8 اکتوبر کو اپوزیشن کی 9 سیاسی جماعتوں کی رہبر کمیٹی کا اسلام آباد میں اجلاس ہوا جس میںچار نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پر مکمل اتفاق رائے ہوا۔ چارٹر آف ڈیمانڈمیں وزیرِاعظم کے مستعفی ہونے، حکومت کے گھر جانے اورفوج کے عمل دخل کے بغیر نئے انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ بھی طے ہوا کہ آئین میں درج اسلامی شقوں کا مکمل دفاع کیا جائے گا۔ اپوزیشن کی رَہبر کمیٹی نے مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ میں بھی بھرپور شرکت کا فیصلہ کیا۔ رہبرکمیٹی کے اجلاس کے بعدنون لیگ کی پارلیمانی کمیٹی میں یہ فیصلہ ہوا کہ میاں شہباز شریف بڑے میاں صاحب سے جیل میں ملاقات کے موقعے پر اُن سے ہدایات لیں گے لیکن میاں شہبازشریف ملاقات کے لیے گئے ہی نہیں۔ اگلے دن احتساب عدالت میں پیشی کے موقعے پر میاں نوازشریف نے کھل کر کہہ دیا کہ اُنہیں مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے مکمل اتفاق ہے اور ہر محبِ وطن اِس مارچ میں شرکت کرے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ اُنہوں نے شہبازشریف کو خط لکھ کر ہدایات جاری کر دی ہیں۔ بدترین حالات میں بھی ڈٹ کر کھڑے ہو جانے والے اُس ”مردِآہن” کا حوصلہ دیدنی تھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہے ہوں
کب دہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھُلا ہے
کپتان نے متعدد بار کہا کہ اگر اپوزیشن کو دھرنا دینے کا شوق ہے تو کنٹینر اور دیگر سہولیات حکومت کے ذمہ لیکن اب اُن کی بیقراری کا یہ عالم کہ اُنہوں نے کہہ دیا ”اہم ایشوز پر کوئی بھی بات کرنا چاہے تو ہمارے دروازے کھلے ہیں”۔خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ محمودخاںجو روزانہ دھمکیاں دیتے تھے، اب کہتے ہیں ”فضل الرحمٰن تنگ ہیں تو احتجاج کی بجائے ہمارے ساتھ بیٹھ کر بات کریں”۔ بَدحواس وزراء البتہ تاحال دھمکیوں پر اترئے ہوئے۔ مرکزی وزیرِداخلہ اعجازشاہ نے کہا ”عمران خاں اسلام آباد آئے تو وہ وقت اور تھا۔ صحیح وقت پر غلط کام بھی چل جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن ملک کے خلاف آرہے ہیں”۔ فیض آباد دھرنے کی حمایت کرنے والے اور جلاؤ، گھراؤ، مارو اور مَر جاؤ جیسی دھمکیاں دینے والے شیخ رشید بھی مولانا کے دھرنے پر ہر روز کوئی نہ کوئی پیشین گوئی کر دیتے ہیں (حالانکہ اُن کی کوئی پیشین گوئی کبھی درست ثابت نہیں ہوئی)۔ وہ بار بار اپنے آپ کو ”عقلمندوں کا لیڈر” قرار دیتے ہیں۔ ایک دفعہ ارسطو نے شرکائے محفل کو کہا ”میں سب سے زیادہ عقلمند ہوں”۔ سوال کیا گیا ”وہ کیسے”؟۔ ارسطو نے جواب دیا ”کیونکہ میں اپنے آپ کو عقلمند نہیں سمجھتا”۔ گویا جو اپنے آپ کو عقلمند سمجھتا ہے، وہ بیوقوف اور ”عقلمندوں” کا لیڈر مہا بیوقوف۔
خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ محمود خاں کہتے ہیں کہ 27 اکتوبر کو لوگوں کے گھروں سے باہر ہی نہیںنکلنے دیا جائے گا۔ جواباََ جمعیت کے مولانا عبد الغفورحیدری نے کہا ”وزیرِاعلیٰ نے چھوٹا مُنہ، بڑی بات کہہ دی۔ اُنہیں چاہیے کہ وہ 27 اکتوبر کو گھر سے باہر نہ نکلیں”۔ فیصل واوڈا، فیاض چوہان اور ماسی مصیبتے جیسے کئی وزیروں مشیروں کی نیندیں حرام کہ اُنہیں اپنی حکمرانی کی نیّا ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ وزیرِداخلہ اعجازشاہ کو یاد دلاتے چلیں کہ جب اگست 14 میں عمران خاں اسلام آباد آئے تو نہ اُس وقت صحیح موقع تھا اور نہ صحیح وقت کہ چین کے صدر سی پیک معاہدے کے لیے پاکستان تشریف لارہے تھے جنہیں محض پی ٹی آئی کے دھرنوں کی وجہ سے اپنا دورہ معطل کرنا پڑا ۔ اُس وقت وزیرِاعظم میاں نوازشریف سپریم کورٹ کو دھاندلی پر تحقیقات کے لیے خط لکھ چکے تھے لیکن عمران خاں نہیں مانے اور اپنے سیاسی کزن مولانا طاہرالقادری کے ساتھ دھرنے کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ وزیرِداخلہ کہتے ہیں کہ جب عمران خاں اسلام آباد آئے تو تب وقت اور تھا۔ بجا ارشاد، اُس وقت تو ”لندن پلان” پر عمل ہو رہا تھااور خاں صاحب کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ اگر وہ ایک لاکھ کا مجمع لے کر اسلام آباد پہنچ گئے تو حکمرانوں کو گھر بھیج دیا جائے گا لیکن جب عمران خاں لاہور سے نکلے تو اُن کے ہمراہیوں کے تعداد 5 ہزار بھی نہیں تھی۔ اگر مولانا طاہرالقادری اپنے تیس، پینتیس ہزار مریدین، اپنے سکولوں کے طلبائ، اساتذہ اور اُن کے خاندانوں (جن میں شیرخوار بچے بھی شامل تھے) کو لے کر اسلام آباد نہ پہنچتے تو دھرنا اُسی دن ”ٹائیں ٹائیں فِش” ہو جاتا۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ جے یو آئی سکولوں کے طلباء کو ساتھ لے کر آرہی ہے لیکن جے یو آئی اعلان کر چکی کہ آزادی مارچ میں 18 سال سے کم عمر افراد شامل نہیں ہوں گے۔ اگر اٹھارہ سال سے زائد عمر کے طالب علم کو ووٹ کا حق حاصل ہے تو آزادی مارچ کا کیوں نہیں؟۔ حکومتی بزرجمہروں کی طرف سے یہ بھی بہت شور کہ مولانا فضل الرحمٰن مذہب کارڈ استعمال کر رہے ہیں جس کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ اگر مذہب کارڈ ذاتی سیاست کے چمکانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تو بالکل غلط لیکن آپ مذہب کو سیاست سے کیسے الگ کر سکتے ہیں؟۔ کیا 1973ء کے آئین میں اسلامی شریعت کو سپریم لاء کا درجہ نہیں دیا گیا؟۔ کیا ختمِ نبوت پر یقین نہ رکھنے والا غیرمسلم قرار نہیں دیا گیا؟۔ کیا آئین میں اسلامی نظریاتی کونسل اور وفاقی شرعی عدالت کے قیام کا نہیں کہا گیا؟۔ کیا آرٹیکل 62/63 کے مطابق کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے والے کے لیے صادق وامین کی شرط نہیں؟۔ جس ملک کا نام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے، اُس سے آپ مذہب کو کیسے بے دخل کر سکتے ہیں؟۔ اگر کوئی شخص آئین کی اِن بنیادی شرائط سے انحراف کرتا ہے تو اُس پر آئین کا آرٹیکل 6 لاگو ہوتا ہے جو غداری کے زمرے میں آتا ہے اور اِس کی سزا موت ہے۔ کپتان نے تو 2014ء کے دھرنے میں سول نافرمانی تک کا بھی اعلان کر دیا تھاجو صریحاََ آئین سے انحراف ہے لیکن آج جو لوگ اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے آزادی مارچ کی بات کرتے ہیں، اُن کی آمد کو وزیرِداخلہ ملک کے خلاف کیسے قرار دے سکتے ہیں۔
کڑوا سچ یہی کہ پاکستان کی تاریخ میں صرف 2 حکمرانوں نے مذہب کارڈ استعمال کیا۔ ضیاء الحق نے اسلامی نظام کا نعرہ بلندکیا۔ اُنہوں نے اپنے ریفرنڈم میں یہ شرط رکھی کہ اگر عوام اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دیتے ہیں تو اِس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ آپ نے ضیاء الحق کو پانچ سال کے لیے صدر منتخب کر لیا۔ ضیاء الحق نے ملک پر بلا شرکتِ غیر گیارہ سال حکومت کی۔ یہ اُن کی پالیسیاں ہی تھیں جنہیں مدِنظر رکھتے ہوئے لبرلز اورسیکولر کی زبانیں کھلیں اور اُنہوں نے بَرملا کہنا شروع کر دیا کہ فی زمانہ اسلامی نظام قابلِ عمل نہیں۔ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی نظام کو جتنا نقصان ضیاء الحق نے پہنچایا، کسی اور نے نہیں۔ دوسرے حکمران عمران نیازی ہیں جنہوں نے مذہب کارڈ استعمال کرتے ہوئے ”ریاستِ مدینہ” کا نعرہ بلند کیا۔ ریاستِ مدینہ میں تو کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا لیکن وزیرِاعظم کہتے ہیں ” حکومت کو ابھی تیرہ ماہ ہی ہوئے ہیں، لوگوں میں صبر نہیں، پوچھتے ہیں نیا پاکستان کہاں ہے، ریاستِ مدینہ چند دنوں میں نہیں بن گئی تھی”۔ جناب چودہ ماہ گزر چکے لیکن ریکارڈ7 ہزار509 ارب قرضہ لینے کے باوجود ابھی تک نئے پاکستان کی بنیاد بھی نہیں رکھی گئی۔ مہنگائی کے عفریت نے مجبوروں، مقہوروں کی زندگیاں اجیرن کر رکھی ہیں۔ اِس وقت مہنگائی 16 فیصدجبکہ ا یشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق پاکستان 2020ء میں ایشیا کے مہنگے ترین ممالک میں شامل ہو جائے گا۔ اِسی بینک کی رپورٹ کے مطابق افراطِ زر کی شرح 2018ء میں 3.09 فیصد تھی جو 2019ء میں بڑھ کر 7.05 فیصد ہوگئی اور 2020ء میں 12 فیصد تک پہنچ جائے گی۔ اگر یہی عالم رہا تو 2020ء میں غالب اکثریت نانِ جویں کی بھی محتاج ہو جائے گی۔
ریاستِ مدینہ کی بنیاد انصاف پر رکھی گئی۔ یوں تو وزیرِاعظم کی سیاسی جماعت کا نام بھی تحریکِ انصاف ہے لیکن انصاف ہوتا کہیں نظر نہیں آتا۔ تحریکِ انصاف، وزیرِاعظم کے پہلو میں کھڑے مسلمہ کرپٹ لوگوں کی محفوظ پناہ گاہ جبکہ اپوزیشن کے لیے بذریعہ حکومت ”نَیب” شمشیر برہنہ۔ ریاستِ مدینہ میںتو عدل کا پلڑا کسی کی وجاہت کے خوف سے کبھی نہیں جھکا۔ چوری کے الزام میں فاطمہ نامی ایک عورت کو آقا ۖ کے سامنے پیش کیا گیا۔ آپۖ نے اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ صحابہ نے عرض کی ،یہ مضبوط ترین قبیلے کی عورت ہے، انتشار پھیلنے کا خطرہ ہے۔ اِس لیے معاف کر دیا جائے۔ آپۖ نے فرمایا ”ربِ کعبہ کی قسم اگر اِس کی جگہ میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اُس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیتا”(مفہوم)۔ وزیرِاعظم کی مجوزہ ریاستِ مدینہ میں نیب کی ملّی بھگت سے اپوزیشن کی پکڑدھکڑ کا سلسلہ دراز۔ جہاں چیئرمین نیب خود کہے کہ تحریکِ انصاف کی حکومت پر ہاتھ ڈالا گیا تو حکومت گر جائے گی، وہاں انصاف کی توقع عبث۔ اِس لیے ہم یہ سمجھنے پر مجبور کہ بنی گالہ کے محل میں رہنے والے، اپنے محل سے وزیرِاعظم ہاؤس تک کا سفر کرنے والے ہوائی جہازوں اور پروٹوکول سے لطف اندوز ہونے والے بھلا کیا جانیں کہ ریاستِ مدینہ کیا ہوتی ہے۔
انصار عباسی نے لکھا ”حکومتی شرلاک ہومز (شہزاد اکبر) غائب ہو گئے ہیں۔ وہ چند ماہ سے نظر نہیں آرہے”(شہزاد اکبر اب ٹویٹ کے ذریعے منظرِعام پر آگیا ہے)۔ عرض ہے کہ تحریکِ انصاف میں تو قطاراندر قطار شرلاک ہومز بھرے پڑے ہیں۔” انصافی تھیٹر” کی سٹیج پر جس کا جتنا رول ہوتا ہے، ادا کرکے غائب ہو جاتا ہے۔ پھر ”ہدایت کار” کی مرضی کہ وہ دوبارہ سٹیج پر نمودار ہوتاہے یا نہیں۔ آجکل ”شرلاک ہومزی” میڈیا کے سر پر سوار ہے۔ فیاض چوہان کو نیا رول دے کر ”اِن” کر دیا گیا۔ فیصل واوڈا کی ”واہیاتیاں” جاری اور شیخ رشید بھی ٹَن ٹَن بج رہا ہے۔ دراصل حکومت تجربوں سے گزر رہی ہے۔ کپتان ایک ٹیم کو سامنے لاتا ہے، وہ ناکام ہو جاتی ہے تو اُس کی جگہ دوسری ٹیم لے لیتی ہے البتہ کپتان وہی کہ فی الحال زورآوروں کا دستِ شفقت اُس کے سر پر۔ دروغ بَر گردنِ راوی، اب زورآوروں میں بھی کھُسر پھُسر جاری کہ کپتان بدل کر دیکھیں۔ شنید یہ بھی کہ اب مولانا فضل الرحمٰن کی پیٹھ تھپتھپائی جا رہی ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو پھر حکومت گئی لیکن اگر افواہ ہے تو مولانا صاحب کے ”کھُنّے سِکنے” پر ہمیں بہت افسوس ہو گا۔