اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ (ن) کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کے حوالے سے غور کیا گیا۔
ذرائع کے مطابق شرکاء نے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے صرف آزادی مارچ میں شرکت کرنےکی تجویز دی ہے۔
لاہور میں شہباز شریف کی زیر صدارت آزادی مارچ کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کا مشاورتی اجلاس ہوا جس میں سینیٹر پرویز رشید، عبدالقادربلوچ، محمد زبیر، رانا مشہود، مرتضیٰ جاوید عباسی، امیر مقام، مریم اورنگزیب اور احسن اقبال سمیت دیگر رہنما شریک ہوئے۔
اجلاس میں سیاسی صورتحال سمیت اہم معاملات اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے آزادی مارچ کے روڈ میپ پر بھی گفتگو ہوئی، یہ اجلاس 3گھنٹے سے زائد تک جاری رہا۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں آزادی مارچ پر ابتدائی مشاورت ہوئی، کچھ رہنماؤں نے دھرنے میں شرکت کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا اور صرف آزادی مارچ میں شرکت کرنے کی تجویز دی۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ نے مشاورتی اجلاس میں سامنے آنے والے تخفظات سے مولانا فضل الرحمن کو بھی آگاہ کردیا ہے۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سینیٹر عبد القیوم نے کہا کہ اجلاس میں نوازشریف کے خط پر گفتگو ہوئی، سب نےکہا کہ نوازشریف کے خط پر من وعن عمل ہوناچاہیے۔
لیگی رہنما جاوید لطیف نے کہا کہ نواز شریف نے آزادی مارچ میں حصہ لینے کا فیصلہ کرلیا ہے، شہبازشریف سمیت تمام رہنما آزادی مارچ میں بھرپور شرکت کریں گے۔
یاد رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 27 اکتوبر کو حکومت کے خلاف آزادی مارچ کا اعلان کررکھا ہے جس کی مسلم لیگ (ن) کے قائد و سابق وزیراعظم نواز شریف نے حمایت کردی ہے۔
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔
19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے رہنما شریک ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ معاشی صورتحال انتہائی ابتر ہے، معاشی بدحالی سے روس ٹکرے ہوگیا اور ہمیں ایسے ہی حالات کا سامنا ہے، ملک میں قومی یکجہتی کا فقدان ہے، ملک کا ہر طبقہ پریشانی میں مبتلا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کل تک ہم سوچ رہے تھے، سری نگر کیسے حاصل کرنا ہے؟ آج ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ مظفر آباد کیسے بچانا ہے؟ عمران کہتا تھا مودی جیتے گا تو کشمیر کا مسئلہ حل ہوگا، موجودہ حکمران کشمیر فروش ہیں اور ان لوگوں نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔
سربراہ جے یو آئی نے الزام عائد کیا کہ ہم عالمی سازش کا شکار ہیں اور ہمارے حکمران اس کا حصہ ہیں، جب تک میں کشمیر کمیٹی کا چیئرمین رہا تو کشمیر کو کوئی نہیں بیچ سکا لیکن میرے جانے کے بعد کشمیر کا سودا کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔
فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہمارے لاک ڈاؤن میں عوام آئیں گے، انہیں کوئی نہیں اٹھا سکتا، ہمارے لوگ عیاشی کیلئے نہیں آئیں گے اور ہر سختی برداشت کرلیں گے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے کھل کر مولانا فضل الرحمان کے دھرنے میں شمولیت کا اعلان نہیں کیا تاہم دونوں جماعتیں مولانا کی اخلاقی حمایت کررہی ہیں۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت دھرنے کی سیاست اور اسلام کے نام پر سیاست کرنے کے خلاف ہے تاہم اگر کچھ تحفظات دور ہوجائیں تو ان کی پارٹی مولانا کے دھرنے میں شامل ہوسکتی ہے۔
تاہم 8 اکتوبر کو اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں تمام اپوزیشن جماعتوں نے مولانا فضل الرحمان کے 27 اکتوبر کے آزادی مارچ میں بھر پور شرکت کرنے کا فیصلہ کیا۔
اس کے بعد 11 اکتوبر کو لاہور کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے بھی مولانا فضل الرحمان کے آزادی مارچ کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔