لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) لاہور میں مسلم لیگ ن کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں آزادی مارچ سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا گیا اور فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف کے خط کے مندرجات مولانا فضل الرحمان سے شیئر کیے جائیں گے۔
نواز شریف کا خط لے کر مسلم لیگ ن کا وفد مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرے گا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ نواز شریف نے اپنے خط میں پارٹی کیلئے مکمل گائیڈ لائنز لکھی ہیں، حکومت سے نجات کیلئے بھرپور مہم چلانے کا کہا ہے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ اجلاس میں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کے خط کے مندرجات پڑھ کر سنائے،خط میں کہا گیا ہے کہ پارٹی وفد فوری طور پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرے جس کے بعد اب ایک پارٹی وفد فوری طور پر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کرے گا۔
احسن اقبال کا مزید کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے ملکی معاشی صورتحال کا بیڑہ غرق کردیا، آج بدقسمتی سے پاکستانی کی معیشت ایک خیراتی معیشت بنا دی گئی ہے، ڈینگی کے خاتمے کیلئے جو شہباز شریف کا ماڈل تھا وہ ختم کر دیا گیا۔
’کنٹرول لائن پر گولیاں چل رہی ہیں اور وزیراعظم دوسروں کی صلح کروانے جا رہے ہیں‘ ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ کنٹرول لائن پر گولیاں چل رہی ہیں لیکن وزیراعظم سعودی عرب اور ایران کی صلح کروانے جا رہے ہیں۔
احسن اقبال نے بتایا کہ نواز شریف نے حکومت سے نجات حاصل کرنے کیلئے لائحہ عمل طے کرنے کا کہا ہے، کل پارٹی کا ایک وفد مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کیلئے جائے گا۔
انہوں نے پارٹی قیادت میں اختلافات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کارکن اور قائدین سب کو نواز شریف کی ذات پر مکمل اعتماد ہے، آزادی مارچ کی قیادت مولانا فضل الرحمان نے کرنی ہے، مسلم لیگ ن سمیت دیگر تمام جماعتیں اپنے اپنے پروگرام کے مطابق شرکت کریں گی۔
احسن اقبال نے کہا کہ آزادی مارچ میں شرکت کے حوالے سے قائد میاں نواز شریف کی ہدایت پر من و عن عمل کریں گے۔
احسن اقبال نے کہا کہ شہباز شریف پارٹی کے صدر ہیں اور وہ اپنی ذمہ داریاں نبھارہے ہیں، نواز شریف کے نظریہ اور قیادت پر کارکن اور عہدیدار مکمل اعتماد رکھتے ہیں، نواز شریف نے پارٹی کو ڈرائنگ روم سے نکال کر عوام کی پارٹی بنایا، پارٹی میں مختلف رائے ضرور ہوتی ہے لیکن افواہ سازی کی فیکٹریاں بند ہونی چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ شہباز شریف کو کمر کی تکلیف کا پرانا مسئلہ ہے، بیماری کو متنازع بنایا جاتا ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔
احسن اقبال نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی مشاورت سے آزادی مارچ کا حتمی پروگرام تشکیل دیا جائے گا، نواز شریف کے خط کے مطابق ان کے حکم پر پارٹی 100 فیصد عمل درآمد کرے گی، آزادی مارچ میں پارٹی کی سربراہی کا کوئی جھگڑا نہیں ہے۔
خیال رہے کہ 25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی ، معاشی بدحالی اور حکومتی ناہلی کے خلاف جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے 27 اکتوبر سے حکومت کیخلاف اسلام آباد کی جانب مارچ شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر اپوزیشن جماعتوں نے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کررکھا ہے تاہم مارچ میں شرکت کے حوالےسے دو بڑی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا واضح مؤقف سامنے نہیں آیا۔
10 اکتوبر کو مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے مولانا کے آزادی مارچ میں شرکت کی مخالفت کی۔ شہباز شریف کے مطابق اگر مولانا فضل الرحمان کا آزادی مارچ اور دھرنا مِس فائر ہوا تو حکومت کو نئی زندگی مل جائے گی۔
اس اجلاس کی تفصیلات لے کر اگلے روز ن لیگ کا وفد پارٹی قائد نواز شریف سے حتمی منظوری کیلئے کوٹ لکھپت جیل گیا تاہم شہباز شریف کمر درد کی وجہ سے نہ جا سکے۔
اسی دوران ن لیگ میں اختلافات کی خبریں بھی گردش کرنے لگیں تاہم ن لیگ نے انہیں مسترد کردیا۔
اگلے روز نواز شریف نے مولانا فضل الرحمان کے حکومت مخالف آزادی مارچ میں شرکت کا اعلان کردیا۔
لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ نہ صرف مولانا فضل الرحمان کے جذبے کو سراہتے ہیں بلکہ مولانا فضل الرحمان کو پوری طرح سپورٹ بھی کرتے ہیں۔
نواز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے مؤقف کو اپنا ہی مؤقف سمجھتے ہیں، مولانا احتجاج کر رہے ہیں تو وہ بالکل ٹھیک کر رہے ہیں۔
نواز شریف کا یہ بھی کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے الیکشن کے فوری بعد استعفوں کی تجویز دی تھی، مولانا نے کہا تھا کہ احتجاج کریں لیکن ہم نے انہیں اس وقت قائل کیا کہ نہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اُس وقت مولانا کی بات میں وزن تھا۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اب سمجھتا ہوں کہ مولانا صاحب کی بات کو رد کرنا بالکل غلط ہو گا، میں نے شہباز شریف کو سب کچھ لکھ کر بتایا ہے، وہ بریف کریں گے۔