اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) انٹرپول نے حکومت پاکستان کی درخواست پر سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گرفتاری کیلئے ریڈ نوٹس جاری کرنے سے انکار کردیا اور انہیں کلین چٹ دیتے ہوئے ڈیٹا حذف کرنےکی ہدایت کر دی۔
سابق وزیر خزانہ نے انٹرپول کو ثبوت فراہم کرتے ہوئے بتایاکہ پی ٹی آئی حکومت سیاسی انتقام کا نشانہ بنارہی ہے، میرا نام پانامہ لیکس میں ہے اور نہ ہی 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں موجود ہے۔
ادھرانٹرپول نے اسحاق ڈارکو خط لکھ کر مطلع کیا ہےکہ آپ کسی ریڈ نوٹس پر نہیں ،دوسری جانب پاکستان نے سابق وزیر خزانہ کی گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی جسے شواہد کی جانچ پڑتال کے بعدانٹر پول نے مسترد کردیا۔
اس نمائندے نے وہ کاغذات دیکھے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرپول کے جنرل سیکریٹریٹ نے انٹرپول کے تمام نیشنل سینٹرل بیوروز کو اطلاع دی ہے کہ وہ اپنے سسٹم سے اسحاق ڈار کے بارے میں تمام ڈیٹا حذف کردیں، اس طرح انہیں اس بات کا کلین سرٹیفکیٹ دے دیا ہے کہ وہ انٹرپول کے نوٹس پر نہیں ہیں۔
انٹرپول کے ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ حکومت پاکستان نے وفاقی وزیر داخلہ کے توسط سے انٹرپول سے سابق وزیر خزانہ کی، جو ان دنوں لندن میں مقیم ہیں، گرفتاری کا وارنٹ جاری کرنے کی درخواست کی تھی لیکن انٹرپول نے اسحاق ڈار کی جانب سے جمع کرائے گئے شواہد کی جانچ پڑتال کے بعد یہ درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ کیا۔
انٹرپول نے اسحاق ڈار کو ایک خط کے ذریعے مطلع کیا ہے کہ وہ کسی ریڈ نوٹس کے تحت نہیں ہیں۔ انٹرنیشنل کرمنل پولیس آرگنائزیشن نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ محمد اسحاق ڈار انٹرپول کے نوٹس پر نہیں ہیں۔
سرکاری ذرائع کے مطابق فرانس کے شہر لیون میں انٹرپول کے جنرل سیکریٹریٹ کے قانونی امور کے دفتر نے سرٹیفکیٹ جاری کردیا ہے۔
اسحاق ڈار کے حوالے سے فائلیں حذف کرنے کا فیصلہ انٹرپول کی فائلوں کے کنٹرول سے کمیشن کے 109 ویں اجلاس کے دوران کیا گیا۔
ایک سرکاری پیپر میں کہا گیا ہے کہ اپنے سامنے موجود شواہد کا جائزہ لینے کے بعد کمیشن اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جس ڈیٹا کو چیلنج کیا گیا ہے، مروجہ قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے اس پر سوال کھڑے ہوتے ہیںجس کے نتیجے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس ڈیٹا کو انٹرپول انفارمیشن سسٹم میں برقرار رکھنا انٹرپول کے قواعد سے مطابقت نہیں رکھتے، اس لئے انہیںحذف کردیا جانا چاہئے، یہ فیصلہ انٹرپول کے جنرل سیکریٹریٹ سے حذف کردیا جائے۔
انٹرپول کے جنرل سیکریٹریٹ نے انٹرپول کے نیشنل سینٹرل بیورو کو کمیشن کے فیصلے سے مطلع کردیا ہے۔ انٹرپول نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسحاق ڈارکے معاملے میں انٹرپول کے ذریعے تمام انٹرنیشنل تعاون انٹرپول کے آئین اور قوانین سے مطابقت نہیں رکھتی۔
سرکاری پیپرز کے مطابق انٹرپول کے جنرل سیکریٹریٹ نے تما م این سی بیز کو سسٹم سے اسحاق ڈار کا ڈیٹا حذف کر کے اپنے نیشنل ڈیٹا بیس کو اپ ڈیٹ کرلیں اور اس بات کویقینی بنائیں کہ انٹرپول کی معلومات تک رسائی رکھنے والے تمام قومی اداروں میں ایسا ہی کیا جائے۔
باخبر ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر بتایا ہے کہ اسحاق ڈار نے انٹرپول اور برطانوی حکام کو اس بات کے ثبوت فراہم کردیئے ہیں کہ ان کا نام نہ توپانامہ لیکس میں موجود ہے اور نہ ہی 20 اپریل 2017 کے سپریم کورٹ کے فیصلے میں۔
انہوں نے حکام کو بتایا کہ پاناما پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سپریم کورٹ کے دیئے ہوئے مینڈیٹ سے تجاوز کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں ایک جھوٹی اور بے بنیاد رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا کہ اسحاق ڈار نے 1981 سے 2001 تک گزشتہ 20 سال کے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے، اس میں ان بڑے فلاحی عطیات کے قانونی ہونے اور پاکستان میں 6 سال کی عدم موجودگی کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا تھا۔ انہوں نے حکام کو بتایا کہ انہوں نے 30 جون 2017 تک گزشتہ 34 سال کے دوران کبھی بھی ٹیکس گوشوارے جمع کرانے سے گریز نہیں کیا۔
مزید برآں جے آئی ٹی نے یہ حقیقت بھی چھپائی کہ نیب کے پاس اسحاق ڈار کا 22 سالہ ٹیکس ریکارڈ موجود ہے اور نیب نے ستمبر 2016 میں تفتیش بند کردی تھی اور انہیں کلیئرنس لیٹر جاری کردیا تھا، انہوں نے انٹرپول کے حکام کو بتایا کہ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو گمراہ کر کے ان کے خلاف آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے کے الزام میں ریفرنس دائر کرنے کی اجازت حاصل کرلی جو کہ ان کے معاملے میں سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے اور انصاف کی راہ روکنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے حکام کوبتایا کہ ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی کی حکومت ان کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔
واضح رہے کہ پاناما کیس کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کر رکھا ہے جس میں انہیں مفرور قرار دیا جاچکا ہے۔
سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا کیس احتساب عدالت میں چل رہا ہے اور وہ کئی پیشیوں پر احتساب عدالت میں پیش بھی ہوئے تاہم وہ گزشتہ برس نومبر میں علاج کی غرض سے لندن گئے تھے اور اس کے بعد سے وطن واپس نہیں آئے۔
نیب نے اسحاق ڈار کو انٹرپول کی مدد سے وطن واپس لانے کا فیصلہ بھی کیا تھا جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے بھی انہیں 8 مئی 2018 کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا تاہم ان کے وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ بیماری کے باعث اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
اس کے علاوہ اسحاق ڈار کے خلاف پارک اکھاڑ کر رہائشگاہ کے لیے سڑک بنانے کا کیس بھی چل رہا ہے اور اس کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان نے ایل ڈی اے حکام کو پارک کو اصل حالت میں بحال کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
سابق وزیر خزانہ کو وطن واپس لانے کے لیے ایف آئی اے کی جانب سے ریڈ وارنٹ جاری کرتےہوئے انٹرپول کو درخواست دی گئی تھی۔