پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن نے ابھی تک احتجاج، مارچ اور دھرنے میں اس انداز سے شرکت کی ہے کہ کامیابی کی صورت میں فوائد حاصل ہوں اور ناکامی کی صورت میں کسی بھی قسم کی قانونی کارروائی یاجمہوری طبقہ صحافت یا عوام کی تنقید کا نشانہ بنیں گے مولانا فضل الرحمان ،پیپلزپارٹی اورن لیگ والے اندرخانے مولاناکوخوب چابی دیتے ہیں جبکہ میڈیا پرسنزکے سامنے آتے ہی دھرناسیاست ومذہب کارڈکی مخالفت کردیتے ہیں،جب مولاناکہتے ہیں اسمبلیوں سے سب استعفے دیں توپیپلزپارٹی کوسندھ حکومت یادآجاتی ہے اورن لیگ کواپوزیشن لیڈراورسینیٹ یادآجاتاہے،اپنے سارے پتے محفوظ رکھتے ہوئے ن لیگ اورپیپلزپارٹی کامیابی کے ساتھ ابھی تک وکٹ کے دونوں جانب کھیلنے کی کوشش کررہی ہیں۔
جبکہ مولانانے مارچ اوردھرنے کے فیصلے سمیت تمام مطالبات بھی احتجاج میں شامل پیپلزپارٹی،ن لیگ سمیت 9سیاسی جماعتوںکی مشاورت سے پیش کئے ہیں،مولاناکوبندگلی میں بھیج کرپیپلزپارٹی اورن لیگ آخرتک وکٹ کی دونوں طرف ہی کھیلتی رہیں گی،جب کوئی سوال کرے گاتوپیپلزپارٹی اورن لیگ والے قیادت کی مشاورت کے حوالے پیش کرتے رہیں گے،دوسری طرف وزیراعظم عمران خان اپنے موقف پرڈٹے نظر آتے ہیں،گزشتہ روزسوشل میڈیاپرایک پیغام میںانہوں نے اپنی بات ایک مرتبہ پھردہراتے ہوئے کہاکہ یہ لوگ صرف تین لفظ سننا چاہتے ہیں،ایک بار پھر صاف صاف کہہ رہاہوں، نو این آر او، نو کمپرومائز، وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھردہرادیاہے کہ این آر او دینے کا مطلب ملک سے غداری ہوگا،وزیراعظم عمران خان کالہجہ بتارہاہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ یااسلام آبادمیں دھرنے کوخاطرمیں نہیں لاناچاہتے جبکہ معاملہ اس قدرآسان بھی نہیں ہے،ق لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اورچوہدری پرویزالٰہی بھی مولاناکے ساتھ رابطہ کررہے ہیں،چوہدری برادران صلح صفائی کروانے کے ماہرجانے جاتے ہیں۔
حکومت کے اتحادی ہونے کے ساتھ ساتھ چوہدری برادران کے مولانافضل الرحمان کے ساتھ بھی اچھے مراسم ہیں،مولانافضل الرحمان چوہدری برادران کی ثالثی قبول کرتے ہیں،وزیراعظم عمران خان کے موجودہ لب ولہجے میں نرمی لائے بغیر حکومت کے ساتھ معاملات افہام وتفہیم سے حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تویہ مولانا،عمران خان اورچوہدری برادران کی بڑی کامیابی ہوگی جبکہ وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہی پیپلزپارٹی اورن لیگ کی شکست تصورہوگی،مجھے نہیں لگتاکہ مولانا،ن لیگ اورپیپلزپارٹی کی رضامندی کے بغیرحکومت کے ساتھ کوئی معاہدہ طے کریں گے،راقم یہ بات مسلسل کہہ رہاہے کہ پیپلزپارٹی اورن لیگ ہاتھی کے وہ دانت ہیں جن کے بارے میں کہاجاتاہے کہ کھانے کے اوردیکھانے کے اور،اندرون خانہ پیپلزپارٹی اورن لیگ مکمل طورپرمولاناکے مذہب کارڈاور دھرنے کے ساتھ ہیں اورآخری دم تک ساتھ رہیں گے جبکہ بظاہرکبھی ہاں کبھی نہ کہتی نظرآئیں گی،حکومت سنجیدہ لے نہ لے ،احتجاج کرنے والوں کی خواہش تھی یانہیں تھی پریہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج کے باعث دنیاکی نظریں مسئلہ کشمیرسے ہٹ چکی ہیں،عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے،غیریقینی کی سی صورتحال پیداہوچکی ہے،اپوزیشن احتجاج کرے یاکسی دیگرمسئلے کی وجہ سے عوام کی زندگی میں مشکلات پیداہوں انہیں بروقت اورمحفوظ طریقے سے دورکرناحکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ مولانافضل الرحمان کے مطالبات غیرسنجیدہ اورناقابل قبول ہیں پھربھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ مولاناسمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کواعتمادمیں لے کرمعاملات کواحسن طریقے سے حل کرے تاکہ عوام کی زندگی میں مزیدمشکلات پیدانہ ہوں،کسی پرغداری یاکفرکے فتوے لگاناکسی صورت مناسب نہیں،مولانافضل الرحمان پاکستانی سیاستدان ہیں انہیں بھی اپنے اردگردکے لوگوں پرنظررکھنی چاہئے،الیکشن 2018ء پرتحفظات ہیں تواُن کااظہارضرورکریں،صاف شفاف الیکشن کامطالبہ مولانایااحتجاج میں شامل سیاسی جماعتوں کاہی نہیں بلکہ پوری قوم کامطالبہ ہے پراس کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ قومی اداروں پرچڑھائی کرنے کی کوشش کی جائے۔
آئین سازی سیاستدان کرتے ہیں جس کے تحت الیکشن کمیشن دوران الیکشن اداروں سے مدد لیتا ہے،سیاستدان آئین میں ترمیم کرکے الیکشن کمیشن کواداروں سے مددلینے سے روک سکتے ہیں اوریہی آئینی اورجمہوری طریقہ ہے،آپ خودہی اداروں کومددکیلئے بلائیں اورپھرخودہی قومی سلامتی کے ضامن اداروں کے وقارکومتاثرکرنے کی کوشش کریں یہ انتہائی شرمناک عمل ہے جسے محبت وطن عوام پسندنہیں کرتے،مولاناصاحب جس اندازمیں اداروں کیخلاف بات کررہے ہیں اس حساب سے قوم سوال کرسکتی ہے کہ جب مولانا الیکشن میں مسلسل کامیابی حاصل کیاکرتے تھے تب تومولانانے کبھی احتجاج نہیں کیا؟پہلی باراسمبلی سے باہرہیں توانہیں الیکشن کی خرابیاں نظرآنے لگ گئی ہیں اورمولاناصاحب یہ بھی یادرکھیں کہ ممکن تونہیں پھربھی وقت سے پہلے الیکشن ہوتے ہیں تومولاناکوزیادہ فائدہ نہیں ہوگا،ماضی میں خودکولبرل بتاکرجن سے آشربادمانگتے رہے ہیں ناموس رسالتۖ اورختم نبوتۖ کے نام پراحتجاج کرنے کے بعد وہ طاقتیں اب انہیں کسی صورت آشربادنہیں دیں گی،مولاناصاحب ہرگزرتے لمحے کے ساتھ بندگلی کی طرف بڑھ رہے ہیں،ن لیگ یاپیپلزپارٹی مولانافضل الرحمان کوکبھی وزیراعظم یاصدرپاکستان نہیں بنائے گی انہیں جب بھی موقع ملاوہ اپنی پارٹی پالیسی کابہانہ بناکرانہیں ٹال دیں گے یعنی ن لیگ اورپیپلزپارٹی مولاناکے ساتھ وہ کھیل کھیل رہی ہیں جس کے متعلق شاعرنے کچھ یوں کہاہے
اس شرط پہ کھیلوں گی پیاپیارکی بازی جیتوں توتجھے پائوں ہاروں توپیاتیری
پرحقیقت مختلف ہے سیاسی میدان کے کھلاڑی منافقانہ نظریات رکھتے ہیں جب جسے سیڑی ملے گی سب کچھ چھوڑچھاڑکرفوری سیڑی چڑھ جاتاہے اورمشکل وقت میںساتھ دینے والے دیکھتے رہ جاتے ہیں،راقم کے خیال میں مولاناصاحب کوچوہدری برادارن کی ثالثی قبول کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملالیناچاہیے اوروزیراعظم عمران خان کوبھی معاملہ فہمی ،اپنے منصب اورذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے کم گوئی اختیارکرنی چاہیے۔