شام (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ وہ جلد ہی شمال مشرقی شام میں ترک حملے کے جواب میں موجودہ اور سابق ترک عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے کا ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کریں گے۔
ٹرمپ نے پیر کو اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پر جاری ایک بیان میں کہا کہ “ہم ترکی کے ساتھ 100 ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے پر بات چیت بند کردیں گے اور ترک اسٹیل کی درآمدات پر ڈیوٹی 50 فیصد تک بڑھا دیں گے”۔
“امریکا ان افراد پر سخت اضافی پابندیاں عاید کرے گا جو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں ، جنگ بندی میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپس جانے سے روک سکتے ہیں”۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اگر ترکی کے رہ نما اس خطرناک اور تباہ کن راستے سے چلنے سے باز نہیں آتے تو میں تُرکی کی معیشت تباہ کرنے کے لیے تیار ہوں”۔
انہوں نے پناہ گزینوں کی زبردستی وطن واپسی ، یا شام میں امن ، سلامتی یا استحکام کو خطرے مین ڈالنے پربھی خبردار کیا اور کہا کہ اس کے نتیجے میں “مالی پابندیوں اور امریکا میں داخلے پرپابندی سمیت دیگر سنگین اقدامات کیے جائیں گے”۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ شام سے انخلا کرنے والی امریکی افواج کو دوبارہ ان علاقوں میں تعینات کیا جائے گا تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائےکہی ‘داعش’ واپس نہ آئے۔
انہوں نے کہا کہ “امریکی افواج جنوبی شام میں التنف اڈے پر موجود رہیں گی تاکہ داعش کی باقیات کی واپسی روکی جاسکے”۔
ٹرمپ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ شمال مشرقی شام میں ترکی کے حملے سے خطے میں امن ، سلامتی اور استحکام کو خطرہ ہے۔انہوں نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں نے طیب اردوآن پر واضح کیا کہ ترک آپریشن شمال مشرقی شام میں انسانی بحران کا باعث بنا ہے، اور ممکنہ جنگی جرائم کے لیے حالات پیدا کرسکتا ہے۔
انہوں نے انقرہ سے شمال مشرقی شام میں شہریوں اور دیگر اقلیتوں کی سلامتی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ترکی شمال مشرقی شام پر حملے کے نتیجے میں ہونے والے انسانی بحران کے اثرات کو معمولی نہ سمجھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے اتحادی ممالک کی مدد سے شام میں ‘داعش’ کو 100 فی صد شکست دینے کے لیے بہت محنت کی ہے اورہم اس محنت کورائے گاں نہیں جانیں گے۔
ٹرمپ نے کہا کہ مخالفین کو کچلنے کی آڑ میں شہریوں کو اندھا دھند نشانہ بنانا ، انفراسٹرکچر تباہ کرنا ، اور نسلی یا مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے۔ مہاجرین کی وطن واپسی لازمی طور پر رضاکارانہ اور وقار سے انجام دی جانی چاہیئے۔