اکیس (21) سال کی ناکام سیاست کے بعد ایک نام نہاد اور ناکام سیاست دان نے ملک کی معیشت کو 126، دنوں کے دھرنوں سے بربا کر دینے، تشدد، بدزبانی، اور اخلاق باختگی کی سیاست اور ضمیر فروشوں کے اکٹھ کے بعد بد نیتی پرمبنی نا انصافی کے ذریعے ایک جمہوری وزیرِ اعظم کورڈندے اور میزان کے ذریعے چلتا کرواکرانتخابی جھرلوسے اپنےآپ کوسلیکٹر کے ذریعے اقتدار پر برجمان کروالیا۔جس کا یہ کہنا تھا کہ اگراوپروالے کرپٹ ہوں گے توملک میں غربت افلاس اور بے روزگاری بڑھے گی اور ترقی کا پہیہ رک جائے گا۔کیا یہ بات صرف ماضی کے لئے کہی گئی تھی! موجودہ دور کے لئے نہیں دورکے لئے نہیں؟دھرنے کے لئے لوگ نہیں مل رہے تھے توموصوف کے حمائتی گائوں گائوں خاموشی سے گئے اور دیہاتی خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کو دھرنوں میں ایک ہزار روپے یومیہ دھاڑی پر خاموش رہنے کی شرط پرلگا کر اپنی ڈوبتی سیاست کو سلیکٹر کے کاندھوں پر چمکانے کے امکانات پیدا کرالئے مگر بد قسمتی سےان خواتین کی اکثریت کو ابتک ان کا محنتانہ ادا نہیں کیا گیا۔جو آج بھی میڈیا پر اپنے محنتانے کا مطالبہ کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔
اب جب مولانا فضل الرحمٰن نے(دھرنے) آزری مارچ کا علان کیا توپی ٹی آئی کے ایوانوں میں گویا زلزلے کے جھٹکے محسوس ہونے لگے ہیں دوسری جانب سلیکٹر بھی مخمصے کا شکار ہیں۔۔اس وجہ سے ان کے وزرائ اول فول بکنے لگے ہیں۔قوم سوال کر رہی ہے ڈونلڈ ٹرٹرپ کی آڑہت پر کشمیر بیچ دینے کے بعد اب موصوفایران سعودیہ ثالث بننے چلے ہیں۔جبکہ ان سے اپنا گھر اور اس کے مسائل سنبھالے نہیں جارہے ہیں اور چلے ہیں اُن ملکوں کی ثالثی کرانے جو جانتے ہیں موصوف بھیک کا کشکول لے کر بار بار ان کے دوارے جاتاساری دنیا دیکھتی رہی ہے۔
خبر ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی ماچ میں حزبِ اختلاف کی تما م سیاسی جماعتوں کے ساتھ بعض حزبِ اقتدارا کے لوگ بھی مولانا کی حمایت کے لئے تیار ہیں۔جس کیوجہ سے پی ٹی آئی کے وزرائ کی دوڑیں لگ گئی ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ میڈیا پر آکر مولانا کو بار بار اپنی ذہنی الجھن کا نشانہ بنا رہے ہیں۔جو کہتے ہیں کہ انہیں یقین ہے مولانا اسلام آبادنہیں آئیں گے؟اگرآئے تویہ خودکشی ہوگی؟کس کی حکومت کی؟وہ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ مدارس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہو رہی ہے۔ احتجاج کرنا ان کا حق ہے لیکن ان کا وقت ٹھیک نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کا وقت ٹھیک نہیں ہے! دو سری جانب فردون ایوان چیخ رہی ہیں مولانا اسلام آباد کی نہیں اسلام کی فکر کریں؟ محترمہ آپ کو کس کی فکر ہے؟جو آپ کی چیخیں نکل رہی ہیں
مولانا ٖفضل الرحمان نےچارسدہ میں اسفند یار ولی کے ستھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکل حالات کا سامنا کرنا ہماری تاریخ ہےاور ثابت کریں گے کہ گذشتہ سال ہونے والے الیکشن زبر دست دھاندھلی زدہ تھےجو 25، جولائی 2018 کے بعد ہمارا موقف تھا وہ آج بھی ہے۔اگر خلائی مخلوق سے غلطی ہوئی ہے تو تسلم کر لے! ہم پورے ملک کو بند گلی سے نکالنے جا رہے ہیں۔اسفند یار کا کہنا تھا کہ ہماراموقف آزادی مارچ والوں کےساتھ ہے۔دھرنوں میں شریک ہوں گےاگر حکومت نے ردِ عمل دیا تو اے این پی میدان میں نکلے گی۔اگر مولانا کو گرفتار کیا گیا تو دھرنے کی قیادت میں خود کروں گا۔دوسری جانب قبائلستاں تحفظ مومنٹ،فاٹا گرینڈ الائنس اور لویہ جرگہ نے بھی آزادی مارچ میں شرکت کا فیصلہ کر لیا ہے۔سینٹر مولانا عطائ الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اگر مولانا کو گرفتار کیا گیا تو پورا پاکستان بند کر دیں گے۔
پیپلز پارٹی کے چئر مین بلال زرداری کا کہنا ہے کہ کٹھ پتلی حکومت کے خلاف نکلیں گےاور کراچی سے پیغام جائے گا تووفاق ہل کر رہ جائے گا۔حکومت نےمہنگائی اورٹیکسوں کا سونامی کھڑا کردیا ہے۔عوام دشمن بجبٹ سےمعاشی قتل کیاجا رہا ہے۔سلییکٹیڈ حکومت کبھی عوام کےمعاشی حقوق کا تحفظ نہیں کرے گی۔
گو کہ اس وقت پیپلز پارٹی اور نواز لیگ مخمصوں کا شکار دکھائی دیتی ہیں اور کھل کر مولانا کے پروگرام کی حمایت سے کترا رہی ہیں۔ مگر اس ضمن میں ن لیگ کے سربراہ محترم نواز شریف کا موقف واضح ہے اور وہ مولانا کے پروگرام کی کھل کر حمایت کا اعلا کرتے ہوئے کار کنان کو بھی مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ مولان کے آ زادی مارچ میں دل و جان سے شرکت کریں۔ کیونکہ دھرنے کا با نی آج دھرنے سے کیا آزادی مارچ سے بھی خائف ہے۔جو ساری دنیا میں پاکستان کو اس کی اپنے علاوہ تمام لیڈر شپ کو بد نام کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے ہوا ہے۔