پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد کے مقام کو نومبر 2017ء میں تحریک لبیک پاکستان کے دھرنے نے آباد کیا تھا جو 20 روز تک جاری رہا، سخت کارروائی میں آٹھ سے زائد لوگوں کی شہادت اورپھرپوراملک جام ہونے کے بعد مطالبات کی منظوری پر دھرنا ختم ہوگیا،اس سے قبل مولاناطاہرالقادری،ڈاکٹرعلامہ اشرف آصف جلالی اورموجودہ وزیراعظم پاکستان عمران خان بھی ڈی چوک میں 126دن کاطویل ترین دھرنا دے چکے ہیں کئی دیگردھرنے بھی دارالحکومت دیکھ چکاہے،اُن تمام دھرنوں کی بات کی جائے توتحریرخاصی طویل ہوجائے گی لہٰذاآج موضوع ہیں دومذہبی سیاسی جماعتوں تحریک لبیک پاکستان اورجمعیت علماء اسلام(ف)کے دھرنے،جمعیت علماء اسلام اورتحریک لبیک پاکستان کے دھرنوں میں کئی باتیں مشترک ہیں اوربہت ساری باتیں مختلف ہیں،تحریک لبیک نے تن تنہاء مارچ شروع کیااوردھرنادیا جبکہ جمعیت علماء اسلام نے اپوزیشن کی 9سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کرآزادی مارچ کاآغازکیااورملک کی دوبڑی سیاسی جماعتوں سمیت دیگرجماعتوں کی مرکزی قیادت دھرنے کی مخالفت کے باوجود دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرنے آتی جاتی رہتی ہے۔
آئینی ترمیم الیکشن بل 2017ء میں حلف نامہ کے الفاظ کی تبدیلی،سیون سی اورسیون بی کی منسوخی کیخلاف حافظ خادم حسین رضوی کی قیادت میں تحریک لبیک یارسول اللہۖ پاکستان کے لاہورداتاصاحب کے مزارسے شروع ہونے والے مارچ میں حافظ خادم حسین رضوری سمیت تحریک لبیک کی مرکزی قیادت جس کنٹینریاٹرک پر سواررہی وہ بالکل سادہ اوراوپن تھا،حافظ خادم حسین رضوری جسمانی معذوری کے باوجود لاہور سے اسلام آبادتک اسی ٹرک پرسوارہاتھ اُٹھاکرلبیک یارسول اللہۖ اورتاجدارختم نبوتۖ کے نعرے لگاتے نظرآئے اورپھرفیض آبادکے مقام پر20روزہ دھرنے کے دوران بھی حافظ خادم حسین رضوی اسی ٹرک کے اوپریانیچے موجودرہے،20روزمیںایک لمحہ کیلئے بھی دھرنے کے مقام سے دورنہیں ہوئے،تحریک لبیک کے دھرنے میں تحریک لبیک کے مرکزی امیرنے اپنے کارکنوں کے ساتھ نومبرکی سردی،بارش،یک بستہ ہوائیں اورآپریشن کی سختیاں برداشت کیں،تحریک لبیک نے حلف نامے کی پرانی شکل میں بحالی،سیون سی،سیون بی کی واپسی اور وزیر قانون زاہد حامد کے استعفٰے کامطالبہ کیاتھا،ن لیگ کی حکومت نے مطالبات کومستردکرتے ہوئے25 نومبر کی صبح سخت آپریشن کردیاجس میںتحریک لبیک پاکستان کے ذرائع کے مطابق آٹھ سے زائد لوگ شہیدہوگئے،میڈیاکوریج پرپابندی کے باعث سوشل میڈیاکے ذریعے شہادتوں کی خبریں منظرعام پرآئیں تو ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے،آخرکار 27 نومبرکوتحریک لبیک اورحکومت کے درمیان مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کردیئے گئے۔
جس کے نتیجے میں حلف نامہ پرانی شکل میں بحال کردیاگیا،سیون سی،سیون بی بحال ہوگئیں اوروزیرقانون زاہد حامد نے استعفیٰ دے دیا اور دھرنا ختم کر دیا گیا،اب ایک بارپھرنومبرمیں ہی دارالحکومت میں جمعیت علماء اسلام نے دھرنادے رکھاہے،آزادی مارچ کیلئے مولانافضل رحمان کی سواری کیلئے وی آئی پی کنٹینرتیارکیاگیاجس میں اے سی،لیٹرین سمیت آرام کرنے کی تمام ترسہولیات دستیاب ہیں پرمولانافضل الرحمان ایک رات بھی اس کنٹینرمیں نہیں ٹھہرے،کارکنوں سے خطاب کے بعدہررات مولانااسلام آبادمیں واقع اپنی رہائش گاہ پرآرام اورملاقاتیں کرنے چلے جاتے ہیں جبکہ اُن کے کارکنوں کی بڑی تعدادنومبرکی سردی،یک بستہ ہوائوں اوربارش کاسامنابڑی جواں مردی کے ساتھ کرتے دیکھائی دیتے ہیں،تحریک لبیک کے مارچ اوردھرنے کومذہبی قراردے کرمیڈیاکوکوریج دینے سے روک دیاگیاتھااورمیڈیانے بھی بڑی خوش دلی کے ساتھ اس مارچ اوردھرنے کی شدیدمخالفت کی تھی جبکہ جمعیت کے مارچ اوردھرنے کوکوریج دینے پرموجودہ حکومت بھی میڈیاسے خوش نہیں پھربھی میڈیامناسب کوریج دے رہا ہے۔
ایک بات بڑی حیران کن ہے کہ جس اندازمیں تحریک لبیک کے دھرنے کے دوران میڈیانے شہریوں کی مشکلات بیان کیںاس اندازمیں جمعیت کے دھرنے کے موقع پر نہیں کررہا،مولانافضل الرحمان کے دھرنے میں شریک کارکنوں کواپنی قیادت کی جانب سے میڈیاکے ساتھ بات کرنے کی اجازت نہیں جبکہ تحریک لبیک کے دھرنے میں شریک لوگوں کے ساتھ بات کرنے کے حوالے سے میڈیاپرپابندی رہی،تحریک لبیک کی قیادت کسی بھی موقع پراپنے مطالبات سے پیچھے ہٹتی دیکھائی نہیں دی جبکہ مولانافضل الرحمان درمیانی راستے تسلیم کرتے معلوم ہورہے ہیں،مارچ اوردھرنامولانافضل الرحمان صاحب کی قیادت میں ہے اورمطالبات سے پیچھے ہٹنے یادرمیانی راستہ تسلیم کرنے یانہ کرنے کااختیاربھی انہیں کے پاس ہے لہٰذاہمیں اُن کے فیصلوں پراعترازنہیں البتہ ایک بات کہناچاہتاہوں کہ مولانا فضل الرحمان صاحب کوبھی حافظ خادم حسین رضوی کی طرح رات دن اپنے کارکنوں کے درمیان رہناچاہئے تاکہ وہ کسی موقع پرتنہائی کا شکار نہ ہوں۔