جس روز دنیا کا وجود مٹا دیا جائے گا، اس کے بعد موت کوبھی موت آ جائے گی مگر زندہ انسانوں کی دنیا میںم وت سب سے بڑی حقیقت ہے اوراس سے بڑھ کر کوئی بے رحم نہیں۔حضرت انسان کے جنم دن سے موت اس کا تعاقب کرنے لگتی ہے۔انسان سمیت کوئی جاندار موت سے مستثنیٰ نہیں۔اپنے اپنے عہد کے بڑے بڑے فرعون اورقارون آج مردہ حالت میں روزمحشر کے منتظر ہیں۔ سکندراعظم کی دنیا سے خالی ہاتھ رخصتی کا عبرتناک واقعہ دیکھنے اورسننے والے بھی اقتدار کیلئے اقدار روندنے ،زروجواہر جوڑنے اورمحلات بنانے سے بازنہیں آئے ،ان میں سے کئی انسان وہ بھی ہیں جودھن دولت کما نے بلکہ ہتھیانے کے دوران عزت کمانابھول گئے اورآج ان کی دھونس کے باوجود ان کادھن ان کیلئے بوجھ بن گیا ہے ۔آج وہ اپنے قصر کے آرام سے محروم کسی نہ کسی زندان میں قید ہیں۔آج وہ اپنی بے پایاں دولت سے اپنے اوراپنے بچوں کیلئے عزت اورآزادی نہیں خریدسکتے ۔زندگی میں جوسرمایہ دارہزاروں ایکٹراراضی کے مختار ہیں انہیں موت کے بعددوگز زمین نصیب ہوگی یا نہیں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا۔انسان کی موت کے بعداس کامال مرقدمیں ساتھ نہیں جاتاصرف اعمال ساتھ جاتے اوروہاں بہت کام آتے ہیں۔متوفی کے ورثااس کے ناجائزمال پر خوب عیش وعشرت کرتے ہیں جبکہ میت کیلئے اس کا مال مرقد میں وبال بن جاتا ہے ۔ہمارے آس پاس ایسے کئی انسان ہیںجوزندہ ہوتے ہوئے بھی زندہ نہیں ہوتے اوران کی موت دوسروں کی عبرت کاسامان بن جاتی ہے جبکہ کچھ شخصیات کی موت کے بعد بھی ہمیں ان پررشک آتا ہے۔سندھ پولیس کے دبنگ ایڈیشنل آئی جی اورشہرقائد کے سابقہ چیف آف پولیس شاہدحیات خان کاشمار بھی ان قیمتی انسانوں میں ہوتاتھا جو اپنے منفرداورمختلف طرزحیات سے دوسروں کیلئے امیداورنوید بن جاتے ہیں۔جولوگ شاہد حیات خان کی طرح زندگی بھر زراورزور کیلئے اپنی اوراپنے خاندان کی عزت پرسمجھوتہ نہیں کرتے موت کے بعدبھی ان کانام عزت سے لیا جاتاہے۔چلیں آج شاہدحیات خان سے ملتے ہیں جو حیات نہیں رہے لیکن اس طرح کے اُجلے اورسلجھے لوگ مرتے بھی نہیں ۔
سرزمین سندھ کے زیرک اوردبنگ ایڈیشنل آئی جی پولیس شاہدحیات خان تاحیات اپنے محکمہ کی طرف سے ملنے والے دو بیڈ روم کے فلیٹ میں مقیم رہے اورآج تک کسی نے ان کی زبان سے کوئی گلہ نہیں سنا۔ان کی حیات میں آسودگی ان کی طبیعت میں فطری سادگی کانتیجہ تھی۔ا نہیں زندگی بھرافسری ،سروری اوربرتری کابخار نہیںہوا۔وہ شروع سے بہت سادہ مزاج ،سراپااخلاص اور” ڈائون ٹوارتھ” تھے ۔شاہدحیات خان کاسرمایہ افتخاراورامتیازی نشان ان کااطمینان تھا ۔ کراچی پولیس کے چیف مقررہونے کے بعدبھی انہوں نے اسی گھر میں رہناپسندکیا،انہوں نے زندگی بھرگھرتبدیل کیا اورنہ اپنے دوست بدلے۔ شاہد حیات خان شہرقائد میں طویل علالت کے بعد حق رحمت سے جاملے، مرحوم نے اپنے فرض منصبی کی بجاآوری کے دورا ن دو بار موت کاسامنا کیا اوراسے شکست دی۔سرفروش اورفرض شناس شاہدحیات خان نے فرض منصبی کی بجاآوری کے دوران قید و بند کاسامنا بھی کیا۔شاہد حیات خان گزشتہ کئی ماہ سے انٹیلی جنس بیورو میں تعینات تھے، انہوں نے موٹروے پولیس میں ایڈیشنل آئی جی کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔وہ مختصر مدت کیلئے ایف آئی اے میں ڈائریکٹر سندھ بھی تعینا ت رہے۔
شاہدحیات خان کی حیات مہم جوئی سے عبارت ہے،وہ پولوبہت شوق سے کھیلتے تھے اور انہیں پولو کھیلنے میں خاصی مہارت حاصل تھی ۔ا نہیں شہرقائد میں مختلف چیلنجز سے نبردآزماہوناپڑا مگر انہوں نے کبھی دبائوقبول نہیں کیاتھا ۔شاہد حیات خان نے 1988ء میں اپنی سرکاری ملازمت کی شاندار شروعات سول سروس کا امتحان پاس کرکے صوبہ خیبر پختونخوا میں سول جج کی حیثیت سے کی تھی۔شاہد حیات خان نے 1989ء میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کیا اور 1991 ء میں وہ با ضابطہ طور پر سول سروس سے وابستہ ہوگئے تھے۔ شاہدحیات خان 1992ء میں اے ایس پی کی حیثیت سے لاہور میں تعینات رہے جہاں انہوں نے اپنا وجودمنوایا۔ انہیں 1993 ء میں اقوام متحدہ کے مشن پر بیرون ملک جاناپڑا۔شاہدحیات خان مرحوم نے بحیثیت ایڈیشنل آئی جی موٹروے میں قابل رشک خدمات سرانجام دیں۔ 1995ء میں جب کراچی میں کشت وخون اور سکیورٹی فورسزکا آپریشن زوروں پر تھا،اس وقت انہیں اہم ٹاسک دیتے ہوئے لہولہوشہرقائد کے انتہائی خطرناک ایریا میںتعینات کیا گیاتھا۔ وہاں دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کے دوران انہیں شدید حملے کاسامناکرناپڑا جس کے نتیجہ میں وہ زخمی ہوگئے تھے۔ سماج دشمن عناصرنے انہیں جان سے ماردینے کے ارادے سے فائرکیا جوان کے چہرے پرلگا اور وہ کئی روز تک ہسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد واپس وہیں تعینات ہوئے جہاں انہیں گولی ماری گئی تھی ۔1996 ء میں بینظیر بھٹو کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل والے پولیس ایکشن کے دوران وہ پھرگولی لگنے سے زخمی ہوگئے تھے، تاہم ہسپتال میں کئی ماہ تک زیر علاج رہنے کے بعد انہیں میر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں د وسرے پولیس آفیسرز کے ساتھ گرفتار کرلیاگیاجبکہ ہسپتال میں روبصحت ہونے کے بعد انہیں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیاتھا۔تقریباً ڈھائی برس پابندسلال رہنے کے بعد انہیں دوبارہ شہرقائد کے ایریاصدرمیں بطورڈویژنل پولیس آفیسر تعینات کیا گیا، جس کے بعد انہیں ایس پی ٹھٹھہ مقرر کیا گیا۔
ٹھٹھہ میں فرض منصبی کی بجاآوری کے دوران انہوں نے اپنے مخصوص طرز کی پیشہ ورانہ خدمات کے دوران الیکشن مہم میں ایک سیاسی جماعت کے دبائو پراس کی مدمقابل پارٹی کیخلاف ماورائے قانون اقدام کرنے سے دوٹوک انکار کیا تو اس پاداش میں ا نہیں پھرٹرانسفر کردیا گیا، جس کے بعد وہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن کراچی ایسٹ اور اے آئی جی اسٹیبلشمنٹ بھی تعینات رہے۔ آبائی طورپرڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھنے والے شاہد حیات خان ڈی آئی جی پولیس شرقی اور سائوتھ بھی رہے۔بحیثیت ڈی آئی جی سائوتھ پوسٹنگ کے دوران اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے اہم ٹاسک ملنے پر سندھ کے اہم شاہ زیب قتل کیس کے سربراہ تفتیشی آفیسر بھی رہے۔ان کی قیادت میں تفتیشی ٹیم نے اس مقدمہ کو کامیاب انداز میں پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ شاہد حیات خان عباس ٹائون کے خوفناک بم دھماکے کی تحقیقاتی ٹیم کے بھی سربراہ رہے۔شاہد حیات خان مرحوم کے ساتھ اورماتحت کام کرنیوالے پولیس آفیسرز سمیت اہلکارانہیں اس بنیاد پر بھی عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ وہ ہر ساتھی کے دکھ سکھ میں برابر کے شریک ہواکرتے تھے۔وہ اپنے ساتھی پولیس آفیسرز اور اہلکاروں کا مورال بلند کرنے میں خاصی مہارت رکھتے تھے، اہلکاروں کے ساتھ بیٹھ کر کھاناتناول کرناان کامعمول تھا ۔شاہد حیات خان نے تاحیات اپناطرزحیات تبدیل نہیں کیا۔مرحوم نے باوفا بیوہ سمیت دوباصفا اورباحیاء بیٹیوں کو سوگوار چھوڑا ہے۔
نیک نام شاہد حیات خان کی نمازجنازہ بھی شہرقائد کاایک بڑا سیاسی وسماجی اجتماع بن گئی ، کراچی سمیت ملک بھر سے لوگ اظہارعقیدت کیلئے جوق درجوق ان کی نمازجنازہ میں شریک ہوئے اوران کے بلندی درجات کیلئے خصوصی دعاکی گئی۔ پاک آ رمی، نیوی،رینجرز اورپولیس کے آفیسرزسمیت سیاست ،صحافت اورتجارت کے شعبہ کی اہم شخصیات نے شرکت کی۔سابق ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات خان کی نماز جنازہ کراچی کے گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر میں ادا کی گئی جس کے بعد مرحوم کی میت کو سپردخاک کرنے کیلئے ان کے آ بائی ڈسٹرکٹ ڈیرہ اسماعیل خان روانہ کردیا گیاتھا۔شاہد حیات خان کی نماز جنازہ میں وزیراعلیٰ سندھ سیّد مراد علی شاہ، وزیراطلاعات سندھ سعید غنی، ایڈیشنل آ ئی جی حضرات،ڈی آئی جی حضرات، پاکستان آرمی، نیوی،رینجرز، ایف ا ئی اے، آئی بی کے آفیسرز و جوان، سندھ پولیس کے آفیسرز اور جوانوں کے علاوہ ممبران قومی وصوبائی اسمبلی، ایوان ہائے صنعت و تجارت کے نمائندگان، شہرقائد کے ٹریڈرز سمیت معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والی ہردلعزیز شخصیات نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پرا ئی جی سندھ ڈاکٹر سید کلیم امام نے مرحوم پولیس آفیسرکی مختلف شعبہ جات اور بالخصوص بطور ایڈیشنل آئی جی کراچی تعیناتی کے دوران ان کے جرأتمندانہ اقدامات اور کراچی کی سطح پران کی پولیس اصلاحات کوبہت سراہا۔
امید ہے ہرباشعورفرد شہرقائد کے سابقہ دبنگ چیف شاہدحیات خان کی نیک نامی کی شہادت د ے گا اورلوگ کراچی میں قیام امن کیلئے ان کے نام اورکام کو مدتوںتک یادرکھیں گے۔شہرقائد کے شاہدحیات خان کی طرح ان دنوں شہرلاہور میں بھی ایک انتھک اورزیرک ڈی آئی جی آپریشنز اشفاق احمدخان نے سماج دشمن عناصرسمیت اپنے محکمے کی گندی مچھلیوں کیخلاف آپریشن کلین اپ شروع کیاہوا ہے۔وہ پولیس کلچر تبدیل کرنے کی راہ میں حائل رکاوٹوں پرکاری ضرب لگارہے ہیں۔پروفیشنل ڈی آئی جی اشفاق احمدخان نے لاہورپولیس کی نبض پرہاتھ رکھتے ہوئے مرض پہچان کراس کاموثر علاج شروع کردیا ہے۔
ریاستی اداروں کے مقابلے میں 24/7کی بنیادپرمسلسل اورانتھک کام کرنے کے باوجود پولیس اہلکاربہت زیادہ اورسخت سزائوں کاسامناکرتے ہیں ،ایسا کئی آفیسرز کاکہنا ہے اورمیں بھی ان کی بات سے متفق ہوں ۔اشفاق احمدخان کے نزدیک ان کے ماتحت آفیسرزاوراہلکار انفرادی اوراجتماعی کارکردگی میں بہتری کیلئے مزیدتوانائیوں اور آسانیوں کے مستحق ہیں،انہیں جدید خطوط پر تربیت دیتے ہوئے ان میں موجود صلاحیت ،قابلیت اورپیشہ ورانہ مہارت کومزیدنکھارا جاسکتا ہے۔اشفاق احمدخان کے ویژن کی روسے حالیہ دنوں میں لاہورپولیس کے اندر جودوررس اصلاحات دیکھنے میں آئی ہیں ان سے عنقریب بہت مثبت تبدیلی کی امید ہے۔سی ٹی اولاہورکیپٹن (ر)لیاقت علی ملک کی لیاقت اوراپنے ادارے کی نیک نامی کیلئے استدلال کے ساتھ وکالت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔کیپٹن (ر)لیاقت علی ملک اپنے منصب کے ساتھ انصاف کرتے ہیں لیکن زیادہ تر شہریوں کوابھی تک ٹریفک کاشعورنہیں آیا۔ہماری پولیس میں جہاںکچھ خامیاںہیں وہاں کئی ایک پلس پوائنٹ بھی ہیں۔ اگرشاہدحیات خان مرحوم کو اپنے ادارے کاروشن چہرہ اور پولیس کے ماتھے کاسہرا کہاجائے توبیجا نہیں ہوگا ۔بیشک شاہدحیات خان اوراشفاق احمدخان سے جانباز مادروطن کاناز ہیں۔