میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے۔مولوی فضل الرحمن المعروف مولوی ڈیزل والا کے بارے میں میڈیا اور عوام میں یہی تاثر پایا جاتاہے کہ نام نہاد خود ساختہ اسلامی لیڈر، ڈیزل پرمٹ پر بک جانے والا،وزارت کی ہڈی پر حکومتوں کی حمایت اور مخالفت کرنے ، مدارس کی مالی اور افرادی قوت کے بل بوتے پر دین اسلام کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنے والا،اپنی نام نہاد دینی حیثیت سے حکومتوں کو بلیک میل کرکے ناجائز رُوڑے اٹکا کر اپنے گھناونے عزائم پورے کرنے والاہے اور اب آزادی مارچ کی بدولت اس مولوی کے بارے میں قوم کی معلومات میں مزید اضافہ ہواہے کہ مولوی فضل الرحمن کی سرپرستی میں دینی مدارس کا ایک بڑانیٹ ورک کام کررہاہے۔اِن مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے نسل در نسل مولوی فضل الرحمن اور اُن کے خاندان کے پیروکار چلے آرہے ہیں اور اِن سب کی معاشی ضرورت بھی کسی نہ کسی طر ح مولوی فضل الرحمن سے وابستہ ہیں۔مولوی فضل الرحمن نے کمال ہوشیاری اور مکاری سے اِس نیٹ ورک کو ”مافیا”میں تبدیل کررکھا ہے اور اِن مدارس میںزیر تعلیم طلباء کو ہر اُس تعلیم سے دور رکھا ہوا ہے جس تعلیم سے اِن میں شعور آجائے اور وہ محدود دینی ودنیاوی تعلیم سے نکل کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے قومی دھارے میں شامل ہوجائیںکیونکہ مولوی فضل الرحمن کو خوف ہے کہ اگریہ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور اِن میں شعور آگیا تو پھر یہ لوگ اس کی حقیقت اور اصلیت جان جائیں گے جس کے نتیجے میں مدارس نیٹ ورک پر اس مولوی کی گرفت کمزور پڑجائے گی اور پھر مولوی فضل الرحمن اور اس جیسے ڈرامے باز مولویوں کا کیا بنے گا۔آزادی مارچ اور دھرنے میں شامل ہزاروں انسانی بت بغیرسمجھے مولوی فضل الرحمن کی ہاں میں ہاں ملاتے اور نعرے لگاتے اپنی محدود تعلیم اور مولویت پر مبنی کی گواہیاںدے رہے تھے۔
کنٹینر پر کھڑے ہوکر مولوی فضل الرحمن کا اندازبیان عالم دین کی بجائے ایک ”مافیا ”کے سرغنہ ”ٹھاکر”اور” گبرسنگھ ”کاہے جو پاک فوج جیسے باوقار قومی ادارے کودشمن کے انداز میںللکارتے ہیںاور خود کو تمام سلامتی کے اداروں سے زیادہ طاقتور شو کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ مولوی فضل الرحمن کے فلمی ڈائیلاگ اگر حقیقت کا روپ دھار لیں توعمران خان کی حکومت کے ساتھ ساتھ مولوی فضل الرحمن کی سیاست بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے گی۔ مولوی فضل الرحمن صاحب !عمران خان میں یقیناًبہت سی خامیاں اور کمزوریاں ہوں گی مگراُن کے مالی کرپشن سے پاک ہونے پرکہیںکوئی سوال نہیں اُٹھا،اُس کے برعکس یہ تاثرعام ہے کہ آپ نے زندگی میں کبھی حلال کا لقمہ کھانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی،حلال کھانے والا عام مسلمان حرام کھانے والے عا خود ساختہ عالم دین سے کہیں بہتر ہے۔
اپوزیشن قیادت کو تو مولوی فضل الرحمن نے اپنے ساتھ کنٹینر پر لاکھڑاکیامگر اِن بڑی جماعتوں کے کارکنان نے اپنی قیادت کے اِس بھونڈے اور احمقانہ فیصلے کو قطعاًقبول نہیں کیاکیونکہ وہ مولوی فضل الرحمن کی بُری شہرت سے بخوبی آگاہ ہیں۔یہ بھی وقت کی ستم ظریفی ہے کہ 2014میںجب عمران خان کنٹینر پرسوارتھا آپ سب پارلیمنٹ اورجمہوریت کی بالادستی کے لیے ایک ہوگئے تھے اور اب عمران خان حکومت میں ہے تو آپ سب لشکروںاور جتھوںکی حمایت میں ایک ہوگئے ہیں۔دین کے حوالے سے مولوی فضل الرحمن کا ریکارڈ انتہائی مایوس کن اور شرمناک ہے جبکہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے مولوی فضل الرحمن کی کارکردگی قابل مذمت ہے۔البتہ دین کے نام پرذاتی مفادات کے حصول میں مولوی فضل الرحمن کا کوئی ثانی نہیں ہے۔
مولوی فضل الرحمن کی شخصیت شراب کی اُس بوتل کی مانند ہے جس پر جام شیریں کا لیبل لگاہواہے۔آج اگر مولوی فضل الرحمن کی قیادت میں مسلک دیوبند کے لوگ اقتدار کے بھوکے چند سیاستدانوں کو اپنا ہمنوا بناکر اسلام آباد پر قبضہ کرنے میںکامیاب ہوگئے توپھر آنے والے وقتوں میں اہلحدیث، اہلسنت، قادیانی یا اہل تشیع بھی اِن کی ڈگر پر چلتے ہوئے اِسی طرح کے جنونی لشکر اور خونی جتھے بناکر یہ گھنائونا کھیل کیوں نہ کھیلیں گے؟؟؟۔جن کے آبائوجداد نے مبینہ طور پر قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی آج اُن کی اُولادیںاستحکام پاکستان کی مخالفت میںدھرنا دیئے بیٹھے ہیں۔شائد انہوں نے آج تک پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔قوم جناب وزیراعظم عمران خان اور جناب آرمی چیف قمرجاویدباجوہ سے مطالبہ کرتی ہے کہ دھرنے میںبیٹھے مخصوص اور محدود سوچ کے مالک جتھوں کے سامنے سرنڈر نہ کرے ورنہ یہ سلسلہ چل نکلے گا جوپھر تھمنے کانام نہیں لے گا اور خدانہ کرے کہیں ایسانہ ہومیرے ملک کو دشمن کی نظربد لگ جائے اور اِن اقتدار کے بھوکوں کے ہاتھوںمیراپیاراوطن اپنا وجود نہ رکھ سکے کیونکہ مولوی فضل الرحمن اوراس کے حواریوں کی طرف سے بار بار لاشیں اٹھانے کا بیان داغا جاتا ہے کہ اب یہاں لاشیں گریں گی یا حکومت ِ وقت کو لاشیں اٹھانا پڑیں گی جو خانہ جنگی کی کھلی دھمکی اور ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنے کے مترداف ہے مگر ان مولویوں کی طرف یہ بیان قطعاً باعث حیرت نہیں ہے کیونکہ مجرمانہ ذہنیت رکھنے اور اقتدار کے بھوکے ان خودساختہ مذہبی راہنماوں سے اور توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے مگر کاش مولوی صاحب یہ لاشیں مدارس میں پڑھنے والے غریب طلبا کی بجائے اپنے بیٹوں ،اپنے پوتوں ، اپنے نواسوں یا اپنے خونی رشتہ داروں کی اٹھانے کا موقع فراہم کریں۔کا ش یہ خون سے لت پت تڑپتے لاشے کسی اور کے نہ ہوں بلکہ مولوی فضل الرحمن کے بیٹوں ، نواسوں اور پوتوں کے ہوں توتب مولوی ڈیزل کو معلوم ہو کہ لاشیں اٹھانا کسے کہتے ہیں ؟؟؟پھر تم کو احساس ہو کہ جیتے جاگتے انسانوں کو خون میں نہاتے ہوئے دیکھ کر دل پر جو کرب ناک اذیت گزرتی ہے اس کی کیفیت کیا ہو تی ہے ؟مولوی صاحب ! ذرا ہمت کریں سب سے پہلے اپنے عزیزو اقارب کو خون بہانے کا موقع دیں پھر دیکھتے ہیں کہ آپ کی چیخیں نکلتی ہیں یا نواز شریف و زرداری زندہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
کیا مرنے کے لیے یہ غریب طلبا ہی بچے ہیں ؟؟ کیا یہ کسی کے لخت جگر نہیں ؟؟؟ کیا یہ کسی کے بڑھاپے کا سہارانہیں ؟؟؟ کیا یہ کسی بہن کے ” ویر ” نہیں ؟؟؟ کیا یہ کسی ماں کی آنکھوں کا تارا نہیں ؟؟؟پھر ان کے خون پہ سیاست کیوں ؟؟؟ ان کا خون پہانے کی دھمکی کس لیے ؟؟؟ ان کی لاشیں گرانے کا کیا مطلب ؟؟؟ مولوی صاحب ! کوئی شرم کرو ، کوئی حیاء کرو ۔، کوئی عقل سے کام لو ۔سرکاری بنگلہ کی جدائی میں اس پڑنے والے پاگل پن کاعلاج ہوش سے کریں جوش سے نہیں کیونکہ تمہاری اصلیت ہر پاکستانی جانتا ہے کہ تمارے آباو اجداد کوقیام پاکستان پسند نہیںاور تمہیں استحکام پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا مگر یاد رکھیں آپ کی دس نسلیں بھی پاکستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہیں کیونکہ اس کا وجود کلمے کی بنیاد ہر ہے اور اس کا محافظ خود خدا ہے۔