جمعیت (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمن بڑے تزک و احتشام کے ساتھ اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کا اعلان فرمارہے ہیں اوراس کے لئے بھر پور تیاری بھی نظر آرہی ہے جمعیت کے کارکن آزادی مارچ کے بعد طویل دھرنے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں اور دھرنے کی کامیابی کیلئے مختلف اضلاع میں ریہرسل جاری ہے اور ایک طرح سے جنگی مشقیں شروع ہیں حکومتی رکاوٹوں سے نبرد آزما ہونے اور ممکنہ طور پر زمینی راستے بند ہونے کی صورت میں دریائی راستے اختیار کرنے کا آپشن بھی زیر غور ہے اس کیلئے چند روز قبل جمعیت کے کارکنوں نے دریائے سندھ کے مختلف مقامات سے کشتیوں کے ذریعے اٹک اور راولپنڈی پہنچنے کی ریہرسل کرنے کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ جمعیت کا آزادی مارچ ہر طرف زیر بحث ہے ملکی وغیرملکی میڈیا پر آزادی مارچ کے چرچے ہیں بھارتی میڈیا بھی آزادی مارچ کو کافی اہمیت دے رہا ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جب سے آزادی مارچ کا قصہ شروع ہوا تب سے مسئلہ کشمیر پس پشت چلا گیا ہے اب کشمیر کا تذکرہ یا تبصرہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا ہوسکتا ہے مولانا کے آزادی مارچ سے خوفزدہ ہوکر بھارت نے مقبوضہ کشمیر خالی کردیا ہو لیکن اس حوالے سے ابھی تک راوی خاموش ہے۔
بطور ایک دینی کارکن کسی بھی دینی سیاسی تحریک کی کامیابی ہدیرینہ خواہش رہی ہے اور آج بھی ہماری خواہش ہے کہ دینی سیاسی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوں اور پاکستان اپنے اساسی مقصد کو پالے لہذا ہماری تمام تر ہمدردیاں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ہیں اور جمعیت (ف) کی کامیابی کیلئے دعا گو ہیں جہاں تک آزادی مارچ یا دھرنے کا تعلق ہے ہماری ناقص رائے میں تمام دینی طبقات کو بالعموم اور جمعیت (ف) کے راہنماؤں کو بالخصوص اس پروگرام کے حوالے سے اپنی توقعات اور خدشات کا ایک بارپھر جائزہ لینا چاہئے اصولی طورپر جمعیت کے راہنماؤں کی توقعات اچھا خواب ہے اور اچھا خواب دیکھنے سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا کیونکہ حقیقت پہلے ایک خواب ہوتی ہے محنت اور لگن سے اسے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے جب دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنے خواب دیکھنے اور ان کی عملی تعبیر پانے کا حق حاصل ہے تو دینی سیاسی جماعتوں کو بھی اس کا پورا پورا حق ہے مگر برا ہو گورے کا وہ ایسا سسٹم بناگیا کہ دینی کارکن کا راستہ بہرصورت روکاجائے چنانچہ اکبر الہ بادی مرحوم تو بہت پہلے کہہ گئے رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں زمانہ اب بھی وہی ہے اس میں بہتری نہیں آئی
جہاں تک جمعیت کی توقعات کی بات ہے تو کہا یہ جارہا ھے کہ آزادی مارچ یا دھرنہ حکومت کے خاتمے پر منتج ہوگا اور اب تک سامنے آنے والے مطالبات میں سرفہرست یہی مطالبہ ہے کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں حکومت ختم کی جائے نئے انتخابات کا اعلان کیا جائے یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن صاحب یہ مطالبہ کس سے کر رہے ہیں؟ جس حکومت کو مولانا جائزہی نہیں سمجھتے اس حکومت سے یہ مطالبہ جائز ہے؟ اگر حکومت سے مطالبہ نہیں کیا جارہا تو دوسری طاقت فوج ہے تو فوج سے اس طرح کا مطالبہ 73 کے آئین کے تناظر میں جائز ہے؟ سیاسی معاملات میں فوجی مداخلت کاجوازپیدا کرنا قانونی طور پر درست ہے؟
مولانا کا بظاہر یہی مؤقف رہا ہے کہ فوج کو سیاست سے پاک رکھا جائے سو مولاناکی تحریک کی صورت میں فوج سیاست سے بالکل علیحدہ ہوجائیگی یا فوجی مداخت میں اضافہ ہوگا؟ اگر فوجی مداخت میں اضافہ ہوا تو کیا یہ مولانا کے اپنے مؤقف کی شکست نہیں ہوگی؟اگر مولانا کی تحریک کامیاب ہوجاتی ہے اور ایک مطالبہ پورا جاتا ہے اور وزیراعظم اپنے عہدیسے استعفیٰ دے دیتے ہیں تب بھی وزیراعظم تحریک انصاف سے ہی ہوگا (مبینہ طور پر وہ شخصیت شاہ محمود قریشی کی ہوسکتی ہے اور بعض حلقے تو یہ دعویٰ بھی کر رہے ہیں کہ شاہ محمود قریشی آجکل شیروانی پہننے کی ریہرسل کر رہے ہیں اور دسمبر تک شاید شیروانی زیب تن بھی فرمالیں دروغ بر گردن راوی)اس صورت میں چہرہ ہی بدلے گا جبکہ ہم تو چہرے کی بجائے نظام بدلنے کے خواہاں ہیں ہم بدلنا چاہتے تھے نظم وضبط میخانہ تمامتم نے بدلا ہے صرف میخانے کا نام تو چہرہ بدلنے سے کیاکامیابی حاصل ہوگی قیام پاکستان سے لیکرآج تک چہرے ہی بدلے ہیں سسٹم تو مزید بگڑا ہے ایک چہرہ اور بدلنے سے سسٹم میں مزید خرابی ہی ہوگی۔
اور فرض کیجئے مولانا کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوجائے وزیراعظم مستعفیٰ ہوجائیں اور پی ٹی آئی حکومت بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے تو کیا مولانا وزیراعظم بن جائیں گے۔مولانا کے فرزند ارجمند وزیراعظم بن جائیں گے جمعیت کا کوئی رکن پارلیمنٹ وزیراعظم بن جائے گا؟ کیا زرداری نواز شریف مولانا کو یا انکے نمائندے کو وزیر اعظم تسلیم کرلیں گے؟کیا ماضی کا تجربہ مولانا کے سامنے نہیں جب وزارت عظمی میز پر رکھی تھی مگر پی پی نے دھوکہ دیا اور بقول مولاناصاحب مغرب آڑے آگیا ہماری پگڑی اور ڈاڑھی وزارت عظمی کے حصول میں رکاوٹ بن گئی کیا اب مغرب مولانا کو ڈاڑھی پگڑی کے بغیر دیکھے گا ۔کیا 2002 والی ڈاڑھی پگڑی بدل چکی ہے یا مغرب کا رویہ بدل گیا؟
ہمارے خیال میں کچھ بھی نہیں بدلا مغرب بھی وہی ہے اور مولانا کی ڈاڑھی پگڑی بھی وہی ہے سیاست بھی وہی ہے اور میدان سیاست بھی وہی ہے چہرے بدل گئے مگر نظام اب بھی وہی ہے لہذا جو مغرب 65 نشستوں والے مولانا کو برداشت نہیں کرتا وہ 16 نشستوں والے مولانا کو کب قبول کرے گا؟ جس مغرب نے چھ جماعتی اتحاد (ایم ایم اے) کو کنارے لگادیا وہ مغرب یک جماعتی تحریک (فقط جمعیت ف) کو کیسے گوارا کرے گا؟اور اگر مولانا کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں پی پی یا ن لیگ کی حکومت آگئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ کیا آزمائے ہوئے کوآزماناعقلمندی ہے؟ کیا ان دونوں پارٹیوں کی حکومت میں پاکستان امن کا گہوارہ تھا؟ کیا ان دونوں پارٹیوں نے اسلامی نظام نافذ کیا تھا یا سودی نظام کی حمایت کی تھی؟ سودی نظام کے خاتمے کے فیصلے کے خلاف سٹے آرڈر حاصل کیاتھا کس حکمران نے مسجد مندر خدا بھگوان عید اور ہولی کو برابر قراردیا تھا؟ قادیانیوں کو تحفظ دیاتھا اسلام آباد کی یونیورسٹی کا شعبہ فزکس قادیانی کے نام منسوب کیا تھااور قادیانیوں کو اپنے بھاء قرار دیا تھا مساجد مدارس کو نشان عبرت بنایاتھا قربانی کی کھالیں جمع کرنے پر پابندی اور چیرٹی ایکٹ نامی ظالمانہ قانون کے ذریعے مدارس کا معاشی قتل کیا تھا علماء خطباء کو فورتھ شیڈول میں ڈالا تھا دینی کارکنوں کا جینا دوبھرکیاتھا توان پارٹیوں کی حکومت قائم ہونے کی صورت میں کیا مولانا کاایجنڈاپورا ہوگا؟ اور اگر نئے انتخابات کا اعلان ہوجائے تو کیا مولانا حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہونگے اور اگر مارشل لاء آگیا تو قوم کو کیا جواب دیا جائے گا؟
مارشل لاء بذات خودایک سنگین جرم ہے اس جرم کا باعث کون ہوگا اور مدتوں بدنامی کا داغ کس کے سرہوگامولانا کی طرف سے موجودہ حکومت کومسلط کی گئی حکومت قرار دیاجارہا ہے مگر مسلط کرنے والوں کا نام کھلے الفاظ میں کیوں نہیں لیاجاتا؟جرات کا مظاہرہ کرکے ان قوتوں کا نام لیتے ہوئے یہ بھی وضاحت فرمائیں کہ کیا صرف موجودہ حکومت ہی مسلط کی ہوئی ہے باقی حکومتیں شفاف تھیں؟ مولانا کی طرف سے ایک الزام بدترین دھاندلی کا بھی ہے اس الزام سے صرف نظر نہیں کیاجاسکتا مگر سوال یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ کا وہ کون سا الیکشن ہے جس کو مولانا شفاف قرار دیتے ھیں؟ کیا 2002 کا الیکشن شفاف تھا جسمیں ایم ایم نے ساٹھ سے زائد نشستیں حاصل کیں کیا 2008 اور 2013 کے الیکشن شفاف تھے جن کے بعد مولانادونوں حکومتوں کا حصہ رہے حالانکہ 2008 اور2013 کے الیکشن میں مولانا کی جماعت کی ایوان میں نمائندگی آج کی بہ نسبت کم تھی پھر عجیب مخمصہ یہ بھی ھے کہ ملک کے اکثر حلقوں میں پی پی ن لیگ نے ایک دوسرے کوشکست دی جبکہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں جمعیت اور قوم پرستوں نے ایک دوسرے کو شکست دی تو وھاں کس نے کس کے خلاف دھاندلی کی؟ اب یہ تو ممکن نہیں کہ جہاں کسی کو شکست ھوء وھاں دھاندلی اورجہاں جیت ھوء وھاں شفاف الیکشن؟ جن جماعتوں کو الیکشن کے نتائج پر اعتراض ھے اور وھاں مقابلہ اپوزیش جماعتوں کے امیدواران میں تھا توحق یہ تھا کہ اور کچھ نہیں تو کم سے کم جذبہ خیر سگالی کے تحت ھی سہی مگر ان نشستوں سے کامیاب امیدوار استعفی دیتے مگر افسوس ایسا بھی نہ ہوا خیر اگر مولاناکی تحریک اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہوتی تو نتیجہ کیا ہوگا برصغیر میں برپا ہونے والی دینی تحریکات اور ان کے نتائج سب کے سامنے ہیں تحریک بالاکوٹ کے ابتداء نتائج حوصلہ افزاء تھے مگر نتیجہ کیا ہوا؟
جنگ آزادی کے شروع میں شاملی کی تحصیل ہاتھ آء مگر نتیجہ کیا ہوا؟تحریک ریشمی رومال میں کیا ھوا؟اگر مذکورہ بالا تحریکات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات سب تحریکات میں مشترک تھی کہ اپنا ایک ہاتھ دشمنوں کے ساتھ تھا ہر تحریک میں گھر کے بھیدی لنکا ڈھاتے رہے اب بھی کچھ نہیں بدلا نیز مولانا کی تحریک کی عدم کامیابی کی صورت میں حالات کسی کے قابو میں نہیں رھیں گے اور خاکم بدھن ہم صدیوں پیچھے چلے جائیں گے اس موقع پر مولانا اور انکی جماعت کی خدمت میں وہ درخواست پیش کرنیکی جسارت کروں گا جو لال مسجد قضیہ کے وقت مولانا کا مؤقف تھا کہ یہ تحریک تو کامیاب نہیں ہوگی البتہ دینی قوتوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا مولانا کا مؤقف بالکل درست تھا اور وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ہم بھی مولانا سے یہی درخواست کریں گے کہ آپ کی تحریک کی ناکامی کی صورت میں دینی قوتوں کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا اور دینی کارکن صدیوں پیچھے چلے جائیں گے ہماری وھی درخواست ھے جو عمران خان کے دھرنے کے دنوں مولانا کا مؤقف تھا اور درست مؤقف تھا کہ معاملات کے حل کی جگہ ڈی چوک نہیں پارلیمنٹ ہے معاملات چوکوں چوراھوں کی بجا? اسمبلی میں حل کئے جائیں ھماری یہ بھی گذارش ھے کہ دینی قوتوں کو کسی کا آلہ کارنہیں بننا چاہئے نہ ایجنسیوں کا نہ نواز شریف اور زرداری کا اور نہ کسی کی جنگ لڑنی چاچاہئے نہ کسی کو اپنا کندھا پیش کرنا چاہئے اس وقت واقعی حکومت دباؤ میں ہے اس دباؤ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسلامی نظام کے نفاذ 73 کے آئین کے مکمل نفاذ کا مطالبہ کرنا چاھیے سودی نظام سے چھٹکارے وفاقی شرعی عدالت کی بحالی اسلامی نظریاتی کونسل کی قرار دادوں پر عمل در آمد کامطالبہ کرناچاھیے اگر حکومت انمیں سے کچھ مان لے تو یہ اہم کامیابی ہے۔
اور اس نکتے پر بھی غور کرنا چاہئے کہ مولانا کی تحریک کے اعلان سے مسئلہ کشمیر کے پس منظر میں چلے جانے سے کتنا نقصان ہوگا اور کیا اس تأثر کو تقویت نہیں ملے گی کہ مولانا اور انکی جماعت تحریک کشمیر کے دشمن ہیں اسی طرح یہ بھی سوچنا ھوگا کہ پاکستان کے بدترین دشمن بھارت کے تمام ٹی وی چینلز کا مولانا کو اہمیت دینا اور ان کے پروگرام مسلسل نشرکرنا اور ایک ھیرو کے طور پر پیش کرنا بات کو کس طرف لیکران حالات کے پیش نظر مناسب یہی ہے کہ مولانا اپنی مجوزہ تحریک کی کال واپس لیں اور اپنی تمام توانائیاں کشمیر کی آزادی اور استحکام پاکستان کیلئے وقف کردیں اور اگر مولانا آزادی مارچ اور دھرنے پر بضد ہیں تو پھر آخری گذارش ہے کہ حضرت اقدس مفتی محمدرفیع عثمانی صاحب مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مفتی زر ولی خان صاحب ودیگر اکابر علماء کاتحریری فتوی اپنی حالیہ تحریک اور دھرنے کی حمایت میں جاری کروادیں کیونکہ جب یہ شرعی معاملہ ہے تو یہ حضرات شریعت کو آپ سے بہتر جانتے ہیں اور اگرآپ یہ نہیں کرسکتے تو خدارا خدا را دین اور دین داروں کا امتحان نہ لیں آپ تو کل کسی صاحب اقتدار کے شراکت دار بن جائیں گے مگر عام مولوی پٹ جائے گا پس جائے گامساجد مدارس کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور لمحوں کی خطا ئیں صدیوں کے نقصان کا باعث بنے گی۔