ترکی شام کی جنگ میں امریکی اتحاد کا حصہ بنا لیکن کرد علیحدگی پسندوں کو امریکی حمایت کی وجہ سے ترک سرزمین کی تقسیم کو نا قابل قبول سمجھتا ہے۔ ترکی نے کرد علیحدگی پسندوں کے خلاف چہار جہت سے کاروائی کی جس پر صدر ٹرمپ نے ترکی کو دھمکی دی تھی کہ اگر ترکی نے شام میں سرگرم کُرد ملیشیا پی کے کے وائی پی جی کے خلاف فوجی کارروائی کی تو اسے اقتصادی طور پر تباہ کر دیا جائے گا۔امریکا کا موقف رہاہے کہ شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف وائی پی جی کو تعاون فراہم کرنا ضروری ہے۔
امریکی افواج کے ایک ہزار فوج ترک شام سرحد پر موجود تھے جس میں سے دو درجن کے قریب امریکی فوجیوں کو واپس بلالیا گیا۔ امریکا کے اس فیصلے پر ترک مخالف تنظیم نے ناراضگی کا اظہار کیا اور سخت تنقید کا نشانہ بنایا ۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے ترکی اور شام کی سرحد پر تعینات کئی درجن امریکہ فوجیوں کے انخلا پر کرد قیادت والی سیرین ڈیموکریٹک فورسز نے کڑی تنقید کرتے ہوئے اِس فیصلے کو ‘پیٹھ میں چھرا گھونپنے’ کے مترادف قرار دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے فیصلے پر اُن کے ری پبلیکن اتحادیوں نے بھی نکتہ چینی کی ہے۔امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ ان کی رضامندی کے بغیر کاروائی کی جا رہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے انخلا سے قبل ترکی کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر ترکی نے شام میں اپنے حدود سے تجاوز کیا تو اس کی معیشت کو تباہ کردیا جائے گا اور اس پر اقتصادی پابندی بھی لگائی جاسکتی ہے۔ جب کہ رجب طیب ایردوان نے امریکا سے مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ باغی کرد فورسز کی امداد بند کرے۔ صدر رجب طیب ایردوان کے حکم پر ترکی کی مسلح زمینی مسلح افواج شام کے سرحدی علاقوں میں حملہ آور ہوچکی ہیں۔فرات کے مشرق میں ترک پیس سپرنگ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ْ
ترکی نے اس آپریشن کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحدوں پر قائم کیے جانے کی کوشش ہونے والی دہشت گرد راہداری کے احتمال کو ختم کرنا اور خطے میں امن و آشتی کا قیام بتایا ہے۔ ترک مسلح افواج نے شمالی شام میں پی کے کے /وائے پی جی اور داعش دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پیس سپرنگ آپریشن شروع کر دیا ہے۔اس کاروائی کے آغاز کی اطلاع صدر رجب طیب ایردوان نے ٹویٹر پر کیا ہے۔ایردوان کے ترکی، انگریزی اور عربی زبان میں پیغام میں لکھا گیا ہے کہ”ترک مسلح افواج نے شامی قومی آزاد فوج کے ہمراہ شمالی شام میں پی کے کے/وائے پی جی اور داعش دہشت گرد تنظیموں کے خلاف پیس سپرنگ آپریشن شروع کر دیا ہے۔”ترک صدر ایردوان نے لکھا ہے کہ اس آپریشن کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحدوں پر قائم کیے جانے کی کوشش ہونے والی دہشت گرد راہداری کے احتمال کو ختم کرنا اور خطے میں امن و آشتی کا قیام ہے۔صدر ِ ترکی کا کہنا ہے کہ ہم پیس سپرنگ آپریشن کے ذریعے ہمارے ملک کے لیے دہشت گردی کے خطرات کا قلع قمع کریں گے، اس کاروائی کی مدد سے قائم کیے جانے والے محفوظ علاقے میں شامی پناہ گزینوں کو آباد کرایا جائیگا، ہم پیس سپرنگ آپریشن کی بدولت شامی سرزمین کی سالمیت کا تحفظ کریں گے اور تمام تر خطے کے عوام کو دہشت گردی کے پنجے سے نجات دلائیں گے”۔
انقرہ حکومت وائی پی جی کو ملکی سلامتی کے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہے۔واضح رہے کہ ترکی، امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ وائی پی جی کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ کیونکہ انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ وائی پی جی دراصل پی کے کے تنظیم کردستان ورکرز پارٹی ہی حصہ ہے، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے ترکی میں مسلح علیحدگی پسند تحریک جاری رکھے ہوئے ہے۔ترک فورسز، امریکی بلاک کا حصہ ہونے کے باوجود شام کے کرد اکثریتی علاقے عفرین اور اس کے گرد و نواح میں ٹینکوں اور بھاری توپ خانے سے اپنی کارروائیاں جاری رکھی۔ یہ علاقہ شامی کرد ملیشیا وائی پی جی کے قبضے میں ہے، جو ان کرد جنگجوؤں نے امریکی تعاون سے شدت پسند تنظیم داعشISIS کے قبضے سے آزاد کرایا تھا۔کرد جماعت کو اسلحہ فراہم کرنے کے امریکی منصوبے پر ترکی کا موقف رہا ہے کہ وائی پی جی کو مہیا کیا جانے والا ہر ایک ہتھیار ترکی کے لیے خطرہ ہے۔
ترکی نے امریکا کی جانب سے کرد ملیشیا تنظیم وائی پی جی کو اسلحے کی فراہمی جاری رکھنے کے منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ ترکی فوج شام کے شمالی علاقے میں 30کلومیٹر طویل محفوظ زون تعمیر کی خواہاں ہے ۔ جس میں 30لاکھ مہاجرین کو آباد کرنا چاہتا ہے ۔ واضح رہے کہ اس وقت ترکی میں 30لاکھ سے زائد مہاجرین پناہ لئے ہوئے ہیں ۔ستمبر2019میں ترکی عالمی برادری کو خبردار کرچکاتھا کہ اگر شمالی شام کے علاقے میں شامی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ زون بنانے کے لئے مزید بین الاقوامی حمایت حاصل نہ ہوئی تو وہ شامی مہاجرین کے یورپ میں داخل ہونے کا راستہ دوبارہ کھول سکتا ہے۔ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے شام کے شمال مشرق میں ایک محفوظ زون بنانے کے لیے ‘لوجسٹکل سپورٹ’ کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘یا تو یہ ہو جائے ورنہ ہم شامی مہاجرین کے لیے یورپ کے دروازے کھولنے پر مجبور ہوجائیں گے’۔ رجب طیب ایردوان نے انقرہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم اپنے شامی بھائیوں میں سے کم از کم ایک ملین کو اس محفوظ خطے میں واپس بھیج سکیں جو ہم اپنی 450 کلومیٹر طویل سرحد کے ساتھ بنائیں گے۔’ان کا کہنا تھا کہ ‘ ہمیں لاجسٹک مدد فراہم کریں اور ہم شمالی شام کی حدود میں 30 کلومیٹر اندر جاکر مکانات تعمیر کرسکتے ہیں۔’
شام میں اس وقت ہزار وںجنگجو موجود ہیں جو دیگر ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔ یہ شام میں مستقل حل کی راہ میں ایک اہم رکائوٹ گردانے جاتے ہیں۔ کیونکہ ان جنگجوئوں کے بارے میں ابھی تک واضح نہیں ہے کہ یہ جنگجو کس گروپ میں شامل ہو رہے ہیں۔شام میں متعد گروہ سرگرم ہیں جن کا تعلق القاعدہ، النصرہ،ی آئی ایس آئی ایس(داعش)،النصرہ فرنٹ، سقور العذ( سعودیہ سے آنے و الے جنگجو) ، حرکت شام الاسلام( مراکش سے آئے جنگجو)،گرین بٹالین( سعودیہ سے آئے جنگجو)،جماعت جندالشام( لبنان سے آئے جنگجو)،حمص میں ان گروہوں میں سب سے نمایاں جیش المہاجرین ولانصار ہے جو حلب، اذقیہ اور ادلب میں موجود رہے ہیں۔یہ اُن ایران نواز جنگجو ملیشیا ئوں کے علاوہ ہیں جو شام میں جنگ کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ترکی اپنے خطرے کا باعث سمجھی جانے والی تنظیمیںجن میں ایف جی ایم ، پی وائی ڈی اور داعش سمیت تمام دہشتگرد تنظیموں کے خلاف اندرون ملک اور بیرون ملک جاری فوجی آپریشنز بھی جاری رکھنا چاہتا ہے,مشرقی بحیرہ روم، بحیرہ ایجین اور بحیرہ اسود کی تازہ ترین صورتحال اور ادلیب کے سٹیٹس کو جاری رکھنے، منبج روڈ میپ پر سرعت سے عمل درآمد کرنے اور دریائے فرات کے مشرقی کنارے سے متعلق طے پانے والی مطابقت کے مطابق اقدامات اٹھانے کی ضرورت پر ترکی انتہائی سنجیدہ ہے۔
روس کا بھی ماننا ہے کہ شام کے مسئلہ کو حل کرنے کے لئے ترکی کے ساتھ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رہنا چاہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے شامی بحران کے حل کے لیے شامی صدر بشارالاسد کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی شرط پیش کرنے والوں پر ‘مذاکرات کی راہ میں روڑے اٹکانے’ کی الزام تراشی سمجھتے ہیں۔اٹلی میں خطاب کرنے والے لاوروف کا کہنا تھا کہ ” شام کے بحران کے حل کے لیے جاری مذاکرات کو زائد عرصے سے ناقابل قبول شرائط کے ذریعے بلاک کیا جا رہا ہے”۔ امریکی فوج کے انخلا کے نتیجے میں ترکی، شامی قصبے منبج کاکنٹرول چاہتا ہے۔ تاہم روسی ائیر ڈیفنس سسٹم کے حصول پر ترکی اور امریکا میں تعلقات خراب ہو چکے ہیں۔
ترکی، جنگجوتنظیم پی کے کے کی شام میں موجود شاخوں کو اپنی بقا کی خاطر ختم کرنا چاہتاہے۔شام میں دیگر معرکوں کی طرح شاخِ زیتون آپریشن بھی ترکی کی جانب سے بڑا آپریشن شمار کیا جاتا ہے۔ ترک مسلح افواج کی طرف سے شام کے علاقے عفرین میں شروع کئے گئے شاخِ زیتون آپریشن کے آغاز سے لے کر اب تک ہلاک کئے جانے والے کی تعدادکئی ہزار تک پہنچ گئی۔ترکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ”کسی کو شبہ نہ ہو کہ ہمارا ہدف ہرگز ہمارے کُرد بھائی ہیں بلکہ ہمارا ہدف دہشت گرد ہیں۔ ایسی کوئی چیز ممکن نہیں ہے اور ہم ایسا سوچ بھی نہیں سکتے”۔ترکی وزیر دفاع حلوصی آقار نے کہا ہے کہ” ترک فوجیوں نے دیگر آپریشنوں کی طرح شاخِ زیتون آپریشن میں بھی ایک داستان رقم کی ہے” جبکہ روس کا کہنا ہے کہ” آپریشن زیتون ترکی کو امریکا کی جانب سے اشتعال دلانے کی پیش رفت کا نتیجہ ہے”۔
یورپین یونین، فرانس،جرمنی، اور ہالینڈ حکومت نے وائی پی جی کے خلاف ترک حکومتی کاروائی پر کسی سخت ردعمل کے بجائے ترکی حکومت کو اپنی سلامتی کے لئے اقدامات کرنے کوحق اور اعتدال پر رکھنے کوقرار دے چکے ہیں۔ ترکی کے نزدیک پرابلم فیلڈ کے طور پر دو علاقے میں سے ایک منبج اور دوسرا فرات کا مشرقی حصہ ہے۔ جس پر ترکی اپنے ملک کے جنوب میں اور شام کے شمال میں دہشت گردی کوریڈور کے قیام کی بھی ہم کسی صورت اجازت نہ دینے کا عزم ظاہر کرتا ہے۔ شام میں کرد اور عرب جنگجوؤں پر مشتمل سیرئین ڈیموکریٹک فورسز کا لہجہ دھیما پڑ چکا ہے اور ترکی کے حوالے سے نسبتاََ زیادہ نرمی کا اظہار سامنے آیا ہے۔اس سے قبل ایس ڈی ایف کے شریک سربراہ ریاض درار نے شام اور ترکی کی سرحد پر سیف زون میں ترکی کے کسی بھی وجود کو مسترد کرتے ہوئے اسے قبضے کے مترادف قرار دیا تھا۔ جب مشرق وسطی پر نگاہ دوڑائیں تو اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ملکی انتظامیہ عوام کی رضا مندی کی بالکل ضرورت تک محسوس نہیں کرتی۔ یہ حکمران چاہے واحدانہ طور پر ذمہ دار نہ بھی ہوں تو بھی موجودہ حالات میں مشرقِ وسطی کے بعض ممالک کٹھن ترین دور سے گزر رہے ہیں۔ ان ممالک کے عوام اپنی جانیں داؤ پر لگاتے اپنے اپنے وطنوں سے راہ فرار اختیار کرنے کے درپے ہیں۔مشرق وسطی کے ممالک کی اکثریت ، اقدار اور اخلاقی امتیاز کو ایک طرف چھوڑیں، یہ تمام تر اقدار کو اپنے عوام کے خلاف محض اپنی کرسی کے نام پر ملیہ میٹ کرنے اور کسی بھی قیمت پر نہ چھوڑنے کی کوششوں میں رہتے ہیں۔
‘ روس کے شہر سوچی میں سہہ فریقی کانفرنس تینوں رہنماؤں نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ترک صدر رجب طیب ایردوان نے کہا کہ اجلاس میں امریکہ کے فوجی دستوں کے شام سے انخلا کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا اور اس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ انخلا کے بعدتنظیم پی کے کے/ وائی پی جی اور داعش کو کسی صورت بھی علاقے میں قدم جمانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ انخلا کے بعد کی صورتحال کا تمام پہلووں خاص طور پر دہشت گردی کے موضوع پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ قائم کیے جانے والے سکیورٹی زونز دہشت گرد تنظیموں کے لئے فروغ دینے کا باعث نہیں بننے چاہئے، علاقے میں کسی بھی صورت دہشت گردی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔روس کے صدر ولادمیر پوتین نے کہا کہ شام کے بحران کو حل کرنے کے لئے مختلف امور پر کام کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ آئینی کمیٹی کی فہرست کے ناموں کی تقریبا مکمل طور پر منظوری دیدی گئی ہے۔ اس موقع پر ایران کے صدر حسن روحانی نے کہا کہ شام کے مستقبل کا فیصلہ صرف شام کے عوام کو کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام میں فائر بندی کے قیام کے لئے بڑے پیمانے پر کوششیں صرف کی گئی ہیں اور اس میں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل کی گئی ہے۔ حال ہی میں انقرہ میں شام کے مسئلے پر ایک معاہدے پر روس ، ترکی اور ایران نے دستخط کردیئے ہیں کہ2020میں شام میں نئے نظام کے تحت انتخابات کرائے جائیں گے۔ کیونکہ علاقے میں جنگ ختم اور اب علاقے میں امن کے قیام کی ضرورت ہے۔” تاہم شام میں ایک نیا انسانی المیہ جنم لے رہا ہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عالمی قوتیں شام میں انسانی جانوں و مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے مشرق وسطی کی جنگ کو ختم کرنے کے لئے کسی مربوط منصوبے پر عمل پیرا ہوں ۔
شام میں خانہ جنگیوں اور عالمی طاقتوں کی مداخلت کے سبب عوام شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ شام میں اس وقت امن کے قیام کے لئے بھیانک فضائی حملوں کا سامنا کیا ہے۔ جس میں ہزاروں شامی جاں بحق و لاکھوں زخمی ہونے کے لئے اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے ہیں۔ مسلح جنگجو تنظیموں و داعش کے درمیان جنگوں نے عام عوام کو شدید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں میں بعض ممالک کی پشت پناہی نے شام میں امن کو خواب بنادیا ہے۔بدقسمتی سے شام کے تنازعے سے مسلم امہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ترکی امت مسلمہ کی نمائندگی کے حوالے سے ایک طویل تاریخ رکھتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے ٹکڑے ہونے کے بعد خطے میں کئی مسلم اکثریتی ممالک وجود میں آئے ۔ ترک میں جدت پسندی کے رجحان کے سبب تاریخی تشخص بحال ہونے میں کافی وقت لگا ۔ تاہم ترکی آہستہ آہستہ اپنی تاریخی شاخت کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے لئے ایک آئیڈیل کے صورت میں مثالی قیادت کے ساتھ ابھرا ۔ مسلم امہ کے حوالے سے کوئی مسئلہ عالمی طور پر پیش ہو تو ترکی قیادت صدر رجب طیب ایردوان نے بیابنگ دہل عالمی فورمز میں مسلم امہ کے لئے بھرپور اٹھائی ۔ روہنگیائی ، فلسطین ، شام ،کشمیر سمیت جہاں جہاں بھی مسلم امہ کو عالمی استبددای قوتوں ک جبر کا سامنا رہا صدر رجب طیب ایردوان نے اپنے مثالی کردار ادا کیا ۔
پاکستانی عوام ترک کو رول ماڈل قرار دیتے ہیں اور ترکی قیادت پر فخر محسوس کرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عالمی قوت ترکی کے خلاف ایک ایسی سازش بننے میں مصروف رہی جس کی وجہ سے ترکی کی سلامتی و بقا کو خطرات کا سامنا ہوا ہے ۔ ترکی میں15جولائی2016کو فتح اللہ گولان نے بغاوت کی تو ترکی صدر کوعوام کا اس قدر اعتماد حاصل تھا کہ دوران پرواز عوام کو پیغام بھیجا اور واپس آنے کے بعدعوام کے ساتھ ملکر عسکری بغاوت کو ناکام بنایا ۔ ترکی نیٹو میں اہم دفاعی رکن کی حیثیت رکھتا ہے، تاہم دفاعی ضروریات کے لئے کسی ایک عالمی طاقت پر انحصار نہیں کرتا ، یہی وجہ ہے کہ امریکا کے تمام تر دبائو کے باوجود ترکی نے روس سے ایس ۔400کا معاہدہ بھی کیا اور اپنی مملکت کی حفاظت کے لئے تنصیب بھی کردیا ۔ ترکی کو اس وقت کرد باغیوں سمیت داعش و ترک مخالف عالمی قوتوں کی سازش کا سامنا ہے۔ شام کی صورتحال میں باغی کردوں اور علیحدگی پسند تنظیموں کی جھڑپیں بھی ہوئیں ۔ اس وقت ترکی اپنی مملکت کی سلامتی کے لئے امریکا نواز قوتوں سے میدان جنگ میں اتر چکا ہے اور تیزی سے پیش قدمی جاری ہے۔امریکا ، اس وقت شام سے انخلا کے بعد ترکی کرد باغیوں کے خلاف مسلح کاروائی میں مصروف ہے ، ترکی صدر نے مشرقی سرحدوں پر کرد باغیوں کے ساتھ جنگ کے لئے عملی فیصلہ کرکے شام میں باغی کردوں کے گڑھ میں گھسنے کا فیصلہ کیا ہے اور صدر رجب طیب ایردوان نے بالاآخر انتہائی قدم اٹھا لیا ہے ۔
ترکی ایک ایسا سیف زون بنانا چاہتا ہے جس میں لاکھوں مہاجرین کو رکھا جاسکے اور ان کے لئے مکانات و مناسب دیکھ بھال کی جاسکے ۔ یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس پر ترکی نے عمل درآمد شروع کردیا ہے۔شام میں خانہ جنگیوں اور عالمی قوتوں کی دخل اندازی کے بعد ترکی کا شام میں داخل ہونا خطے میں دوبارہ ایک نئی جنگ کا آغاز بھی کرسکتا ہے۔ ترکی کو اس وقت روس ، ایران کی حمایت بھی حاصل ہے اس لئے توقع اس بات کی جا سکتی ہے کہ ترکی کی مسلح افواج کو کرد باغیوں ، امریکی حمایت یافتہ کرد ملیشیا گروپ پی کے کے وائی پی جی جو کردستان ورکرز پارٹی ہی حصہ ہے۔ ُPKKکے خلاف پیس سپرنگ آپریشن سے 20لاکھ سے زائد مہاجرین کے لئے سیف زون بنانے کے لئے کوشش کی جا رہی ہے ۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ شام جو کہ پہلے ہی تباہ شدہ مملکت ہے، اس لئے ترکی مسلح افواج جلد ازجلد اپنا آپریشن مکمل کرنے کی ضرروت ہوگی تاکہ عام عوام کا کم ازکم نقصان ہو اور شام کے لئے انقرہ میں کئے گئے معاہدے پر عمل درآمد ہونے میں حائل مشکلات دورہوسکے ۔ کیونکہ یہ شامی عوام اور امت مسلمہ کے لئے بہت ضروری ہے۔