میں اپنے اہل کشمیر کے لیے امن وامان اور انسانیت کے دشمن بھارت سرکار کی جانب سے کس کس ظلم کو احاطہ تحریر میں لائوں، کہ جب مقبوضہ کشمیر میں انسانیت کی آزادی کو چھین لیا جائے، وہاں کے باسیوں کے لیے انہی کی دھرتی میں ان کی گزران زندگی اجیرن بنا دی جائے، اپنے حقوق لینے کے لیے کوششیں کرنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کر کے پھر ان کے لہو کو رائیگاں سمجھا جائے، پھر اس ہٹ دھرمی میں بچوں، بوڑھوں اور خواتین کا بھی اپنی پوری طاقت کا استعمال کرتے ہوئے بدترین ظلم و ستم میں لحاظ نہ رکھا جائے……تو ایسے حالات میں عالمی ”حقوق انسانی” کی تنظیموں پر سوال اٹھتا ہے، کہاں ہیں وہ سب حقوق انسانی کی تنظیمیں ؟کہ جن کا بنیادی مقصد اور ماٹو ہی یہ ہے کہ ہم انسانیت کو ان کے جائز حقوق دلوائیں گے۔
انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے، انسانیت کو آزاد زندگی بسر کرنے کے مواقع مہیا کریں گے…۔ بھارت میں موجودہ مودی سرکار نے جو مقبوضہ کشمیر کے بارے میں فیصلے کیے ہیں جو کہ کسی طرح بھی کشمیریوں کو ہرگز قابل قبول نہیں ہیں اور وہ جرأت مند کشمیری، حریت رہنما اپنا جائز حق منوانے کے لیے بھارت سرکار کے سامنے سینہ سپر ہیں اور وہ اپنے موقف سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے، جوکہ 1947ء سے لے کر آج تک علی الاعلان کہہ رہیں ہیں، ہم پاکستانی ہیں، پاکستان ہمارا ہے، کشمیر بنے گا پاکستان ، نعروں کے ساتھ ساتھ پاکستانی پرچم لہراتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اپنے شہداء کوبھی پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر اپنے وطن عزیز پاکستان سے محبت کا عملی ثبوت پیش کر رہے ہیں۔
اب موجودہ حالات میں جو صورت حال مقبوضہ کشمیر میں ہے اس سے پوری دنیا بخوبی آگاہ ہے، مودی سرکار مقبوضہ کشمیر میں کئی دنوں سے تاریخ کا بدترین فوجی اور پولیس کا محاصرہ برقرار رکھے ہوئے ہے اور کشمیری مائیں، بہنیں، بیٹیاں، بچے اور بوڑھے سبھی کسی محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان کے منتظر ہیں، وہ”اقوام متحدہ” اور ”عالمی حقوق انسانی” کی تنظیموں کے بھی منتظر راہیں تک رہیں ہیں۔ جب کہ ساری عالمی طاقتیں کشمیری عوام کا تماشا دیکھ رہی ہیں اور اگر کوئی کوشش کر بھی رہا ہے تو صرف بیانات کی حد تک کام چلا رہے ہیں۔
درد میں ڈوبا، زخمی زخمی ہے میرا کشمیر آنسو اس کی آنکھوں میں ہیں ،پائوں میں زنجیر دنیا والے کہتے ہیں، جنت کی ہے تصویر اے کاش! بدل جائے میری اس دھرتی کی تقدیر
ایک عام آدمی کرے تو کیا کرے؟ اگر کوئی یہ جملہ کہتا ہے ”میں کیا کر سکتا ہوں ؟ ” ہاں! کیوں نہیں وہ بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔اس کے ذمے بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہے، وہ یہ کہ کم ازکم وہ اپنے ان مظلوم کشمیری بہن بھائیوں کے لیے درد دل سے دعا کا اہتمام تو کر سکتا ہے ، ہمارے محترم المقام، امام و خطیب، عالم دین نمازوں میں قنوت نازلہ کا اہتمام تو کر سکتے ہیں۔ جو کہ ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی ہے، کیونکہ یہ دعا تو ہر مسلمان اپنے مظلوم و مجبور بہن بھائیوں کے لیے کرسکتا ہے، جنگی سازوسامان کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ایک مسلمان کا بہت بڑا ہتھیار ہوتا ہے۔
اگر ایک عام آدمی کے پاس کوئی طاقت نہیں ہے تو پھر یہ دعا والا ہتھیار تو ہر کسی کے پاس موجود ہے، وہ اس دعائیہ ہتھیار سے اپنے کشمیری بہن بھائیوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہوئے ان کے حق میں دعا اور غاصبانہ قبضہ کرنے والے اور ظلم و ستم ڈھانے والوںکے اوچھے ہتھکنڈوں کے خلاف قنوت نازلہ(بدعا)تو کر سکتا ہے۔ نجانے کس ہمارے بہن بھائی کے درد دل سے کہے گئے الفاظ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں شرف قبولیت کا درجہ پا لیں اور اللہ رب العزت روح القدس کے ساتھ کشمیریوں کی مدد فرما کر انہیں آزادی جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کر دے، کیونکہ وہ اکیلا ہی تو ہے جو ہر پکارنے والے کی پکار کو سنتا اور جانتا ہے ، اسی کے ہاتھ میں زمینوں و آسمان کی بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھنے والا ہے۔