شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں کرد انتظامیہ کے خلاف ترکی کی فوجی کارروائی کے تناظر میں امریکا نے شام میں تعینات اپنی فوج واپس بلا لی تھی۔ امریکا کی جانب سے فوج واپس کرنے کے بعد فرانس نے بھی ‘داعش’ مخالف عالمی عسکری اتحاد میں شامل اپنے فوجی دستے شام سے واپس بلانے پرغور شروع کیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی’اے ایف پی’ نے ایک مصدقہ ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے فیصلے کے بعد فرانس نے بھی شمالی شام میں ‘داعش’ کے خلاف اتحاد سے اپنی فوج واپس کرنے پرغور شروع کیا ہے۔ پیرس حکومت کے ایک ذریعے کا کہنا ہے کہ امریکا کی طرف سے فوج واپس بلانے کے بعد فرانس کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا ہے۔
پیرس شام اور عراق میں سرگرم عالمی فوجی اتحاد کے لیے ایک ہزار کے قریب فوجیوں کے ذریعے مدد کر رہا ہے۔ فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ شمالی شام میں فرانس کے 200 فوجی تعینات ہیں۔
اگرچہ فرانسیسی حکومت نے شام میں خصوصی دستوں کی موجودگی کی باضابطہ تصدیق نہیں کی ہے ، تاہم صدر عمانوئل میکروں نے اتوار کے روز فرانسیسی دفاعی عہدیداروں سے ملاقات کے بعد وہاں اپنی موجودگی کا ضمنی طور پر اعتراف کیا۔
پیرس میں میکروں کی زیر صدارت دفاع اور قومی سلامتی کونسل کمیٹی کے اجلاس کے بعد فرانسیسی ایوان صدرکی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ خطے میں فرانسیسی فوج اور سویلین اہلکاروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں گے۔ ایوان صدر نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ قومی سلامتی کو مزید مضبوط بنانے کے لیے اقدامات کرے گی۔
فرانسیسی مسلح افواج کے ترجمان نے حفاظتی وجوہات کی بناء پر اس اعلان کی مزید تفصیلات بتانے سے انکار کیا۔ ایک فرانسیسی سفارتی ذرائع نے نیوز ایجنسی کو بتایا کہ ہم نے یہ حقیقت کبھی چھپا نہیں رکھی عالمی اتحاد میں شامل چھوٹے فوجی دستوں والے ممالک امریکی انخلاء کی صورت میں شام میں موجود نہیں رہیں گے۔
ٹائمز نے گذشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ برطانیہ بھی شمالی شام میں سرگرم اپنی خصوصی افواج کو واپس لینے کے لیے تیار ہےبشرطیکہ امریکا وہاں سےاپنی فوج بلاتا ہے۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے اتوار کے روز کہا تھا کہ شام میں تقریبا 1،000 امریکی فوجیوں کو شمالی شام سے واپس لیا گیا ہے۔
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں دیکھنے میں آئی ہے جب دوسری جانب ترکی نے شام میں کرد جنگجوئوں کے خلاف ایک بڑا فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔