بانی جماعت اسلامی سید ابوالا علیٰ موددی صاحب جیسے صدی کے بیٹے کم ہی پیدا ہوا کرتے ہیں۔سید موددی وقت کے مجدد تھے۔ مجدد کا کام تجدید دین ہوتا ہے۔ عام لفظوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دین کے احکامات پرجو گرد چھا جاتی ہے۔ مجدد اپنی حکمت عملی سے اس گرد کو ختم کرتا ہے۔دین کو چھاڑ جنکار سے پاک کر کے پھر سے قرآن کے احکامات اور رسولۖ اللہ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق کرتا ہے۔آہیے اس کام کو کرنے کے لیے مجدد کے صرف دو تین افکار شیئر کرتے ہیں۔
سید موددی اپنی کتاب تنقیحات کے صفحہ نمبر ٣٠٧ پر فرماتے ہیں”یہ شریعت بزدلوں اور نامرادوں کے لیے نہیں اتری ہے۔نفس کے بنددوں اور دنیا کے غلاموں کے لیے نہیں اتری ہے۔ہوا کے رخ پر اُڑنے والوں خس و خشاک اور پانی کے بہائو پربہنے والے حشارات الاض اور ہر رنگ میں رنگے جانے والے بے رنگوںکے لیے نہیں اتری ہے۔ یہ شریعت ان بہادر شیروں کے لیے اتری ہے جو ہوا کا رخ بدلنے کا عزم رکھتے ہوں۔جو دریاکی روانی سے لڑنے اور اس کے بہائو کو پھیر دینے کی ہمت رکھتے ہوں۔جو صبغت اللہ کو دنیا کے ہررنگ سے زیادہ محبوب رکھتے ہوں۔اور اسی رنگ میں تمام دنیا کورنگ دینے کاحوصلہ رکھتے ہوں۔ مسلمان جس کا نام ہے وہ دریا کے بہائو میں بہنے کے لیے پیدا نہیں ہوا ہے۔اس کی آفرنیش کامقصد ہی یہ ہے کہ زندگی کے دریا کو اس راستے پر رواں کر دے جو اس کے ایمان و اعتقاد میں راہ راست اور صراط مستقیم ہے”کیا موددی کے افکار میں شاعر انقلاب علامہ شیخ محمد اقبال صاحب کا رنگ نہیں ڈھلکتا۔ اقبال فرماتے ہیں:۔ یہ غازی، یہ تیرے پر اسرار بندے جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سرائی
٢٩٫ دسمبر ١٩٦٨ء لاہور کارکنوں اور طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں”یہ محمد عربی ۖ کی امت کا ملک ہے۔یہ مارکس اور مائوزے تنگ کی امت کا ملک نہیں ہے۔اگر اللہ کے دین کے لیے ہمیں لڑنا پڑا توہم خدا کے فضل سے دس محاذوں پر بھی لڑنے سے نہیں چوکیں گے۔ہم بہ یک و قت آمریت کا بھی مقابلہ کریں گے اور بے دینی سے بھی لڑیں گے۔جب تک ہم زندہ ہیں اور ہمارے سر ہماری گردنوں پر قائم ہیں۔ اسوقت تک کسی کی بھی ہمت نہیں کہ وہ جہاں اسلام کے سوا کوئی اور نظام لا سکے” ۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں”انقلاب یا ارتقاء ہمیشہ قوت ہی کے اثر سے رونما ہوا ہے۔اور قوت ڈھل جانے کا نام نہیں۔ ڈھالدینے کا نام ہے۔مڑ جانے کو قوت نہیں کہتے۔ موڑ دینے کو کہتے ہیں۔دنیا میں کبھی نامرادوں اور بزدلوں نے کوئی انقلاب پیدا نہیں کیا .” سید موددی اپنی خود نوشت سوانح میں تحریر فرماتے ہیں”خاندان موددیہ کی جس شاخ سے میرا تعلق وہ نو یں صدی ہجری کے اوآخرمیں ہندوستان آیا تھا۔اس شاخ کے پہلے بزرگ جنہوں نے ہندوستان میں مستقل سکونت اختیار کی وہ ابو ا لاعلیٰ موددی تھے”۔سیدمودددی کے اسلاف افغانستان کے علاقہ ہرات کے مقام چشت سے پہلے بلوچستان منتقل ہوئے۔ جہاں کئی پشتوں تک مقیم رہے۔ پھرسید مودددی کے خاندان کے پہلے بزرگ شاہ ابو ا لاعلی جعفر ہندوستان تشریف لائے۔ ان کے نام پر مولانا مودددی کا نام ابوا لاعلیٰ رکھا گیا۔تاریخی طور پر ہجرت اور جہاد اس خاندان کا طرّہ امتیاز رہا ہے۔
سکندر لودھی نے ٢ رمضان ٩١٢ ھ جس فوج کے ساتھ راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر پر چڑھائی کی تھی اس فوج کے لشکر کے ہمراہ شاہ ابو الاعلیٰ جعفر اپنے مریدان با صفا کے ساتھ شریک تھے ۔ اس لشکر نے راجپوتوں کے مضبوط قلعہ تھنکر کو فتح کیا تھا۔سید مودودی نے بھی اپنے خاندان کی روایت قائم رکھتے ہوئے ، مفکر اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبال کی تحریک پر حیدر آباد دکن سے اللہ کی دین کی سربلندی کے لیے ہجرت کر کے پنجاب کے علاقہ پٹھان کوٹ جمال پور منتقل ہوئے تھے۔پاکستان بننے کے فوراً بعد مولانا موددی کو قائد اعظم نے کہا کہ پاکستان میں اسلامی نظام کے قائم کرنے کے طریقے بتائیں۔سیدموددی نے ریڈیا پاکستان سے کئی دن تقریر نشر کر کے اسلامی نظام حکومت کے قیام کی تشریع تھی ۔یہ تقاریر اب بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ جو لوگ مولانا کو مودودی پر ناجائز بہتان لگا کر ان کو قائد اعظم کا مخالف کہتے ہیں وہ اس بات کو بھی نوٹ کر لیں۔سید مودودی جماعت اسلامی کی تشکیل سے پہلے مسلمانان برصغیر کے سامنے ایک عرصہ تک اس کی افادیت ،اپنے
٢ رسالے ترجمان القرآن میں بیان کرتے رہے۔ ان کے نزدیک جماعت اسلامی اسلام کے کسی جزوی کام کے لیے نہیں بلکہ پورے کے پورے اسلام کے نفاذ کے لیے بنائی گئی۔ دنیا میں رائج اللہ سے باغی نظام کو تبدیل کر کے حکومت الہیا، اسلامی نظامی، نظام مصطفےٰ، نام کوئی بھی ہو، اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کے لیے قائم کی گئی۔ اسی پالیسی پر جماعت اسلامی اب تک قائم ہے۔ انشاء اللہ جب تک پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم نہیں ہوتا اس کی جدو جہد جاری رہے گی۔ ١٩٤١ء لاہور میں ٧٥ افراد … ٧٥ روپے کچھ آنے… کی رقم کے ساتھ جماعت اسلامی قائم ہوئی۔ الحمد اللہ اس وقت بھارت، بنگلہ دیش،سری لنکا،مقبوضہ کشمیر، آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کام کر رہی ہے۔ دنیا کے دیگرملکوں میں جہاں جہاں جماعت کے کارکن معاش کے لیے گئے ہیں۔ وہاں بھی جماعت کی تنظیمیں مختلف ناموں سے قائم کیں جو اللہ کے دین کو قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
سید مودددی نے پہلے ہی دن سے جماعت کے منشور میں انبیاء کی سنت پر چلتے ہوئے ،پرامن جمہوری جدو جہدکے ذریعے ،اسلامی نظام حکومت کو قائم کرنے کی پالیسی منتخب کی تھی۔ آج تک اسی ہی پر عمل کر رہی ہے۔ سیدموددی نے واضع کیا کہ جماعت اسلامی انڈرگرونڈرہ کر کوئی کام نہیں کرے گی۔مروجہ جمہوری انتخابات کے ذریعے نظام حکومت کو تبدیل کرے گی۔اس کے لیے جماعت اسلامی نے شروع دن سے چار نکاتی پروگرام طے گیا۔جس کے تحت تطہیر افکار، تعمیر افکار، صالح افراد کی تلاش اور ان کی تربیت، اصلاح معاشرہ کی کوشش، آخر میں نظام حکومت کی تبدیلی۔ اس پروگرام کے تحت جماعت اسلامی ترقی کے منازل طے کر رہی ہے۔ جو تجزیہ کار جماعت اسلامی کے کام کو اس کے واضع کردہ پروگرام کے پورے تناظر میں نہیں دیکھتے۔ صرف انتخابی جز کو سامنے رکھ کر اس کو انتخاب میں کامیابی یا ناکامی پر پر کھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید وہ ادھورا تجزیہ کرتے ہیں۔
جماعت اسلامی اپنے منشور کے مطابق صرف مروجہ انتخابی جماعت نہیں، بلکہ یہ ایک نظریاتی جماعت ہے جوبتدریج اپنی منز ل کی طرف گامزن ہے۔سیدموددی عالم دین سے بڑھ کر وقت کے مجدّد تھے۔پاکستان بننے کے بعد ،پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” سے انحراف کرتے ہوئے، مسلم لیگی کھوٹے سکوں نے کہنا شروع کر دیا کہ پاکستان میں چودہ سو سالہ پرانا اسلامی نظام حکومت نہیں چل سکتا۔اگرلوگوں کے ہاتھ کاٹے گئے،سنگسار کیے گئے وغیرہ تو ہم دنیا کو کیا منہ دکھائیں گے۔ یہ نظریہ عام کر دیا کہ اس دور میں اسلامی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔ مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ حکومت لادینی سیکولر ہونی چاہیے۔(حوالہ کتاب تذکرہ سید مودودی جلد ٣۔صفحہ٢٩) ۔قائد اعظم کے حکم پر سید مودودی نے ریڈیو پاکستان سے اسلامی نظام کیسے قائم ہوتاہے پر، ریڈیو پاکستان سے تقریریں شروع کیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سید مودودی نے کھوٹے سکوں کے جواب میں پاکستان میں اسلامی نظام حکومت کے قیام کی لیے عوامی تحریک پرپا کر دی۔
ستمبر ١٩٤٨ء بانی پاکستان قائد عظم محمد ع علی جناحکاانتقال ہو گیا۔اس کے٢٣ دن بعد ٤ اکتوبر ١٩٤٨ سید مودودی کو قید کر دیا۔ مگر نظام اسلام کی تحریک جماعت کے کارکنوں نے جاری رکھی۔دبائو میں آکر، ٢٣ مارچ ١٩٤٩ء کو پاکستان کی مجلس قانون ساز نے قرارداد مقاصد کو آئین کا دیباچہ میں شامل کر لیا۔ سید مودودی نے دوسرے اسلام پسند لوگوں کے ساتھ مل کر اسلامی نظام رائج کرنے کے لیے دستور کو اسلامی بنانے کے لیے دستوری مہم چلائی تھی۔اسی مہم کے نتیجہ میں ہی ١٩٧٣ء میں پاکستان کا اسلامی آئین بنا۔ گو کہ آج تک اس آئین کی روح کے مطابق عمل نہیں کیا گیا۔جہاں تک سید مودددی کی اسلام کی خدمات کا تعلق ہے تو لاکھوں لوگ ان کے یاد کرائے گئے سبق سے مستفیض ہو کر اللہ کے کے دین کو قائم کرنے کی جدو جہد میں شریک ہوگئے۔ لوگ تو اپنی حد تک کوششیں کر رہے ہیں۔ جب اللہ کو منظور ہو گا اس مثل مدینہ ریاست، مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی نظام حکومت قائم ہو جائے گا۔ ان شاء اللہ۔
سید مودودی کے افکار پوری مسلم دنیا میں تسلیم کر لیے گئے ہیں۔پوری مسلم دنیا کے عوام امریکی پٹھو حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی نظام قائم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔پاکستان بھی اسلام کے نام سے حضرت قائد اعظم کی لیڈر شپ کے اندر جمہوری جدو جہد کے ذریعے قائم ہوا تھا۔ ان شاء اللہ جمہوری طریقے سے ہی پاکستان میں اسلامی نظام حکومت بھی قائم ہو گا۔ اگر قائد اعظم کے وژن اور مولانا موددی کے بتائے ہوئے طریقہ پر عمل کر کے پاکستان میں اسلامی نظام قائم کر دیا جائے تو اللہ کا حکم ہے کہ اگر بستیوں کے لوگ میرے احکامات نافذ کر دیں تو آسمان سے رزق نازل ہو گا۔ زمین اپنے خزانے اُگل دے گی۔رسولۖ اللہ کی ایک حدیث کے مطابق جب تم میری لائی ہوئی شریعت نافذ کر دو گے تو کوئی زکوٰة لینے والا تمھیں نہیں ملے گا۔ یعنی سب خوش حال ہو جائیں گے۔ ملک میں امن آمان ہو گا۔ دہشت گردی ختم ہو جائے گی۔پڑوسی ملک پاکستان میں ناجائز مداخلت ختم کر دیں گے۔ نہ بجلی گیس کے بل زیادہ آئیں گے۔نہ مہنگائی ہو گی اور نہ ہی بے روز گاری ہو گی۔ یہی سبق سید مودودی نے پڑھانے کی کوشش کی۔٢٢ستمبر١٩٧٩ء کوصدی کا بیٹا سید ابوالااعلیٰ موددی اللہ کو پیارا ہو گیا۔ اللہ ان کی سعی کو قبول فرمائے ان کو کروٹ کروٹ سکھی رکھے۔ آمین۔