ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) تُرک صدر رجب طیب اردوآن نے شمال مشرقی شام میں اپنے فوجی آپریشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے یہ صحرائی علاقہ کردوں کے لیے نہیں بلکہ عربوں کی رہائش کے لیے ہے۔ وہ یہ بھول گئے کہ ترکی فوجی آپریشن کے نتیجے میں ہزراوں کرد شہری جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد تھی نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
اردوآن نے ہفتے کے روز اپنے ریمارکس میں کہا کہ کرد عسکریت پسندوں نے انخلا کے دورانیے کے بعد اگر وہ شام کے محفوظ علاقے میں دکھائی دیں تو ترکی ان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ ان کا یہ بیان ترکی کے ‘ٹی آر ٹی’ ٹی وی چینل ہر نشر کیا گیا۔
شام کی کرد ڈٰیموکریٹک فورسز نے جمعرات کے روز ترک جارحیت روکنے کے بدلے، شمالی شام کے علاقوں سے دستبرداری کے روسی پیش کش کو مسترد کردیا تھا۔
انسانی حقوق کی آبزرویٹری نے کہا کہ “ایس ڈی ایف” کی قیادت نے روسی فوج کی جانب سے اپنی فوج کو سرحد سے دستبردار کرنے یا ترکی کے حملے کا راستہ کھولنے کی پیش کش کو مسترد کردیا ہے۔ کرد حکام کا کہنا ہے کہ ترکی کی دراندازی اور شام میں قبضہ ناقابل قبول ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شمالی شام میں ترکی اور روس کا معاہدہ بھی ناقابل قبول ہے۔ روس جیسے ایک بڑے ملک کے لیے اس طرح کی سودے بازی مناسب نہیں۔
کرد فورسز نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کے عناصر ہر قیمت پر سرحد اور شام کے عوام کا دفاع کرنے کے لیے تیار رہیں گے۔
انٹر فیکس نیوز ایجنسی کے مطابق ، جمعرات کے روز روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ورشینن نے کہا تھا کہ کرد فورسز نے ترکی کی سرحد کے قریب شام کے علاقوں سے انخلا شروع کر دیا ہے۔
روسی انفارمیشن ایجنسی نے وزارت دفاع کے ایک ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ماسکو ایک ہفتے کے اندر مزید 276 فوجی پولیس اور 33 یونٹ فوجی سازوسامان شام بھیجے گا۔
ماسکو کے اعلان کے مطابق روسی ملٹری پولیس کی تعیناتی بدھ کے روز ، شام کی شمال مشرقی سرحد پر ترکی کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت کرد جنگجوؤں کو خطے سے ہٹانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
شامی ڈیموکریٹک فورسز کے کمانڈر مظلوم عبدی نے جمعرات کے روز اعلان کیا ہے کہ ترکوں نے فوجی کارروائیوں کے خاتمے کے اعلان کے باوجود راس العین کے مشرقی محاذ پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عبدی نے جنگ بندی کے ضامن (روس اور امریکا) سے ترکی کو جنگ بندی پرقائم رکھنے کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس اور امریکا کو شمالی شام میں ترک فوج کی کارروائیوں کی روک تھام کے لیے اپنی ذمہ داری پوری کرنا ہوگی۔
ایک بیان میں ، ایس ڈی ایف نے امریکا سے بھی اس جارحیت کو روکنے کے لئے مداخلت کرنے پر زور دیا۔ اس بات پر زور دیا کہ ترکی اور اس کے پراکسی اب بھی شمالی شام میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔