اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی قیادت میں اپوزیشن جماعتوں کے آزادی مارچ کا آج دسواں روز ہے اور دھرنے کے شرکاء سرد موسم کے باوجود ایچ نائن گراؤنڈ میں موجود ہیں۔
اپوزیشن کی رہبر کمیٹی نے وزیراعظم کے استعفے، قبل از وقت انتخابات سمیت دیگر مطالبات کررکھے ہیں تاہم حکومت وزیراعظم کے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبات ماننے سے انکاری ہے۔
ہفتے کی شام آزادی مارچ میں مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت سیرت النبی ﷺ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ، اس دوران جے یو آئی کے رہنماؤں سمیت مختلف علمائے کرام نے سیرت النبی ﷺ کے موضوع پر خطاب کیا ۔اس موقع پر نعت خواں حضرات کی جانب سے ہدیہ نعت بھی پیش کیا گیا۔
سیرت کانفرنس اور دھرنے کے شرکا سے مرکزی خطاب میں مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ دنیاکوپیغام جارہاہےکہ پاکستان کےعوام اپنے نبی ﷺ سےکس قدرمحبت رکھتےہیں،اب کسی کوناموس رسالت سےکھیلنےکی ہمت نہیں ہوگی۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان عظیم مقاصد کے لیےحاصل کیاگیا،لاکھوں لوگوں نےقربانیاں دیں ، لیکن آج پاکستان کومغرب اور امریکا کی کالونی بناکر رکھ دیا گیاہے اور ہمارے ملک کو غلام ملک بنادیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کرتار پور کا افتتاح کیا اور بھارت نے آج ہی بابری مسجد کا فیصلہ کرکے ادلے کا بدلہ دے دیا، حکومت کو فیصلے کرتے وقت کسی کو تو اعتماد میں لینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ انگوٹھا چھاپ اسمبلوں کو تسلیم نہیں کریں گے، انگوٹھاچھاپ اسمبلیاں وجودمیں لاکر سمجھتے ہیں ہرفیصلہ ہم کریں گے، ہم ملک میں ایک باوقار ،جائر اور آئینی حکومت لانا چاہتے ہیں تاکہ عوام عزت کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔
جے یوآئی سربراہ کا کہنا تھا کہ ہم دنیا میں اورخطےمیں اپنےدوست بڑھانا چاہتےہیںِ، ہم نےایک آواز بننا ہے،پاکستان کےمستقبل کومضبوط کرناہے، امریکااوریورپ سےبھی دوستی کریں گےلیکن غلامی نہیں کریں گے، یہ ملک ہمارا ہے،یہاں غلام بن کرزندگی نہیں گزاریں گے۔ یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ خدا کے لیےہمیں آئین اور قانون کے دائرے میں رہنے دو، جہاں آئین سبوتاژ ہوا ہے تو پھرملک نہیں رہے۔ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں رہے تو کوئی جھگڑا نہیں۔
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ۔ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت آزادی مارچ 27 اکتوبر کو ملک کے مختلف حصوں سے شروع ہوکر 31 اکتوبر کو اسلام آباد پہنچا تھا۔
25 جولائی 2018 کو ہونے والے عام انتخابات میں مولانا فضل الرحمان سمیت کئی بڑے ناموں کو شکست ہوئی جس کے فوراً بعد جے یو آئی ف، مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی و دیگر جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس بلائی اور انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے شفاف انتخابات کا مطالبہ کیا۔
19 اگست 2019 کو جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر صدارت اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) اسلام آباد میں ہوئی جس میں مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، عوامی نیشنل پارٹی سمیت دیگر جماعتوں کے قائدین شریک ہوئے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کمر کے درد اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری پارٹی دورے کے باعث اے پی سی میں شریک نہیں ہوئے۔
اجلاس کے بعد مولانا فضل الرحمان نے حزب اختلاف کے رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں ملک کو مختلف بحرانوں سے دوچار کردیا گیا ہے، اس وقت پاکستان کی سلامتی کو خطرہ ہے اور حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے نتیجے میں ملک کو کئی بحرانوں کا سامنا ہے
انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں اتفاق کیا ہے کہ سب اکٹھے اسلام آباد آئیں گے اور رہبر کمیٹی ایک ہفتے میں چارٹر آف ڈیمانڈ دے گی تاکہ جب اسلام آباد کی طرف آئیں گے تو ہمارے پاس متفقہ چارٹر آف ڈیمانڈ ہو۔