قاہرہ (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب اور عرب لیگ کے دوسرے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترکی کی فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے۔سعودی عرب نے ترکی سے فوری طور پر شام میں یہ فوجی کارروائی روکنے کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ اس سے شامی عوام کے مصائب میں اضافہ ہورہا ہے۔
عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہفتے کے روز قاہرہ میں ہوا اور اس میں شام کے شمال مشرقی علاقے میں ترکی کی فوجی کارروائی سے پیدا ہونے والی صورت حال پر غور کیا گیا۔ تنظیم کے سیکریٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اجلاس کی صدارت کی۔
اجلاس کے بعد جاری کردہ اعلامیے میں ترکی کی شام میں فوجی کارروائی کو ایک عرب ریاست کی سرزمین پر چڑھائی اور اس کی خودمختاری کے خلاف جارحیت قرار دے کر مذمت کی گئی۔
احمد ابوالغیط نے کہا کہ عرب لیگ ترکی کے خلاف سفارتی ، اقتصادی ، سرمایہ کاری اور سیاحتی اقدامات پر غور کررہی ہے۔اجلاس میں شریک لبنانی وزیر خارجہ جبران باسیل نے اپنے بیان میں کہا کہ اب شام کے لیے وقت آگیا ہے کہ وہ دوبارہ عرب لیگ میں شامل ہو۔
اس کے جواب میں تنظیم کے سیکریٹری جنرل نے واضح کیا کہ شام کی واپسی دمشق میں حکام کے بعض اقدامات سے مشروط ہے اور انھیں یہ اقدامات کرنا ہوں گے۔عراقی وزیر خارجہ محمد علی الحکیم نے بھی شام کی واپسی کی وکالت کی اور کہا کہ ان کا ملک بہت جلد شام کی عرب لیگ میں واپسی کے لیے باضابطہ طور پر درخواست دے گا۔
ترکی کے اتحادی ملک قطر نے اجلاس میں اعلامیے کو بلاک نہیں کیا۔البتہ اس نے اس کے بارے میں اپنے بعض تحفظات کا اظہار کیا ہے۔عرب لیگ کے اسسٹنٹ سیکریٹری جنرل حسام زکی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’قطر اور صومالیہ نے تنظیم کے آج کے فیصلے کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔‘‘
مصری وزیر خارجہ سامح شکری نے قطر کے تحفظات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’ان سے قطر جارح کے مزید قریب ہوگیا ہے اور میں اس پر مزید کچھ نہیں کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
سعودی وزیرمملکت برائے امورخارجہ عادل الجبیر نے اجلاس میں کہا کہ ان کا ملک شام میں جاری بحران کے سیاسی حل کی ضرورت پر زور دیتا ہے اور وہ اس ملک سے تمام غیرملکی فورسز کے انخلا کا مطالبہ کرتا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امورخارجہ انور قرقاش نے بھی ترکی کی فوجی کارروائی کی مذمت کی ہے۔انھوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں ترکی کے فوجی حملے کو رکوانے کے لیے اپنی ذمے داریوں کو پورا کرے۔
انھوں نے کہاکہ’’ ہم ترکی اور اس کی فوجوں کے علاوہ اس عرب ملک (شام) کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرنے والی تمام غیرملکی فورسز کے انخلا کا مطالبہ کرتے ہیں اور تنازع کے سیاسی حل کی ضرورت پر زوردیتے ہیں۔‘‘
بحرینی وزیر خارجہ خالد بن احمد آل خلیفہ نے عرب ممالک کے خلاف کسی بھی پارٹی کی جانب سے جارحیت کی مذمت کی۔انھوں نے عرب ممالک پر زوردیا کہ وہ عرب قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا مقابلہ کریں۔ لبنانی وزیر خارجہ جبران باسیل نے بھی شام پر حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ یہ عرب ممالک کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے خطے کا تحفظ کریں۔
سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر پہلے بھی ترکی کی گذشتہ بدھ سے شام کے شمال مشرقی علاقے میں کرد فورسز کے خلاف جاری کارروائی کی مذمت کرچکے ہیں۔امریکا اور یورپی ممالک نے بھی ترکی کے اقدام کی مخالفت کی ہے۔
ترکی کی مسلح افواج اور اس کی اتحادی شامی حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے جنگجو امریکا کی اتحادی شامی جمہوری فورسز ( ایس ڈی ایف) کے خلاف یہ کارروائی کررہے ہیں۔ترکی کا دعویٰ ہے کہ وہ کرد جنگجوؤں کو اپنے سرحدی علاقے سے پیچھے دھکیل کر ایک محفوظ زون قائم کرنا چاہتا ہے جہاں شامی مہاجرین کو بسایا جائے گا۔
برطانیہ میں قائم شامی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کی اطلاع کےمطابق ترک فورسز کی اس کارروائی میں آج ہفتے تک ایس ڈی ایف کے چوہتر جنگجو ہلاک ہوچکے ہیں۔ان میں زیادہ تر جنگجو سرحدی قصبے تل ابیض میں ترک فورسز کے خلاف لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں جبکہ اس تازہ لڑائی کی وجہ سے دو لاکھ سے زیادہ شامی اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی جانب چلے گئے ہیں۔