معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور پھر قتل کے بڑھتے ہوئے واقعات نے والدین کو انتہائی پریشان کر دیا ہے۔بچوں کو سکول و مدرسے بھیجے بغیرتوکسی صورت گزارہ نہیں اور بچوں کو اپنی ہی گلی محلے میں کھیل کودکی اجازت نہ دینا بھی ناانصافی ہے ۔تین تین چار چارسال کی عمر کے معصوم بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی و قتل کے واقعات کی خبروں کے بعدوالدین اپنے بچوں کو گھرمیں قیدکرنے کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں؟والدین کوشدیدکرب میں مبتلاکرنے والے یہ حالات اگلی نسل کوان پڑھ اورذہنی بیماربنارہے ہیں ایک رپورٹ کے مطابق سال2017ء میں ملک بھر میں بچوں کے ساتھ زیادتی کے 4139 واقعات پیش آئے جن میں زیادہ 1089واقعات پنجاب میں رونما ہوئے۔صرف قصور میں گزشتہ دس برسوں میں 272 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں با اثر سیاسی افراد ملوث پائے گئے۔ہمیں بتایاجاتاہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات روکنے کیلئے قانون سازی کی گئی ہے۔چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی یا چائلڈ پروٹیکشن سیل کی طرز کے ادارے تقریباً تمام صوبوں میںکام کررہے ہیں۔حکمران کہتے ہیںان واقعات کی روک تھام کے لیے قوانین بھی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ان قوانین پر سختی سے عمل درآمد کون اور کب کرے گا؟گزشتہ سال قصور میں ننھی زینب کودرندگی کانشانہ بنانے کے بعد بے دردی کے ساتھ قتل کردیاگیاتھا اورپھرمحکمہ پولیس کی روایتی سستی کے باعث بروقت قاتل کی گرفتاری نہ ہونے پرجب عوام نے احتجاج کیاتواُس احتجاج میں دوبے گناہ شہری پولیس کی گولیوں کی نظرہوگئے تھے۔پورے ملک کے میڈیا۔سوشل میڈیااورعوام کے بھرپوراحتجاج کے بعداس وقت کے وزیراعظم میاں نوازشریف اوروزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے نوٹس لیاتوپولیس اوردیگرمحکمے حرکت میں آئے۔طویل اورانتھک جدوجہد کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب نے پریس کانفرنس میںعمران نامی شخص کوزینب کے ساتھ درندگی اورقتل کے جرم میں گرفتارکرنے کااعلان کیاجسے بعدازاں بذریعہ عدالت بھانسی کے پھندے تک پہنچایاگیا۔جس طرح پرانے پاکستان میںوزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے پریس کانفرنس کی ٹھیک اسی طرح نئے پاکستان میںبھی شدید احتجاج اورعوامی ردعمل پرحکومت ہوش میں آئی اورآخرکارٹھیک اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب وسیم اکرم پلس عثمان بزدارنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایاکہ قصور کے علاقے چونیاں میں چار بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے بعد انھیں قتل کرنے والے مبینہ ملزم کو ڈی این اے کی شناخت کے بعد گرفتار کر لیا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے پریس کانفرنس میں اعلان کیا گیا کہ چونیاں کے واقعات میں ملوث شخص کا تعلق اسی علاقے سے ہے اور ملزم کی شناخت ڈی این اے میچ ہونے کے بعد منگل کی صبح ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ 200 فیصد تصدیق ہو چکی ہے کہ زیادتی کے بعد چار بچوں کو قتل کرنے کے واقعات میں ایک ہی ملزم ملوث ہے۔ ایک بچے کی لاش اور تین بچوں کی ہڈیوں سے ڈی این اے کے ذریعے ملزم کو شناخت کرلیاگیا ہے۔آر پی او شیخو پورہ سہیل حبیب کے مطابق ملزم نے سب سے پہلے 3 جون کو 12سالہ عمران کو اغوا کے بعد زیادتی کر کے قتل کیا اس کے علاوہ ملزم سہیل شہزاد نے علی حسنین۔ سلمان اور فیضان کو بھی زیادتی کے بعد قتل کیا۔ سہیل حبیب کے مطابق ملزم کو 29 ستمبر کو گرفتار کیا گیا جب وہ ڈی این اے کے ڈر سے لاہور فرار ہونے کوشش کررہاتھا۔سہیل حبیب نے بتایاکہ پولیس نے روایتی تفتیشی ذرائع، ہیومن انٹیلی جنس اور اس کے بعد ڈی این اے کی مدد لی۔
جبکہ پولیس نے جائے وقوعہ سے ملنے والے جوتوں کے نشان کو محفوظ کیا اور اسے مقدمے کا حصہ بنایا۔جائے وقوعہ پر ملزم کے جوتے ہی اس کی گرفتاری کا سبب بنے کیونکہ ملزم نے گرفتاری کے وقت بھی وہی جوتے پہن رکھے تھے،پولیس کے مطابق ملزم سہیل شہزاد غیرشادی شدہ ہے جس کابدھ کے روزعدالت نے15روزہ جسمانی ریمانڈدے دیاہے۔محترم وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب سے آج ایک عاجزباپ کی حیثیت سے پوچھناچاہتاہوں کہ تبدیلی کہاں ہے؟محکمہ پولیس نے ٹھیک اسی طرح روایتی سستی کامظاہرہ کیاجیسے پرانے پاکستان میں کیاکرتاتھا۔ٹھیک اسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب نے چونیاں کے معصوم بچوں کے قاتل کی گرفتاری کااعلان بذریعہ پریس کانفرس کیاجیسے میاں شہبازشریف نے بطوروزراعلیٰ پنجاب قصور کی معصوم زینت کے قاتل کی گرفتاری کااعلان کیاتھا۔ٹھیک اسی طرح بطوروزیراعظم عمران خان نے بھی نوٹس لیاجیسے بطوروزیراعظم میاں نوازشریف نے لیاتھا۔ٹھیک اسی طرح چارمعصوموں کے قتل اورجنسی زیادتی کیس میں ایک مجرم کوسخت سزادے دی جائے گی۔ہمیں بتایاجائے کہ تبدیلی کہاں ہے؟ہمیں کون بتائے گاکہ معصوم بچوں کے ساتھ زیادتی اورانتہائی حیوانیت کے بعد قتل کے پیچھے اصل محرکات کیا ہیں۔
آج توانتہائی فحاشی اورجسم فروشی کادورہے شہرکے ہربازارہرچوراہے پرقسبے اورقسبیاں(جسم فروش عورتیں اورمرد) خودجسموں کی پیشکش کرتے ہیں وہ بھی خریدارکی مرضی کی قیمت پریہاں تک کے جسم کے ساتھ مالی مددبھی خوددینے کے واقعات بھی رونماہوتے رہتے ہیں۔ہم جانناچاہتے ہیں کہ ایک ایساجنسی عمل جوہم عمریاکم ازکم بالغ جنس مخالف کے ساتھ انتہائی راحت وسکون کے ماحول میں عمل پزیرہوتاہے وہ تین تین چارچارسال کے معصوم بچوں کے ساتھ کانٹے دارجھاڑیوں۔مٹی کے ٹیلوں۔ناہمواراوراوپن مقامات پرسرعام کیسے ممکن ہے؟ایساتوحیوان بھی نہیں کرتے۔آخراس سارے معاملے کے پیچھے حقائق کیاہیں؟میں ایک شادی شدہ مرد ہوں۔جنسی تعلقات کی اہمیت اورماحول کواچھی طرح سمجھتاہوں۔ذہن ودل یہ بات تسلیم کرنے کیلئے ہرگزتیارنہیں کہ آج کے اوپن سیکس ماحول میں کوئی مردصرف تین ۔چاریاپانچ سال عمرکے معصوم بچے کواپنی جنسی خواہش پوری کرنے کیلئے استعمال کرتاہے اورپھرقتل بھی کردیتاہے؟اورعلاقے میں کہرام مچ جانے کے بعد بھی وہی شخص بازنہیں آتااسی قسم کی وارداتیں جاری رکھتاہے ؟یہاں یہ بات بھی یادرہنی چاہئے کہ قصورکے علاقے میں ایسے واقعات کاتسلسل کے ساتھ جاری رہنااورکچھ بااثرسیاسی عناصرکے ملوث ہونے کومدنظررکھاجائے تو یقینااس سارے معاملے کے پیچھے کچھ اورعوامل بھی شامل ہوسکتے ہیں جن سے پردہ اُٹھایاجانالازم ہے۔
سانحہ چونیاں میں گرفتارملزنے صرف جنسی ہوس پوری کرنے کی غرض سے چارمعصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے بعدقتل کیاہے توبھی یہ سانحہ ماضی کی طرح پورے معاشرے کے منہ پرطمانچہ ہے جس کی شدت ہمیں محسوس ہونی چاہیے۔کیوں ہم بالغ بچوں کے نکاح نہیں کرتے؟ کیوں ہم جنسی بے راہ روی اورفحاشی کوفروغ دیتے ہیں۔کیوں ہم نے نکاح کی جگہ زناکوآسان بنادیاہے؟زناآسان ہونے کے باوجودایسے سانحات کارونماہونااس بات کی دلیل ہے کہ جنسی آزادی حل نہیں تباہی ہے۔معاشرے میںجنسی ہوس اس قدربڑھ گئی ہے توپورے سسٹم کی خرابی ہے جسے تبدیل کرناناگزیرہے۔وزیراعظم پاکستان نے میرا بچہ الرٹ کے نام سے خصوصی ایپلی کیشن بنانے کا حکم دیا ہے۔
میرا بچہ الرٹ ایپلی کیشن کامقصد کسی بھی بچے کی گمشدگی کی صورت میں اس ایپلی کیشن پر کوائف کے اندراج کی صورت میں تمام تفصیلات صوبوں کے آئی جیز اور دیگر سینیئر افسران تک فوری طور پر پہنچ جائیں گی۔وزیراعظم عمران خان کے خیال کے مطابق عمل ہوجائے تومیرا بچہ الرٹ ایپلی کیشن اچھااقدام ثابت ہوگا۔جناب وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب اس باربھی چونیاں کیس کی مکمل چھان بین کے بعد اصل حقائق عوام کے سامنے نہ لائے گئے توپھریادرکھیں جس تبدیلی کی اُمیدپرعوام نے آپ کومنتخب کیاتھاوہ نہیں آسکتی اورعوام آپ سے یہ باربارسوال کرتے رہیں گے کہ تبدیلی کہاں ہے؟اوریہ بھی یاد رہے کہ چونیاں میں درندگی کا نشانہ بننے والے معصوم ایسے پہلے یاآخری بچے نہیں جب تک قوم کی غیرت نہیں جاگتی۔جب تک حکمران خواب خرگوش کے مزے لیتے رہیں گے ایسے انسانیت سوزواقعات رونماہوتے رہیں گے۔والدین اپنے بچوں کے متعلق سوچ کرشدیدکرب میں مبتلارہیں گے اوراللہ تعالیٰ کے عذاب کبھی زلزلوں کبھی مہنگائی۔کبھی جنگ۔کبھی کرپشن۔کبھی ناانصافی کی صورت نازل ہوتے رہیں گے۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com. 03134237099