میاں نواز شریف کی خرابی صحت اور مولانا کے آزادی مارچ کی خبروں کی گرما گرمی کے دوران ہفتے کے روز جمعیت علما اسلام (ف) کے سابق سینیٹر حافظ حمد اللہ کے حوالے سے انتہائی حیران کن اورسنسنی خیزخبرسننے کو ملی جس کے مطابق نادر ہ کی جانب سے حافظ حمد اللہ کو غیر ملکی شہری قرار دیتے ہوئے ان کا قومی شناختی کارڈ منسوخ اورضبط کر نے کے ساتھ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے الیکٹرونکس میڈیاکوحافظ حمداللہ کوکسی بھی قسم کی کوریج دینے سے روک دیاگیا،آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس خبر میں حیران کن بات کیاہے؟حیران کن،عجیب اورتشویشناک بات یہ ہے کہ ایک ایساشخص جوپاکستان کی ایک صوبائی اسمبلی کاسابق رکن اورسابق سینیٹراور سینیٹ کی کئی قایمہ کمیٹیوں کاسربراہ یاممبررہ چکاہے وہ پاکستان کاشہری ہی نہیں،اس سے بھی زیادہ قابل فکر،قابل ذکراورغورباتیں یہ ہیں کہ ایک غیرملکی کونادرہ نے قومی شناختی کارڈکیوں اورکیسے دیا؟ایک غیرملکی کوالیکشن کمیشن آف پاکستان نے صوبائی اسمبلی اورپھرسینیٹ کے الیکشن لڑنے کی اجازت کیسے اورکیوں دی؟اب نادرہ نے حافظ حمداللہ کوغیرملکی شہری قراردے کراُن کاشناختی کارمنسوخ اورضبظ کرلیاہے توپھرانہیں گرفتارکرکے تحقیقات کرنے کی بجائے صرف میڈیاکوکوریج دینے سے روکنے کاکیامطلب ہے؟ہفتے کے روزشہباز شریف کی جانب سے دائر کردہ درخواست پرہفتے کے ہی روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سماعت کی۔
تفصیلی سماعت کے بعد میاں نوازشریف کواسلام آبادہائی کورٹ سے العزیزیہ کیس میں طبی بنیادوں پر منگل تک عبوری ضمانت مل گئی،دوران سماعت سیکرٹری داخلہ پنجاب کا کہنا تھا کہ طبی بنیاد پر دائر درخواست کی ذمہ داری ہم نہیں لے سکتے،ہم نوازشریف کی صحت کی ذمہ داری نہیں لیتے عدالت میرٹ پر فیصلہ کرے، جسٹس اطہرمن اللہ نے پنجاب حکومت کے نمائندے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میڈیکل بورڈآپ کا ہے ،میاں نوازشریف کے علاج کی ذمہ داری آپ کی ہے،آپ ہاں یا ناں میںجواب دیں،آپ مخالفت کرتے ہیں تو درخواست ضمانت مسترد کر دیتے،عدالت معاملات کی ذمہ دار نہیں ہو گی، مخالفت کی صورت میںنواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو حکومت ذمہ دار ہوگی،جب حکومتی نمائندوں نے کسی قسم کی ذمہ داری قبول نہ کی تومعززعدالت نے منگل تک میاں نوازشریف کو طبی بنیادوں پرضمانت منظورکرتے ہوئے رہاکرنے کے احکامات جاری کردیئے،اس فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کی فیملی اوردیگراحباب جہاں اورجیسے چاہیں اپنی مرضی کے ڈاکٹرزسے اُن کاعلاج کرواسکتے ہیں اوراللہ نہ کرے اس دوران میاں نوازشریف کی صحت زیادہ خراب ہوتی ہے تواُن کی فیملی اورحمایتی عدالت یاانتظامیہ کوذمہ دارنہیں ٹھہراسکیں گے۔
دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے طلب کیے گئے اینکرز پرسنز کو روسٹرم پر بلاکر کہا کہ بڑی معذرت کے ساتھ اینکرز کو بلایا ہے،اینکرز اپنے تحریری جواب داخل کرائیں،جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ افسوس ہوتا ہے جب آپ ڈیل سے متعلق بات کرتے ہیں،بہت تحمل کا مظاہرہ کیا گیا جب ڈیل کی باتیں کی گئیں،اس سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے،کیس بعد میں آتا ہے میڈیا ٹرائل پہلے ہو جاتا ہے،سوشل میڈیا پر ججز کا ٹرائل کیا جاتا ہے،عدلیہ ایک معتبر ادارہ ہے۔
قانون کے مطابق سیاسی کیسز سنتے ہیں،جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا ججز اپنے حلف کے پابند نہیں رہے؟ ججز کسی کے قابل رسائی نہیں،عدلیہ ایک ادارہ ہے،ہم اپنے حلف کی پاسداری کریں گے،کیاادارے ڈیل کا حصہ ہیں؟محترم اورمعززچیف جسٹس اسلام آبادہائی کورٹ کی خدمت میں عرض ہے کہ جس طرح عدلیہ معتبرادارہ ہے اسی طرح میڈیابھی ذمہ داراورمعتبرادارہ ہے،جس طرح میڈیامیں کچھ ناقص لوگ پائے جاتے ہیں اسی طرح عدلیہ میں بھی پائے جاتے ہیں،عدلیہ معتبراورمعززادارہ ہے لہٰذاصرف مثال کے طورپرکہناچاہتاہوں کہ جج ارشد ملک نے دوران سماعت ملزم مقدمہ اوراس کے عزیزواقارب کے ساتھ ملاقاتیں کرکے کس حلف کی پاسداری کی؟اورپھرکب کس کی صحت بگڑجائے اس بات کی ذمہ داری کوئی کس طرح لے سکتا؟بیماری،صحت،زندگی اورموت اللہ تعالیٰ کے اختیارمیں ہے لہٰذاکوئی کسی کی ذمہ داری نہیں لے سکتا،میاں نوازشریف بیمارہیں یاڈیل ہورہی ہے دونوں صورتوںمیںمعززعدلیہ کاکردار آئین اورقانون کے مطابق ہونا چاہیے۔
یادرہے کہ کسی قسم کی ڈیل یا طبی بنیادوں پرملنے والابڑے سے بڑاریلیف بھی میاںنوازشریف کو بے گناہ ثابت نہیں کرسکتا،مجھے یہ کہتے ہوئے کسی قسم کی جھجک یاخوف نہیں کہ میڈیابھی ریاست کااہم ترین ستون اورمعتبرادارہ ہے جس کے ورکرز لمحہ بہ لمحہ عوام کوباخبررکھنے کی کوشش کرتے ہیں،بھوکے،پیاسے،رات،دن انتہائی کم وسائل میں کام کرتے ہیں،کتنے افسوس کی بات ہے کہ میڈیاوالے بااختیارحکمران طبقے کے قصیدے پڑھیں اورلکھیں توٹھیک بصورت دیگرمیڈیاوالوں کوذبح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے،جج کرسی انصاف پربیٹھ کرسیاست کرے توٹھیک،سیاستدان کرپشن کرے،اختیارات کاغلط استعمال کرے توٹھیک ہے پرمیڈیاوالے عوام کوباخبرکریں تو مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں،کیونکہ حکمران طبقہ مقدس گائے ہے لہٰذا جج جومرضی کرتارہے،سیاستدان جوچاہیے گل کھلائیں بس میڈیاپرتبصرے نہیں ہونے چاہیے،میڈیاوالے یہ نہ بولیں،وہ نہ لکھیں،وہ ،وہ نشرکرنے پرپابندی ہے ،یہ ،یہ وہ،وہ اوربہت کچھ ملک وقوم کے وسیع ترمفادکومدنظررکھیں تولکھنایابیان کرنامناسب نہیں توپھربتایاجائے میڈیاکیالکھے؟کیابیان کرے؟کیانشرکرے؟کیامیڈیافقط بادشاہ کاقصیدہ لکھے؟بیان اورنشرکرے؟ایساہے توپھرہمیں کنفرم بتایاجائے کہ بادشاہ کون یاکون کون ہے؟
میڈیا کیلئے ہرایرے گیرے نتھوخیرے کی قصیدہ گوئی کرناتو ممکن نہیں،حقیقت میں بادشاہ کون ہے وہ کھل کرسامنے آئے تاکہ میڈیاکے ساتھ عوام کیلئے بھی سمجھنے میں آسانی ہوکہ ان پرحاکمیت کس کی ہے،خوراک کی کمی،کتے کے کاٹے کی ویکسین نہ ملنے،ماڈل ٹاون،بلدیہ ٹاون،ساہیوال جیسے سانحات سمیت دیگربدانتظامیوںکاشکاراورپھرانصاف کی تلاش میں سسک سسک کر،ایڑیاں رگڑرگڑکرمرنے والے غریب پاکستانیوں کی ذمہ داری لینے کیلئے کوئی ایک بھی تیارنہیں جبکہ دعویٰ حکمرانی بہت سارے کرتے ہیں،عوام نہیں سمجھ سکتے کہ اس ملک میں کیاچل رہاہے لہٰذابہتر یہی ہے کہ عوام کرپشن،دھوکہ دہی،مہنگائی،بیروزگاری ،غربت یاناانصافی کاشکوہ کرنے کی بجائے اللہ پاک کاشکراداکریں کہ انہیں اللہ تعالی نے حکمران طقبے کی طرح دنیاکی تمام بیماریوں میں مبتلانہیں کیا،اللہ تعالی ہم سب پررحم فرمائے،میاں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹوں کے مطابق انہیں دل،گردوں سمیت درجن کے قریب دیگربیماریاں لاحق ہیںکچھ اسی قسم کی رپورٹس سابق صدرآصف زرداری کی صحت کے متعلق بھی سامنے آرہی ہیں۔
اللہ نہ کرے کہ حسب روایت موجودہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعدانہیں بھی اسی قسم کی بیماریاں لاحق ہوں،ہماری دعاہے کہ اللہ تعالیٰ میاں نوازشریف اورآصف زرداری سمیت سب بیماروں کوتندرستی اورصحت والی لمبی عمرعطافرمائے اورملک پاکستان کے غریب عوام کواہل حکمران اورعادل عطافرمائے ،اورہاں حافظ حمد اللہ پاکستانی شہری نہیں توصرف قومی شناختی کارکی منسوخی،ضبطی یامیڈیاپابندیاں کافی نہیں اُن کیخلاف موثرکارروائی کرکے حقائق منظرعام پر لائے جائیں،حافظ حمداللہ کیخلاف کی جانے والی کارروائی جے یوآئی ف کے احتجاج کوکمزورکرنے کیلئے کی گئی ہے تویہ انتہائی سنگین اورناقابل برداشت مذاق ہے،اورہاں یہ بھی یادرہے کہ عدلیہ کی طرح میڈیابھی معتبرادارہ ہے جب میڈیاپربلاوجہ تنقید کی جاتی ہے توہمیں بھی بہت تکلیف ہوتی ہے،کون کس کے ساتھ کب ڈیل کرتاہے یہ میڈیاکی ذمہ داری نہیں البتہ حالات واقعات بیان کرنا میڈیا کا فرض ہے!