استاد وہ ہے جو بچوں کو سیکھاتا ہے۔ استاد بچے کا روحانی باپ بھی کہلاتا ہے کیونکہ ماں باپ بچے کی ابتدائی پرورش کرنے کے بعد عملی زندگی میں قدم رکھنے کے لیے سیکھنے کے لیے اس کو استاد کے پاس بھیجتا ہے۔ استاد ہی بچے کی تربیت کرتا ہے۔ سکول ہو یا کوئی کام ، بچے کی رہنمائی کے لیے جو شخص اس کا ساتھ دیتا ہے اس کو استاد کہتے ہیں۔ استاد بچے کو جس روش پر چلائے گا بچہ اسی روش پر چلے گا۔ استاد کو پوری دنیا میں بہت اونچا مقام ہے۔ استاد کا عالمی دن(ٹیچر ڈے) پوری دنیا میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اساتذہ کی خدمات کا اعتراف کرنا ہے۔یوم اساتذہ ان چند عالمی دنوں میں سے ایک ہے جسے دنیا کے مختلف ممالک مختلف تاریخوں میں مناتے ہیں مگر تمام ممالک میں ایک بات مشترک ہے کہ اساتذہ کا دن انتہائی خلوص، محبت اور عقیدت سے منایا جاتا ہے ۔تمام ممالک میں اساتذہ کی اہمیت کا اجاگر کیاجاتا ہے ۔ اور اساتذہ کی خدمت میں پھولوں کے ساتھ ساتھ مختلف بیش قیمت تحائف بھی دیئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں بھی استادکا عالمی دن 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔پاکستان کی طرح دوسرے اسلامی ممالک میں بھی یوم اساتذہ منایا جاتا ہے۔ مسلم ممالک ترکی کے پہلے صدر مصطفٰی کمال اتاترک نے اساتذہ کی خدمات کے اعتراف میں 24 نومبر کو اساتذہ کے دن کے طور پر منانے کا اعادہ کیا، جو آج تک جاری ہے۔ ملیشیا میں 16 مئی کو اساتذہ کے دن سے منسوب کیا جاتا ہے۔ ایران میں بھی استاد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ”روز معلم” منایا جاتا ہے۔ روز معلم ہر سال 2 مئی کو منایا جاتا ہے۔
مسلمان کئی صدیوں تک علم و سائنس، فلسفہ اور میں استاد رہے ہیں اور دوسری قوموں نے انے استفادہ اٹھایا۔حضور اکرم ۖ کا بحثیت معلم دنیا کے لیے انمول کردار تھا۔ ایک طرف تو استاد تاریخ کا دھارا بدل دیتی ہے تو دوسری طرف دنیاوی مفاد کے لیے پاکستان میں اساتذہ نے تعلیم جیسے مقدس شعبے کو کاربار بنا لیا ہے۔ طالب علم ایک خاندان کا فرد ہی نہیں ہوتا بلکہ پوری قوم کی امیدوں اور امنگوں کا مظہر بھی ہوتا ہے۔ ایسے میں اساتذہ کی بہترین تعلیم و تربیت ہی انہیں عملی زندگی میںنئے نئے راستے دکھا سکتی ہے۔ مگر قیام پاکستان کے بعد سے لے کرآج تک تعلیم کے شعبے کو ہر حکومت نے زبانی جمع خرچ کی حد تک رکھا ہے۔
تعلیم کے شعبے میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے خاطرخواہ ترقی کی ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ نجی شعبے کی تعلیم کے میدان میں ترقی نے تعلیم جیسے مذہبی فریضے کو بھی کاروبار بنا دیا ہے۔ غریب طبقے کے لوگ اپنے بچوں کو نجی شعبے کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلانے کی سکت نہیں رکھتے اوروہ معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔ جس کی وجہ وہ ملک و قوم کے لیے کارہائے نمایاں نہیں ادا کر پاتے۔
تعلیم کے معاملے میں حکومتی کاکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔پچھلے کئی سالوںسے تعلیم کے نام پر بڑا جوش و جذبہ دکھایا جارہا ہے ۔ میڈیا میں بڑے بڑے اشتہارات دیے جارہے ہیں تو کہیں دانش سکول کھولے گئے تو اب کہیں انصاف سکولوں کی آواز گونجتی سنائی دی جارہی ہے ، تعلیمی میدان میں بچوں کو مفت کتابیں اور تعلیم دی جارہی ہیں ۔پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کو سکول میں داخل کرانے کا قانون بنایا ہواہے مگرمجھے یہ بات افسوس سے کہنی پڑتی ہے کہ آج کے اساتذہ میں طلبہ کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ جوش و خروش دیکھنے میں نہیں آتا۔جس کی وجہ یہ ہے کہ اساتذہ کو ان کی خدمات کا وہ صلہ نہیں دیا جاتا جن کا وہ حق رکھتے ہیں۔استاد کسی بھی شہر کا ہویا ملک کا اس کا پیشہ ٹیچنگ ہے۔ وہ ایک استاد ہے اور وہ قوم کا معمار ہے۔
آج پاکستان میں کوئی الیکشن ہو یا الیکشن کاکام ، مردم شماری ہو یا خانہ شماری ان سب میں استاد کی ڈیوٹی لگادی جاتی ہے، حتیٰ کہ حکمران اپنے جلسے اور جلوسوں میں خصوصی طور پر حکمنامہ جاری کرتے رہے ہیں کہ تمام اساتذہ حاضرہوں ۔استاد کا کام بچوں کاپڑھانا ہے نہ کہ حکمرانوں کے جلسے جلوس میں شامل ہوکر نعرے لگانا ۔ پاکستان میں اور بھی گورنمنٹ کے ادارے ہیں مگر ایسے کاموں میںحکومت کو صر ف استاد اور سکول کے بچے ہی فارغ نظر آتے ہیں ۔پھر ان سے کرائے گئے کاموں کا معاوضہ بھی نہیں دیا جاتا اور اگر دیا جاتا ہے تو برائے نام۔
آج جب پولیس ، ڈاکٹر ز اور خود حکومتی ممبران کی تنخواہ میں پچاس سے سو فیصد تک اضافہ کیا جارہا ہے مگر ان قوم کے معماروں کی تنخواہ میںآٹے میں نمک کے برابر اضافہ کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہوں میں اضافہ بھی ایسے کرتے ہیں جیسے کوئی بھیک دے رہے ہوں۔ استاد کا مقام دنیا میں انمول ہستی کاہے ۔ ماں باپ اولاد کو پیدا کرتے ہیں مگر ان کی اصل پرورش استا دکرتا ہے خواہ بچہ ہے یا بچی۔
اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ سکول کے ہیڈماسٹر یا ماسٹرز صبح بچوں کو گیٹ پر خوش آمدید کہیں۔ ان کو غیرحاضر ہونے پر ، سبق یاد نہ کرنے پر، ہوم ورک نہ کرنے پراور استاد سے بدتمیزی کرنے پر بھی سزا نہیں دی جاسکتی بلکہ بچوںکے سامنے استاد ایسے کھڑا ہو جیسے وہ مجرم ہے۔ یہی نہیں اب تو نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ ہیڈ ماسٹر یا ماسٹرز اپنے ہاتھ سے خودلیٹرین صاف کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔
حکومت کی کارکردگی یہ ہے کہ گورنمنٹ سکولز کو پرموٹ کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرنا پڑے وہ کریں گے۔ بچوں کی انرولمنٹ پوری کرنے کے لیے فیک بچے داخل کرنا پڑیںتو بھی چلے گا۔ رزلٹ اچھا دکھانے کے لیے ماسٹرز خود بچوں کو نقل کرائیں تو بھی کوئی پرابلم نہیں۔ دوسری طرف پنجا ب ایجوکیشن فاونڈیشن (PEF)جو گورنمنٹ سکولز کی طرح بچوں کو مفت تعلیم دے رہا ہے اس کو بھی نئے داخلے نہیں دیے کہ کہیں گورنمنٹ سکول فلاپ نہ ہوجائیں۔تعلیم عام کرنی ہے تو پھر پیف سکولوں سے دشمنی کیوں؟ گورنمنٹ سکولز میںاگر والدین اپنے بچوں کوداخل نہ بھی کرانا چاہیںتو بھی حکومت داخلے گورنمنٹ سکولز کے کھولے گی پیف کے نہیں؟حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ تعلیم دوست پالیسی بنائے نہ مفادپالیسی
حکومت پاکستان، شعبہ تعلیم سے وابستہ افراداور علم وتعلیم کے ماہرین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ امت مسلمہ کے دور رس مفادات کے تحفظ کے لیے طلبہ کی تعلیمی شعبوں کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی رہنمائی کریں اور اساتذہ کو اسکا حقیقی مقام دیں ۔آج یو م اساتذہ پر میں پاکستان کے تمام اساتذہ کے ساتھ ساتھ اپنے سکول رفیق ماڈل سکول کے اساتذہ کی عظمت کوبھی سلام پیش کرتا ہوںاور ان کے لیے دعاگو ہوں کہ اللہ ان کو ان کے مقاصد میں کامیابی عطا کرے۔ (آمین)۔