ہر مسلمان کا تہذیبی، تمدنی، سیاسی، سماجی، فکری، مذہبی اور شخصی حوالے سے الگ تشخص اور علیحدہ پہچان ہے۔ اِس کی عملی گواہی ہادیٔ برحقۖ نے اپنے افعال، اقوال اور اعمال کے ذریعے دی۔ آقاۖ کا یہ عملی نمونہ ہر مسلمان کے لیے تا قیامت مشعلِ راہ ہے۔ ارشادِ ربی ہے ”یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکواة دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے” (سورہ الحج)۔ کسی ایسی ریاست کو اسلامی ریاست نہیں کہا جا سکتا جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہو، صرف وہی ریاست اسلامی ریاست ہو گی جس کا سربراہ ”مردِمومن” ہو اور احکامِ الٰہی کا مکمل پابند۔ سربراہ کا ذاتی کردار فسق وفجور، غروروتکبراور نرگسیت وانانیت سے پاک ہوتا ہے اور اُس کی تمام تر طاقت برائی کو پھیلانے کی بجائے مٹانے پر صرف ہوتی ہے۔ عجیب بات ہے کہ وطنِ عزیز میں جب بھی کسی سربراہِ مملکت کی ذات زیرِ بحث آتی ہے تو فوراََ کہہ دیا جاتا ہے”یہ اُس کا ذاتی فعل ہے جسے زیرِ بحث نہیں لانا چاہیے”۔ حالانکہ اِس حکمِ ربی کے مطابق تو سب سے زیادہ کسی سربراہِ مملکت کا کردار ہی زیرِبحث آنا چاہیے کیونکہ ربِ کائینات کی تفویض کردہ ذمہ داریوں کا سب سے زیادہ بوجھ اُسی پر ہوتا ہے اور روزِ قیامت وہی جوابدہ۔ علامہ اقبال کے نزدیک مردِ مومن کی پہچان یہ ہے کہ
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن گفتار میں کردار میں اللہ کی برہان قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی ایسے شخص کو مومنین کا سردار منتخب کر لیا جائے جو ہوسِ اقتدار کا بھوکا، جذبۂ ایثار سے تہی اور اپنی ذات کے گنبد میں گم ہو۔ جسے خواہشوں کی جھلمل اتنی دور لے جائے کہ وہ ذاتی اغراض کی خاطر طاغوت کے آگے بھی جھک جائے۔ وہ منافق تو ہو سکتا ہے، مومن ہرگز نہیں کیونکہ اسلامی نظام کی بنیاد ہی بندۂ خدا ہونا ہے طاغوت کی غلامی نہیں۔ یوں تو ہم نے اِس مملکتِ خُداداد کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیالیکن یہ اسلامی ہے نہ جمہوری۔ دین کی بات کرو تو لبرلز اور سیکولرزکہتے ہیںکہ کون سا دین، بریلوی کا، دیوبندی کا، اہلِ حدیث کا یا شیعہ کا؟۔ جمہوریت زورآور کے گھر کی لونڈی، دَر کی باندی۔ اب نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے ”ریاستِ مدینہ” کی تشکیل کا بیڑا اُٹھایا ہے لیکن عالم یہ کہ خود سربراہِ مملکت کی زبان غیرپارلیمانی اور حواری اُن سے بھی دو قدم آگے۔ دینِ مبیں میں ایفائے عہد کو اوّلیت حاصل جبکہ ہمارے سربراہ کو یہ فخر کہ وہ یوٹرن لے لے کے وزیرِاعظم بن گیا، گویا منزلِ مقصود تک پہنچنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لینا اور اپنی کہی گئی باتوں سے مکر جانا ضروری۔ ایسے لوگوں سے بھلا ریاستِ مدینہ کی تشکیل کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے۔
ریاستِ مدینہ کی تشکیل کا خاکہ حکمت کی عظیم الشان کتاب میں یوں درج کر دیا گیا ”اے ایمان لانے والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحبِ امر ہوں۔ پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے پر نزع ہو جائے تو اُسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو، اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو (سورہ النسائ)۔ اسلامی ریاست کی تشکیل کی بنیادمسلمانوںکی انفرادی اور اجتماعی زندگی کا محورومرکز اللہ سے وفاداری، اُس کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کرنا اور اُس کے ہر حکم پربلا چون وچرا سرِتسلیم خم کرنا ہے لیکن ہمارا رَب سے تعلق محض واجبی اور کسی بگڑے ہوئے بچے کی مانند۔ہم ذاتی مفاد کی خاطر طاغوت کی اطاعت کو بھی جائز سمجھتے ہیں جو سراسر منافقت ہے۔ ہماری حالت اُس چور کی مانند جس نے کہا ”چوری میرا پیشہ اور نماز میرا فرض”۔
اسلامی ریاست کی دوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے ۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ ربِ کائینات کے تمام فرامین رسول اللہ ہی کے ذریعے مسلمانوں تک پہنچے۔ حضورِاکرم ۖ کا فرمان ہے ”جس نے میری اطاعت کی اُس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اُس نے خدا کی نافرمانی کی”۔ رسولِ اکرمۖ نے اپنے آخری خطبۂ حج میں فرمایا کہ مسلمان اگر قرآن وسنعت کو مضبوطی سے تھام لیں تو قیامت تک گمراہ نہیں ہوںگے۔ لیکن ہم تارکِ قرآں ہو کر پوری دنیا میں رسوا ہو گئے اور آج عالم یہ کہ ہماری دعائیں تک بارگاہِ ایزدی میں مستجاب نہیں ہوتیں۔ اسلامی ریاست کی تیسری بنیاد ”صاحبِ امر” کی اطاعت ہے۔ اِس اطاعت میں صرف سربراہِ مملکت ہی نہیں بلکہ وہ سب لوگ آتے ہیں جن کے پاس مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کی سربراہی ہو۔ صاحبِ امر کی اطاعت ہر مسلمان کا فرضِ عین لیکن شرط یہ کہ وہ حکم اللہ اور اُس کے رسول کے حکم کے برعکس نہ ہو۔ اگر حاکمِ وقت کوئی ایسا حکم نامہ جاری کرتا ہے جو اللہ اور اُس کے رسول کے احکام کے خلاف ہے تو اُس پر عمل کرنے کی مکمل ممانعت ہے۔
اسلامی ریاست کا چوتھا اصول یہ ہے کہ احکامِ الٰہی اور سنتِ رسول کو بنیادی قانون کا درجہ حاصل ہو اور متازع امور پر فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسلامی ریاست یا ”ریاستِ مدینہ” کے یہی چار بنیادی ستون ہیں۔ مختصراََ یہ کہ اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اور اسے کسی بھی دوسرے ”اِزم” سے رہنمائی لینے کی مطلق ضرورت نہیں۔ جب آقاۖ نے فرما دیا کہ قرآن وسنت کو مضبوطی سے تھامنے والا قیامت تک گمراہ نہیں ہو سکتا تو پھر ہمیں بطور مسلم کسی دوسرے ”اِزم” سے رَہنمائی کی مطلق ضرورت نہیں۔ لبرلز اور سیکولر ز کہتے ہیں کہ فی زمانہ اسلامی نظام قابلِ عمل نہیںلیکن سوال مگر یہ کہ کیا ہمیں بطور مسلم اِن لبرلز اور سیکولرز کی بات ماننی چاہیے یا اللہ اور اُس کے رسولۖ کے احکام پر عمل کرکے راہِ نجات تلاش کرنی چاہیے۔
اسلام کا بنیادی مقصد محض انفرادی طور پر ایمان لانا اور اطاعت نہیں بلکہ اجتماعی زندگی میں بھی دینِ مبیں کا نفاذ ہے۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جہاں اللہ اور اُس کے رسولۖ کے واضح احکامات ہوں، اُن سے روگردانی کرتے ہوئے آزادیٔ رائے کا استعمال کرے۔ دینِ برحق نے جتنا حقوق العباد پر زور دیا ہے، ادیانِ عالم میں اور کسی نے نہیںدیا۔ حتیٰ کہ دینِ مبیں تو غلاموں کے لیے بھی رحمت بن کر آیا۔ صحرائے عرب میںظہورِ اسلام سے پہلے عرب معاشرے میںغلاموںکی اکثریت تھی جن کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ حضورِ اکرمۖ نے دینِ مبیں کے عین مطابق اِس وحشیانہ سلوک کی نہ صرف مخالفت کی بلکہ غلاموں کو آزاد کروانے کی بھرپور کوشش بھی کی۔ سورة توبہ میں زکواة کے مصارف میں ”گردنوں کو بندِ غلامی سے رہا کرنے ” کی تلقین کی گئی ہے۔ سورة بلد میں بھی غلا می سے آزاد کروانے کو بڑانیکی کا کام بتایا گیا ہے۔
صحرائے عرب میں تین قسم کے غلام تھے۔ ایک وہ جو نسل در نسل غلام چلے آرہے تھے۔ دوسرے وہ آزاد لوگ جنہیں پکڑ کر غلام بنایا گیا اور تیسرے جنگی قیدی۔حضورِاکرم ۖ نے نسل در نسل غلاموں کو آزادی دلوانے کے لیے تلقین وترغیب اور اسلامی تعلیمات کے ذریعے مسلمانوں کو اِس بات پراُبھارا کہ نجاتِ آخرت کے لیے غلاموں کو آزاد کریں یا اپنے قصوروں کا کفارہ غلاموں کی آزادی کی صورت میںادا کریں یا پھر مالی معاوضہ لے کر چھوڑ دیں۔ آپۖ نے خود 63 غلام آزاد کیے۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے 67 غلاموں کو آزاد کیا، عبداللہ بن عمر نے 1000 اور عبد الرحمٰن بن عوف نے 30 ہزار غلاموں کو آزاد کیا۔ غلاموں کو آزاد کروانے میں حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عثمان بہت ممتاز تھے۔ خلفائے راشدین کا زمانہ ختم ہونے سے پہلے نسل در نسل غلامی کا تقریباََ خاتمہ ہو چکا تھااور سبھی غلال آزاد ہو چکے تھے۔ا زاد آدمی کو پکڑ کر غلام بنانا تو اسلام میں قطعاََ حرام ہے البتہ جنگی قیدیوں کو صرف اُسی صورت میں غلام بنا کر رکھنے کی اجازت ہے جب دشمن حکومت جنگی قیدیوں کے تبادلے پر راضی نہ ہو۔ اِن غلاموں کو بھی نسل در نسل غلاموں کی طرح رضائے الٰہی، نجاتِ آخرت اور اپنے قصوروں کے کفارے کے طور پر آزاد کیا جا سکتا ہے۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جو دینِ برحق غلاموں کے لیے شفقتوں سے بھرا ہو، اُس کا دورِحاضر کی جمہوریت کیسے مقابلہ کر سکتی ہے۔ ہم جس جمہوری دَورسے گزر رہے ہیں، اُس میں حقوق العباد کی مطلق پرواہ نہیں کی جاتی۔ کہنے کو تو جمہوریت کا مقصد عوام کی حکومت عوام کے لیے اور عوام پر ہے لیکن جمہور کی آواز صدا بصحرا۔ ان حالات میں ریاستِ مدینہ کے خواب کی تعبیر ناممکن، ہو سکتا ہے کہ کل کلاں اِس پر بھی یو ٹرن لے لیا جائے۔