اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کاروباری طبقے کے وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں نیب سے متعلق تحفظات کو مسترد کر دیا۔
چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے یقین دہائی کرائی کہ کوئی نیب افسر کسی بزنس مین کو پیشی کے لیے فون نہیں کرے گا، اگر کسی تاجر کو نوٹس آتا ہے تو پڑھ کر نیب کو جواب بھجوا دیں، ہمیں مزید معلومات درکار ہوں گی تو تاجر کو بلانے کے بجائے سوالنامہ بھجوا دیں گے اور اُس وقت تک کیس رجسٹر نہیں ہو گا جب تک بزنس مین آ کر اپنا نکتہ نظر پیش نہیں کر دیتے۔
کاروباری شخصیات کی وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ملاقات کا حوالہ دیتے ہوئے جاوید اقبال نے کہا کہ کاروباری طبقے نے وزیراعظم اور آرمی چیف سے ملاقات میں نیب سے متعلق جن تحفظات کا اظہار کیا ان میں سے کچھ بے بنیاد ہیں جنہیں مسترد کرتا ہوں۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ معیشت ریڑھ کی ہڈی ہے، اقتصادی ترقی تک معیشت مضبوط نہیں ہو گی، معیشت مضبوط ہوگی تو دفاع مضبوط ہو گا اور دفاع مضبوط ہو گا تو ملک مضبوط ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا اس لیے نیب ایسا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ بزنس کمیونٹی کا مورال ڈاؤن ہو اور معاشی سرگرمیوں میں کمی آئے لیکن بلا جواز تنقید کا جواب دینا ضروری ہے۔
جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ حالات بہتری کی طرف ہیں لیکن ادارہ الزامات کی زد میں آئے گا تو سربراہ کی حیثیت سے خاموش بیٹھنا مشکل ہو گا، تنقید تعمیری کریں اور بتائیں چیئرمین کیا کرے کہ حالات بہتر ہوں، صرف یہ کہنے سے بات نہیں بنے گی کہ نیب انتقام کا ادارہ ہے۔
ٹیکس کے نفاذ اور اضافے سے متعلق چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ان معاملات سے نیب کا کوئی تعلق نہیں ہے، نیب ٹیکس چوری کے معاملات میں مداخلت نہیں کرے گا۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا یقین دلاتے ہیں کہ نیب ایسے بینک ڈیفالٹ کے کیس کو ڈیل نہیں کرے گا جو بینک نے نا بھیجا ہو، نیب قوانین کے تحت بینک ڈیفالٹ کے جو کیس نیب کو بھیجے گا صرف اسے ڈیل کریں گے۔
نیوز کانفرنس کرتے ہوئے چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ملک میں پالیسیاں بنانے میں ہمارا کا کوئی کردار نہیں ہے جب کہ دوسرے ممالک نیب کے ماتحت نہیں ہیں، ان کی مرضی ہے وہ معلومات دیں یا نا دیں۔
چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ نیب مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کے حل کا ادارہ ہے اور تاجروں کے متعلق مسائل 100 فیصد حل ہو جائیں گے، میگا اسکینڈل یا میگا کیسز ہیں تو متعلقہ کمیٹی سے بھی ڈسکس کریں گے۔