ایردوآن امریکی نائب صدر سے ملاقات پر راضی، سیزفائر سے انکار

Trump and Erdogan

Trump and Erdogan

انقرہ (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی نائب صدر مائیک پینس ترک صدر ایردوآن کو سیزفائر پر رضامند کرنے کے لیے انقرہ روانہ ہو رہے ہیں۔ شروع میں انکار کے بعد ایردوآن اب پینس سے ملاقات پر تو آمادہ ہو گئے ہیں لیکن انہوں نے سیزفائر کا امکان مسترد کر دیا ہے۔

شام میں ترک فوجی کارروائیاں رکوانے کے لیے امریکی نائب صدر ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں۔ قبل ازیں صدر ایردوآن نے امریکا پر تنقید کرتے ہوئے اس ملاقات سے انکار کر دیا تھا تاہم بعد میں کہا گیا کہ اب ایردوآن کی امریکی نائب صدر سے ملاقات ہو گی۔

آذربائیجان کے دورے سے لوٹنے کے بعد صدر ایردوآن نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ”وہ (امریکی حکام) کہہ رہے ہیں کہ سیزفائر کا اعلان کیا جائے۔ ہم ایسا بالکل نہیں کریں گے۔ وہ ہم پر اس آپریشن کو روکنے کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں، پابندیوں کا اعلان کیا جا رہا ہے۔ ہمارا ہدف واضح ہے اور ہم پابندیوں کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔‘‘

صدر ایردوآن نے شامی کردوں سے مذاکرات کا امکان بھی مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم رہنما ثالثی کی کوششیں کر رہے ہیں۔ جمہوریہ ترکی کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بطور ریاست ترکی کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ ایک میز پر بیٹھا ہو۔‘‘

امریکی حکام نے ترکی کو دھمکی دی ہے کہ اگر فائر بندی نہ ہوئی، تو انقرہ کے خلاف سخت ترین پابندیاں عائد کی جائیں گی۔

وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”امریکی نائب صدر پینس (صدر ایردوآن کے ساتھ ملاقات میں) صدر ٹرمپ کے اس عزم کا اعادہ کریں گے کہ جب تک کوئی معاہدہ طے نہیں پا جاتا، ترکی کے خلاف سخت معاشی پابندیاں عائد کی جاتی رہیں گی۔‘‘
امریکی نائب صدر نے آج امریکا میں ایک مقامی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے صدر ایردوآن کو خطے میں عدم استحکام کا ذمہ دار بھی قرار دیا۔

ترک صدر کا دورہ امریکا بھی پہلے سے طے ہے اور منصوبے کے مطابق انہیں تیرہ نومبر کے روز صدر ٹرمپ سے ملاقات کرنا ہے۔ تاہم دونوں ممالک کے مابین موجودہ کشیدہ صورت حال نے اس ملاقات کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔

صدر ایردوآن نے صدر ٹرمپ سے طے شدہ ملاقات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے آج بدھ سولہ اکتوبر کے روز کہا کہ وہ اس مجوزہ ملاقات کے بارے میں نظرثانی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”کانگریس میں جاری مباحثوں اور گفتگو میں میری شخصیت، میرے خاندان اور میرے وزراء کے بارے میں جیسے باتیں کی جا رہی ہیں، وہ بہت زیادہ ہتک آمیز ہیں۔‘‘