پاکستان کی مسلح افواج شمار دنیا کی بہترین اور فعال ترین مسلح افواج میں ہوتا ہے ۔اس کی عدوی قوت بھی مناسب ہے اور اس کی ضرب کاری بھی بے مثال ہے ۔اس ملک کی حفاظت کے متعدد جنگیں لڑیں اور دشمن کو بھر پور جانی ومالی نقصان پہنچایا بلکہ گردوپیش کے امڈتے ہوئے خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے سوویت یونین روس جیسے ملک کو اپنی بہترین جنگی حکمت عملی کے ذریعے شکست فاش دیکر اس کے زیر قبضہ مسلم اور عیسائی ریاستوں کو آزادی دلائی ۔جب سے ملک بنا ہماری فوج نہایت قلیل جنگی ہتھیار اور وسائل رکھتی تھی کیونکہ جنگی سازوسامان اور کارخانے بھارت کے حصے میں آئے تھے اور وہ ان میں سے کچھ بھی پاکستان کے حوالے کرنے کو تیار نہ تھا ۔اس طرح نہایت بے سروسامانی کے عالم میں ہماری مسلح افواج کی تشکیل ہوئی،لیکن ایک ایسی چیز تھی جو دشمن اپنی ہزار کوششوں کے باوجود ہم سے نہ چھین سکتا تھاوہ ہماری فوج کا جذبہ ایمانی تھا جسے بروئے کار لاتے ہوئے وہ اپنے سے کئی گناہ بڑے طاقت ور دشمنوں کو چیلنج کرنے کے قابل تھی ۔ہمارا ملک تقسیم ہند کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا جہاں بھارت کو تو حکومت ،ریاست ،انتظامیہ اور فوج پوری جنگی وسائل کے ساتھ بنی بنائی سجی سجائی دوکان کی طرح حاصل ہوئی تھی۔
جبکہ پاکستان ایک لٹے پٹے خطہ زمین کے طور پر میسر آیا جہاں نہ حکومت کا نظام تھا ،نہ انتظار میہ تھی ،منظم فوج اور اقتصادی اور جنگی وسائل دستیاب تھے ،بیشتر اعلیٰ اور ادنیٰ افسران اور عملہ بھارت بھاگ چکا تھا ،پاکستان آنے والے عملے کو جانیں بچا کر اپنے مادروطن پہنچنا مشکل ہورہا تھا ۔اس سراسیمگی کے عالم میں ملک کا ہر نظام ازسرنو تشکیل پانا تھا ۔بانی پاکستان گورنر جنرل محمد علی جناح اور وزیر اعظم لیاقت علی خان جیسی زیرک اور مخلص قیادت ملک کے ابتدائی چند سالوں ہی میں داغ مفارقت دے چکی تھی اور پیچھے بچ جانے سیاستدان اور لیڈر اپنے علاقائی اور سیاسی مفادات کی جنگیں لڑرہے تھے ،آئے روز وزیروں اور حکومتوں کی تبدیلی معمول بن چکا تھا ۔اس غیر مستحکم صورت حال میں ملک اور اس کے اداروں کا استحکام خطرے میں رہتا تھا ۔ملک کے سیاستدان ابھی تک اپنی سیاسی لڑائیوں کو اپنے گھر کی لڑائی سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کا باہر کی دنیا سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن اکثر یہ نہیں جانتے کہ ہمارا ملک بھارت کی طرح عام ملک نہیں بھارت اگرچہ دنیا کابہت بڑا ملک ہے لیکن اس کی جغرافیائی حیثیت دنیا کے لیے وہ اہمیت نہیں رکھتی جو پاکستان کی ہے۔
پاکستان دنیا کا سٹرٹیجک ملک ہے جو بھارت کے علاوہ دنیا کی دوبڑی سپر پاورز روس اور چین کے قریب اور سمندری راستے سے وسطی ایشیااور افریقہ کے قریب ہے ،جبکہ ایران اور افغانستان جیسے اہم ممالک سے متصل ہے۔یہاں بڑی طاقتوں کے مفادات کہیں ہم آہنگ ہوتے اور کہیں ٹکرانے لگتے ہیں۔پڑوسی ملکوں کے امن اور بدامنی کے اثرات بھی یہاں تیزی سے پڑتے ہیں ۔اسلامی مملکت ہونے کے ناطے اس کی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے اور عالمی رویوں میں تبدیلی بھی اس خطے کو متاثر کرتی ہے۔ضرورت اس امر کی تھی کہ یہاں ایسے سیاستدان اور حکومتیں برسراقتدار آئیں جو ان مسائل کا ادراک رکھتے ہوئے ملک کو ترقی واستحکام کی جانب لے جائیں اور ملک کو درپیش مسائل بھی حل ہوجائیں ۔اس طرح ہمارے مقامی ادارے اور ریاستی نظام بھی مضبوط مستحکم ہوتا لیکن ایسانہ ہوسکا۔یہ ملک خداداد پاکستان جو لاکھوں قربانیوں سے وجود میں آیا تھاوہ کوئی کھیل تماشہ نہیں تھاجو سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا جاتا ۔حکمت عملی اور استحکام کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ملک کی مسلح افواج نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا ۔ملک میں اسلحہ سازی کے کارخانے لگائے ۔زمینی جنگوں کے لیے توپیں اور ٹینک تیار کئے ۔گولہ بارود راکٹ سازی کا کام جدید خطوط پر استوار کیا۔
پاکستان ائیر فورس نے جب محسوس کیا کہ اس جنگی قوت کا انحصار ایسے ملکوں پر ہے جو ہماری ضرورتوں کی بجائے اپنی مصلحتوں کی بنیاد پر طیارے اور ان کے فاضل پرزہ جات فروخت کرتے ہیں ،لہذا اس نے اپنے ماہرین اور انجینئر زکی قیادت میں طیارہ سازی خود کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اس حوالے چین اور دوست ممالک نے بھی اس کا بھر پور ساتھ دیا ۔نیز مسلح افواج کے تمام شعبوں نے اپنی جنگی صلاحیت کو اعلیٰ معیار پر مضبوط بنانے کے لیے اپنے جوانوں اور افسروں کو بہترین جنگی تعلیم وتربیت دینے کا انتظام کیا اس حوالے سے کاکول اکیڈمی ،فوجی تربیت کے ادارے ،نیشنل کالج نے بھر پورا کردار ادا کیا۔ان اداروں میں ملکی افسروں اور جوانوں کے علاوہ دوست ممالک کے فوجیوں کو بھی تربیت دی جاتی ہے۔پاکستان نیوی نے 65ء میں اپنی زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن کے اڈے دوارکا کو تباہ کیا تھا اور اس کے بعد وہ اپنی بحری سرحدوں کو محفوظ بنانے اور دشمنوں اور لیٹروں سے بچانے کے لیے ہمیشہ برسرپیکار رہی ہے۔
سمندر سے ملحقہ علاقوں میں جب بھی انتظامیہ کو امن وامان یاکسی سماوی آفت میں امداد کی ضرورت پڑی تو اس نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر ہاتھ بٹایا۔رواں سال فروری میں جہاں پاکستان ائیر فورس نے دشمن کے طیارے گراکر اس کے دانت کھٹے کئے وہاں پاک بحریہ نے بھی دشمن کو اپنی بحری حدود سے دور رہنے پر مجبور کیا حملے کے ارادے سے آئے بحری جہازوں کو دم دبا کر بھاگنا پڑا ۔جہاں تک ملک کی بڑی فوج کی قربانیوں اور جدوجہد کا تعلق ہے اس سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے اور اس پر فخر کرتا ہے جموں وکشمیر کی کنٹرول لائن ہویا پاک بھارت سرحد ہماری فوج ہر دم چوکس ہے اور دشمن کی معاندانہ حرکت کا جواب دینے کو تیار رہتی ہے ۔جیسا کہ ہمارا ملک عالمی ریشہ دوانیوں کا بھی شکار رہتا ہے اور بعض اوقات اسے ایران اور افغانستان کی جانب سے بعض گمراہ عناصر کی جارحیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی چوکنا رہنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کبھی دھماکوں اور خودکش حملوں کی صورت میں ہمارے ملک کے اندر یا سرحد پر حملوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ہماری مسلح افواج نے ان عناصر کو نہ صرف موقع پر بھر پور جواب دیا بلکہ اصل تخریب کاروں کو ڈھونڈنکالا اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے ملکی اور غیر ملکی عناصر کا بھی کھوج لگا کر ان بیخ کنی کی ۔اس حوالے سے ضرب عضب اور ایسے ہی کئی خصوصی آپریشن کئے گئے ۔اگرچہ عام طور پر لوگ مسلح افواج کو بندوق ،توپ ٹینک جنگی طیارے اور بحری جنگی جہازوں کے حوالے سے جانتے ہیں ،آج کل میزائلوں اور ایٹمی ہتھیاروں کی اہلیت بھی ان کا حوالہ ہے لیکن دوسری جانب فوجی افسروں اور جوانوں کی صحت تندرستی اور توانائی کی دیکھ بھال کے لیے بھی ایک وسیع طبی نظام موجود ہے جہاں نہ صرف زخمیوں بلکہ بیماروں کا علاج معالجہ بھی کیا جاتا ہے افواج کایہ طبی شعبہ جس میں سی ایم ایچ اور دیگر ہسپتال اور ڈسپنسریاںشامل ہیں اس قدر اعتماد حاصل کرچکا ہے کہ ملک کے عام شہری بھی اس کی جدید طبی خدمات سے فائدہ اٹھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ملک کی مسلح افواج نے ملک کے نوجوانوںمیں فوجی تعلیم وتربیت کے جذبہ کو فروغ دینے کے لیے ایک اعلیٰ تعلیمی وتربیتی نظام بھی قائم کررکھا ہے جہاں سکول سے کالج اور یونیورسٹی تک طلبہ جدید تعلیم حاصل کرتے ہیںاور اسلامی خطوط پر انکی تعلیم وتربیت بھی کی جاتی ہے ۔ان اداروں سے کامیاب ہوتے طلبہ نہ صرف افواج بلکہ اعلیٰ سول اور جدید سائنس کے اداروں میں بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ملک کی عوام اپنی فوج سے بے پناہ محبت رکھتے ہیں اور اس کا بھر پور اظہار مختلف مواقع پر دیکھنے میں آتا ہے ۔ملکی امن وامان کا مسئلہ ہوتو عوام کی جانب سے فوج طلب کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے ۔منصفانہ انتخابات کے انعقاد کے لیے فوج پر اعتماد کیا جاتا ہے آفات سماوی جیسے زلزلہ ،سیلاب کی تباہ کاری ہوتو عوام اور حکومت مسلح افواج ہی کی طرف دیکھتے ہیں۔
اب تو صورت حال یہ ہے کہ مردم شماری اور حفاظتی ٹیکوں کے لیے مسلح افواج کی امداد طلب کی جاتی ہے،ایک نہایت اہم بات ہماری مسلح افواج کے حوالے سے بتانا ضروری ہے کہ ہماری فوج ملک کے کسی خاص حصے کے افراد پر مشتمل نہیںاس میںجموںکشمیر ،خیبر ،سندھ پنجاب ،بلوچستان کے ہر حصے قوم اور برادری کے لوگ شامل ہیںاس پہ نہ صرف ایک قومی بلکہ قومی ہم آہنگی کا زبردست ذریعہ بھی ہے ۔ہماری فوج عام معنوں میں پیشہ ور فوج نہیں ہے۔یہ ایمان اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار مجاہدوں کی فوج ہے ملک وقوم کا فخر اور قومی استحکام کی علامت ہے ۔پاک فوج زندہ باد ۔۔۔پاکستان پائندہ باد