پاکستان میں رینٹ اے دھرنے اور عوامی اجتماع ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں اور ان دنوں بھی ایک سپانسر ڈمارچ کا زووشور ہے ۔آزاد ی مارچ کا مژدا سنانے والے قوم کو اپنا ایجنڈا بتانے سے قاصر ہیں۔جوایجنڈے کے ساتھ میدان میں آتے ہیں وہ اپنے ہاتھوں میں ڈنڈے نہیں اٹھاتے۔
احباب یار مولانافضل الرحمن کو پاکستان کی سیاست کا تھینک ٹینک سمجھتے ہیں ۔مولانا کی سیاست میں مفاہمت کا ہمیشہ گہرا کردار رہا ہے ۔موصوف نے ہمیشہ ارض پاک کی دو بڑی پارٹیوں پی پی پی اورمسلم لیگ ن کے درمیان پل کا کردار ادا کیا۔اپنے اس کردار کی وجہ سے وہ ہمیشہ مقتدر حکومت کی ٹیم کا حصہ رہے ۔گزشتہ تین دہائیوں میں ایسا پہلا بار ہوا کہ مولانا شعوری جنون کو شکست نہ دے سکے ۔ اس شکست نے مولانا کو دو بڑے محاذوں سے محروم کیا ،کشمیرکمیٹی کی قیادت اورنیشنل اسمبلی کی رکنیت۔مولانا کے لیے 2018کا الیکشن سرپرائز تھا۔اس سرپرائزنگ شکست کا بدلہ لینے کے لیے مولانانے انصافیوں اور مقتدر قوتوں کو سبق سکھانے کا ارادہ کیا ،یہ ارادہ فطری تھا کیونکہ وہ اقتدار کے بنے پکوان سے کھیر اورمٹن کڑاہی کا ایک نوالا بھی نہیں لے سکتے ۔بادی النظر میں اسے مقتد ر حکومت کی ضد اورکنجوسی سمجھا جائے گا۔
جہاں مل بانٹ کر کھانے کا رواج ہو ،وہاں اس ارادی عمل کو اُوچھی حرکت تصور کیا جائے گا۔پھر ضد کی بھی حد ہوتی ہے کہ کھائیں گے کھانے نہیں دیں گے تو انتہائی غصہ دلانے والی بات ہے ۔مولانا نے جنونی شعور کو سبق سکھانے کی ٹھانی اور حضرت میاں محمد نواز شریف اورقبلہ آصف علی زرداری کو مشور دیا کہ اسمبلیوں سے مستعفی ہوجانا چاہیے ۔دونوں نے آستینیں چڑھا کر کہا کہ نا نا مولانا بچا ہی کیا ہے کھونے کو! اب ہم ایسا نہیں کرسکتے ؟ گزشتہ روز میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ مولانا نے استعفیٰ کی بات جسے رد کیاگیا اب دھرنے اور آزادی مارچ میں شمولیت کو یقینی بنایا جائے گااس کے لیے شہباز شریف کو خط لکھ دیا گیا ہے ۔مولانا کا آزادی مارچ یا دھرنا اتنی اہمیت کا حامل نہیں تھا جتنا حکومتی وزراء نے کردیا ہے ۔مولانا کی طرف سے آئے غیر ضروری اعلانات پھر وزراء کا ضروری ردِ عمل معاملہ سنجید ہونے لگا ہے ۔مولاناازخود کشمکش میں تھے بلاول زرداری اپنی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں انہیں ڈر ہے کہ کہیں مولوی دھرنے پر ہی نہ بیٹھ جائیں اور مغرب میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے ۔شیخ رشید نے گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں کہا مولانا فضل الرحمن فیس سیونگ چاہتے ہیں کچھ نہیں ہونے والا ،بین الاقوامی ادارہ عمران خان حکومت کے متعلق کہہ چکا ہے کہ 2020میں مہنگائی بڑھنے کا اور 2021میں مہنگائی کی شرح کم ہوکر 5فیصد پر آنے کا امکان ہے ۔وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ معاشی اشاریوں میں بہتری کی نوید سنا چکے ہیں ۔
دنیا کی ہرقوم اپنے اپنے ماضی سے سبق سیکھتی ہے مگر افسوس کے ساتھ ہماری جمہوری قیادت نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا ماسوائے ذاتی مفادات کو مضبوط کرنے کے ۔وطن عزیز پر جمہوری قوتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی ۔قیام پاکستان کے آغاز اور لیاقت علی خان سے لے کر وزیراعظم عمران خان تک سبھی نے دھرنوں اورمفادات کی سیاست کو پروان چڑھایا ۔قیام پاکستان کے بعد ملک کے اندر جو قائد نے منشور دیا اس پر سیاستدان چلنے کے بجائے مفادوں کے راستوں پر چلنے لگے وہ مفاد جو آج جنگ کی صورت اختیار کرچکے ہیں، جناح کی رحلت کے بعد برابری کی بنیاد کا فارمولہ بھی اسی وقت دم توڑگیا تھا، جس کے بعد ذاتی مفادوں کی جنگ شروع ہوگئی جو ابھی تک جاری ہے۔زرداری دور میں قبلہ شہباز شریف مینارِپاکستان پر جھنڈیاں لہرایا کرتے اور گھسیٹنے اورپائی پائی کا حساب لینے کا دعویٰ کرتے ۔مگر جیسے ہی وفاق میں اقتدار ملا تودوستی کی پینگیں ڈال لیں ،مفادات کو فروغ کے لیے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔میاں برادران اقتدار میں آئے تو قبلہ زرداری گھسیٹنے کی باتیں کرتے اورجناب عمران خان اپنے جنون کو لے کر لاک ڈائوں ،دھرنوں ،ریلیوں کی سیاست کرتے رہے اوردھرنا کرنے والوں سے نالاں ہیں ۔
ملک کا نصیب سیاستدانوں کے ہاتھوں میں آگیا ہے، سیاستدانوں کو ذاتی مفادات کی جنگ ختم کرکے ملک کا نصیب بنانا ہوگا، جیسے باباجی اشفاق احمدخان نے کہا ہے کہ زندگی میں کوئی خوشی، کوئی رشتہ، کوئی جذبہ کبھی مستقل نہیں ہوتا، ان کے پاؤں ہوتے ہیں ہمارا سلوک اور رویہ دیکھ کے کبھی یہ بھاگ کر قریب آجاتے ہیں اور کبھی آہستہ آہستہ دور چلے جاتے ہیں، اس لیے سیاست دانوں کو خوشحال پاکستان کے لیے اقدامات اٹھانے ہونگے،ان دنوں وزیراعظم عمران خان مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے سہولت کار کاکردار ادا کررہے ہیں جو خطے کے لیے امن کے لیے انتہائی مفید ہوگا ۔عمران خان چین کا اورچین بھارت،روس سعودی عرب کا،پاکستان ایران اورسعودی عرب کا رجب طیب روس جارہے ہیں بعدازاں پاکستان کا دورہ یقینی ہے ۔بین الاقوامی معاملات میں پاکستان کا کلیدی کردار روشن ہورہا ہے اورنریندرمودی اپنی اُوچھی حرکات کی وجہ سے تنہائی کا شکا ر ہورہی ہے ایسے حالات میں دھرنوں کی سیاست پاکستان کے مثبت کردار اورمعاشی اشاریوں کے لیے نقصان دہ ہوگی ۔
دھرنوں کی سیاست کو ہمیشہ کے لیے ختم کرکے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا ہوگا، ملکی معیشت کو بچانا ہوگا، اگر سیاستدان متحد ہوجائیں تو ملک کی تقدیر بدل سکتی ہیں، حضرت شیخ سعدی کا کہنا ہے کہ اگر چڑیوں میں اتحاد ہوجائے تو وہ شیر کی کھال اتار سکتی ہیں، اس لیے ملکی مفادات اور ملکی سا لمیت کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ریاست پاکستان واضح کرچکی ہے کہ ملک میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے مفاد کے لیے کبھی مذہب اور کبھی سیاست کے نام پر نوجوانوں میں ہیجان پیدا کرتے ہیں لہٰذاء ہمیں اپنی نئی نسل کو ایسے لوگوں سے بچانا ہے،لاٹھیاں اورڈنڈے رنگنے اوررنگوانے کا رجحان ختم ہوچکا کسی قوت کو دھرنوں اورلاک ڈائوں کے ذریعے سسٹم کو تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے ۔یقینا نہیں دی جائے گی ۔ماضی میں ایسا ہوچکا ہے ۔تحریک انصاف تما م اُچھے غیر آئینی ہتھکنڈے آزمائے مگر تبدیلی لانے میں ناکام رہی اور یہ اچھا اقدام تھا تبدیلی ووٹ کے ذریعے ہی آنی چاہیے اب وقت آگیا ہے کہ تمام جمہوری قوتیں اس امر کو یقینی بنائیں۔