اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) چار ماہ قبل وزیراعظم عمران خان کی جانب سے 2008ء سے 2018ء تک لیے گئے قرضوں کے استعمال کی تحقیقات کیلئے قائم کردہ انکوائری کمیشن کو اب تک کوئی ایسا کیس نہیں ملا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ یہ رقم کسی اہم سیاست دان یا کسی بیوروکریٹ کی جیب میں جا رہی تھی۔ اس کے برعکس، تمام رسیدیں اکاؤنٹ نمبر ایک کو جا رہی ہیں۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کو اب تک فراڈ یا کرپشن کا بھی کوئی کیس نہیں ملا۔ کہا جاتا ہے کہ اب تک کمیشن کی جانب سے جس بڑے کیس پر سب سے زیادہ توجہ مرکوز کی جا رہی ہے وہ کراچی کا K-4 (کے فور) منصوبہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ 13؍ سال پرانا کے فور کا یہ منصوبہ بمشکل 10، فیصد ہی مکمل تھا لیکن حالیہ بارشوں کی وجہ سے اب تک کا ہونے والا کام بہہ گیا۔
تاخیر کی وجہ سے کے فور پروجیکٹ کی تکمیل کے اخراجات 25 ارب روپے سے بڑھ کر 150 ارب روپے ہو چکے ہیں۔ پانی کا کے فور پروجیکٹ بلدیاتی انفرا اسٹرکچر کا منصوبہ تھا جسے صوبائی اور وفاقی حکومت مل کر تعمیر کر رہی تھیں تاکہ شہر کی روزانہ کی پانی کی فراہمی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
ابتدائی طور پر پروجیکٹ پر اخراجات کا تخمینہ 25 اعشاریہ 5؍ ارب روپے لگایا گیا تھا جس سے شہر کو تین مرحلوں میں 650؍ ملین (65؍ کروڑ) گیلن پانی ملتا۔
نئی واٹر سپلائی پانی کا ڈیزائن ایسا ہے کہ تین کینالز کے ذریعے کینجھر جھیل سے پانی حاصل کیا جائے گا۔ اس بڑے پروجیکٹ کو کافی عرصہ سے تاخیر کا سامنا رہا ہے اور گزشتہ برسوں میں گزرتے وقت کے ساتھ اخراجات کا تخمینہ بھی بڑھ رہا ہے۔
کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اب تک قرضے کے جن کیسز کا جائزہ لیا گیا ہے انہیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ قرضے کی رقم فیڈرل کنسالیڈیٹڈ فنڈ کے اکاؤنٹ نمبر ایک میں وصول کی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ صوبوں کے پاس اپنا اپنا اکاؤنٹ نمبر ایک ہوتا ہے اور وہ بھی اسی اکاؤنٹ میں اپنی اپنی رسیدیں وصول کر رہے تھے۔
لہٰذا اس تاثر، کہ قرضے کی رقم (ملکی یا غیر ملکی) کسی شخص نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں جمع کرائی یا نقد کی صورت میں وصول کی گئی، میں وزن نہیں رہتا۔ سابق سیکریٹری خزانہ کے مطابق کوئی سادہ لوح انسان ہی ایسی دلیل دے سکتا ہے کیونکہ ایسے لوگ جنہیں سرکاری کام کاج کی سمجھ بوجھ ہے وہ جانتے ہیں کہ تمام سرکاری رسیدیں اکاؤنٹ نمبر ایک میں جاتی ہیں۔
کمیشن کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے کیسز ہیں جنہیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کسی مخصوص منصوبے کیلئے اکاؤنٹ نمبر ایک میں وصول ہونے والی رقم کو کسی اور پروجیکٹ، قرضوں کی ادائیگی یا پھر مالی خسارہ پورا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ کمیشن نے کئی سرکاری عہدیداروں کے انٹرویوز کیے ہیں لیکن کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ قرضوں کی رقم کا غلط استعمال ہوا یا اسے کرپشن میں استعمال کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے کمیشن بڑے پروجیکٹس کا جائزہ لے رہا ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ آیا یہ منصوبے عوامی فلاح و بہبود کے مقصد کے تحت شروع کیے گئے تھے۔ تقابل کیلئے یہ کمیشن دیگر صوبوں کی جانب سے پروجیکٹس پر خرچ کی گئی رقوم کا جائزہ بھی لے رہا ہے۔
رواں سال جون میں وزیراعظم عمران خان کی جانب سے قائم کیے گئے 12؍ رکنی کمیشن کا کام یہ تھا کہ وہ 2008ء سے 2018ء تک لیے گئے قرضوں کے استعمال کے حوالے سے تحقیقات کرے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیشن کی جانب سے لیے جانے والے جائزے میں یہ بھی شامل ہوگا کہ وہ مالی سال 2018-19ء یعنی پی ٹی آئی حکومت کے پہلے بجٹ کے حوالے سے بھی تحقیقات کرے گا۔
کمیشن کی قیادت پولیس سروس آف پاکستان کے گریڈ 22؍ کے اچھی ساکھ کے حامل ریٹائرڈ پولیس افسر اور نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر کر رہے ہیں۔ یہ کمیشن 22؍ جون کو تشکیل دیا گیا تھا اور اسے 6؍ ماہ میں اپنی رپورٹ مکمل کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ کمیشن کے مینڈیٹ میں یہ شامل تھا کہ وہ قرضوں کی رقم کے استعمال کے حوالے سے بے ضابطگی یا غیر قانونی اقدام کی نشاندہی کرے اور معاملہ متعلقہ ایجنسی یا محکمے کو قانونی کارروائی کیلئے بھیج دے۔
کمیشن کے قیام کے نوٹیفکیشن میں اس کی توسیع کے حوالے سے بات بھی شامل تھی کہ اگر کمیشن چاہے تو معاونت کیلئے ملکی یا غیر ملکی سطح پر سرکاری یا نجی شعبے سے کسی بھی شخص کو بطور ممبر کمیشن، کنسلٹنٹ یا مشیر بھرتی کر سکتا ہے۔
کمیشن کسی بھی پروجیکٹ کیلئے ٹھیکے دینے یا معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے یہ انکوائری اور انوسٹی گیشن کر رہا تھا کہ آیا اس مخصوص پروجیکٹ کیلئے کوئی قرضہ لیا گیا تھا اور آیا کہ مختص شدہ رقم اس پر خرچ ہوئی کہ نہیں۔ کمیشن اس بات کا جائزہ بھی لے رہا ہے کہ کسی بھی سرکاری کنٹریکٹ کی شرائط و ضوابط مشکوک تھے یا میرٹ پر یا انہیں مصنوعی انداز سے کم رکھا گی تاکہ رشوت کے حوالے سے سہولتیں پیدا کی جا سکیں۔
اگر ایسا ہوا ہے تو کس کا فائدہ ہوا؟ کمیشن اس بات کا جائزہ بھی لے رہا ہے کہ کسی سرکاری عہدیدار، اس کی اہلیہ، بچوں یا اس سے جڑے کسی شخص نے قانون سے حاصل اجازت اور طے شدہ ضابطوں کی خلاف ورزری کرتے ہوئے اپنے ذاتی یا نجی اخراجات پورے کرنے کے لیے سرکاری فنڈز استعمال کیے۔
کمیشن قائم کرنے والے وزیراعظم عمران خان یہ جاننے کیلئے متجسس تھے کہ 2017ء میں پاکستان پر واجب الادا قرضہ جات 7000؍ ارب روپے تھے تو یہ 2018ء میں (جب نون لیگ کی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی) بڑھ کر 30؍ ہزار ارب روپے کیسے ہوگئے۔
وزیراعظم کو شک ہے کہ قرضوں کی یہ بھاری رقم پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے دور میں بڑھی جس میں ان پارٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں نے اپنی دولت میں اضافہ کیا۔