یہ وہ قبیلہ ہے جو دینِ اسلام کے غالب ہونے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے، اور افسوس اس بات کا ہے کہ آج یہ طبقہ اپنے سیاسی مفادات کے لئے نعرہ اسلام کا ہی لگا رہا ہے۔۔اور مدارس کے وہ بچے جو 8 سالوں میں صرف فقھی مسائل کا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں وہ بھی فہم و عقل سے یکسر آری ہیں کہ وہ اسلام کے نام پر صرف استعمال ہوتے ہیں ،ورنہ اس عمل کا اسلام سے دور دور تک کا کوئی تعلق واسطہ نہیں۔
تاحال اس مارچ کا نام بھی مشکوک ہے مولانا میڈیا پر کہہ رہے ہیں کہ یہ آزادی مارچ ہے جب کہ دوسری طرف مولانا صاحب کی جماعت جس طرح کے ترانے بنا کر پیش کر رہی ہے اس سے لگتا ہے کہ یہ ناموس رسالت پر کوئی مارچ ہے، تیسری طرف نواز شریف نے مولانا کو مشورے سے نوازا ہے کہ اس مارچ کو مہنگائی مارچ کا نام دیں ۔ تا کہ آپ کو مہنگائی سے تنگ عام عوام الناس کی بھی بھر پور حمایت حاصل ہوجائے۔
مدارس کے نوجوانوں کو ناموسِ رسالت کا دفاع کرنے کے نام پر سڑکوں پر لایا جائے گا، جب کہ عمران خان نے جس طرح جنرل اسمبلی میں ناموسِ رسالت کا مقدمہ پیش کیا وہ قابلِ رشک بھی ہے اور قابلِ تعریف بھی۔یہ بھی مدارس کی تعلیم کا ایک المیہ ہے کہ آپ معاشرے کے لاکھوں بچوں کو اسلام کے نام پر اسلام کی اصل تاثیر اور اسلام کی حقانیت کے ادراک سے محروم کر دیتے ہیں۔ ان کی عقل و سوچ کو ماؤف کر کے انہیں اپنے من مانے مقاصد اور اپنے فرقہ وارانہ اور سیاسی مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
فضل الرحمان صاحب اور ان کے ہم نوا افراد سے مؤدبانہ اپیل ہے کہ آپ پرامن احتجاج ضرور کریں، دھرنا خوشی سے دیں، برداشت کر سکیں تو بھوک ہڑتال بھی کرلیں ، یہ آپ کا سیاسی حق ہے ۔ لیکن خدارا ان معصوم بچوں کو اسلام کا جھانسہ دے کر سڑکوں پر ذلیل نہ کریں۔یہ بچے جب سڑکوں پر ڈنڈے اٹھائے پولیس سے گتھم گتھا ہوں گے تو سیکولر طبقہ کو اسلام پر تنقید کا بھرپور موقع ملے گا ۔جس کا نقصان مولانا فضل اور ان کی جماعت کو تو ہو گا ہی۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام پر بھی زد پڑے گی ،جو قابلِ مزمت ہے۔
اس وقت پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی بھی قسم کا اضافی انتشار برداشت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ایک طرف ملک معاشی طور پر کرائسز کا شکار ہے دوسری طرف مسلئہ کشمیر سوالیہ نشان بنے ہمارے سامنے کھڑا ہے۔
حکومتِ پاکستان نے پہلے ہی اعلان کیا ہوا تھا کہ 27 اکتوبر کو ہم پورے پاکستان بشمول کشمیر میں یوم سیاہ منائیں گے اور مولانا کا بھی 27 اکتوبر کو دھرنے کے لئے منتخب کرنا۔ آخر مولانا نے 28 ، 29 یا اس کے بعد کی کسی تاریخ کا انتخاب کیوں نہ کیا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اس معاملے کے تانے بانے کہیں اور تو نہیں ملتے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر حکومت ٹوٹ بھی جاتی ہے توجمیعت علمائے اسلام کی اس بے ڈھنگی کاوش کا انہیں فائدہ کیا ہوگا ؟ کیا فضل الرحمان صاحب اپنی وہ سیاسی پوزیشن بنا چکے ہیں کہ ری الیکش میں وہ کوئی خاطرخواہ میدان مارنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ یقیناََ اس کا جواب نفی میں ہو گا۔
کیونکہ مولانا صاحب پچھلے الیکشن میں اپنی سیٹ جیتنے میں ناکام ہوئے تھے اور اب بھی مولانا صاحب کی سیاسی پوزیشن قابلِ رحم ہے۔
پھر سوچنے کی بات یہ ہے کہ جو قوم پی پی اور ن لیگ کو دو دو اور تین بار پہلے ہی آزما چکی ہے تو اس کےپاس کیا آپشن ہے ؟جب پی پی اور ن لیگ کی مخلوقات کو آزمایا جا چکا ، اور پی ٹی کو آپ ناکام حکومت سمجھ کر ختم کر دیتے ہیں تو پیچھے کون سی مخلوق بچتی ہے جسے آپ اقتدار کی ڈوری تھمانا چاہتے ہیں۔
تاحال ISPR کی جانب سے بھی کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جس میں انہوں نے کوئی اشارہ دیا ہو کہ مولانا صاحب فی الحال ملک کسی انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا لہذا تھوڑی ٹھنڈ پکڑیں۔ اس ساری صورت حال میں کہیں ایسا نہ ہو کہ زمینی مخلوقات کو دیوار کے ساتھ لگا کر ایک بار پھر خلائی مخلوق برسرِاقتدار آ جائے۔