکم دیتا ہے،ہم امریکہ سے یابھارت سے برابری کی بات نہیں کرتے ہم توبنیادی انسانی حقوق کی بحالی کامطالبہ کررہے ہیں لہٰذااسلام کودہشتگردی کے ساتھ نہ جوڑاجائے،ظلم جس پربھی ہوگاوہ تڑپے گااورپلٹ کروارکرنے کی کوشش کرے گااس میں کسی مذہب پرالزام تراشی کی ضرورت نہیں،امریکہ امن چاہتاہے تودنیابھرمی جاری انسان حقوق کی خلاف ورزیوں کیخلاف اقدامات کرے اوربرابری کی بجائے سب کے ساتھ عدل کا سلوک کرے۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور
imtiazali470@gmail.com.
03134237099