کابل (اصل میڈیا ڈیسک) لاکھوں افغان شہریوں نے طالبان کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صدارتی الیکشن میں ووٹ ڈال دیا۔ عبوری نتائج سترہ اکتوبر تک متوقع ہیں۔
ووٹنگ کے دن کئی علاقوں سے بے ضابطگیوں اور دھاندلی کی شکایات سامنے آئیں۔ انتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ادارے کے ترجمان روح اللہ نو روز نے کہا کہ اس قسم کی شکایات پورے ملک سے ہی موصول ہوئی ہیں۔
دارالحکومت کابل میں ایک پولنگ اسٹیشن پر اتنی بدنظمی رہی کہ ایک ووٹر حاجی فقیر بومان کا کہنا تھا کہ ایسے الیکشن کے بعد اگر ان کا اپنا امیدوار بھی جیتا تو انہیں انتخابی نتائج پر یقین نہیں ہوگا۔
افغان شہریوں کی خاصی تعداد سرکاری اہلکاروں کی مبینہ کرپشن سے نالاں ہے اور ان کا سیاستدانوں پر سے اعتماد اٹھ گیا ہے۔ لوگ آئے دن کے حملوں اور خونریزی سے تنگ آ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس الیکشن میں ووٹر ٹرن آؤٹ کم دیکھنے میں آیا۔
اکثر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس الیکشن میں اصل مقابلہ صدر اشرف غنی اور پچھلے پانچ سال سے ان کی اتحادی حکومت میں شامل عبداللہ عبداللہ کے درمیان ہے۔
الیکشن کے عبوری نتائج سترہ اکتوبر تک متوقع ہیں جبکہ حتمی نتائج سات نومبر تک آئیں گے۔ اگر کوئی امیدوار مطلوبہ اکیاون فیصد ووٹ حاصل نہ کرسکا تو پھر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے پہلے دو امیدواروں کے درمیان دوبارہ مقابلہ ہوگا۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات معطل ہونے کے بعد حکومت نے حملوں کی دھمکیوں کے پیش نظر سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے تھے۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق ملک کے پانچ ہزار پولنگ مراکز کے لیے 72 ہزار سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کیے گئے تھے۔
اس کے باوجود ملک کے جنوبی شہر قندھار میں پولنگ شروع ہونے کے تھوڑی دیر بعد ہی ایک بم دھماکے میں کم از کم پندرہ افراد زخمی ہوگئے۔ بعض دیگر مقامات سے بھی جھڑپوں اور تشدد کی اطلاعات آئیں۔
امریکی صدر ٹرمپ نے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات نو طویل نشستوں کے بعد گزشتہ ماہ معطل کر دیے گئے تھے۔ طالبان نے اس سارے عمل کے دوران کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے سے انکار کیا تھا۔ صدر اشرف غنی کی حکومت صدارتی انتخابات سے قبل امریکا اور طالبان کے مذاکرات پر اپنے تحفظات ظاہر کرتی رہی تھی۔