واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) وائٹ ہاؤس کے ایک سینیر عہدیدار نے بتایا کہ اگرعراقی عہدیدارمظاہروں کو روکنے میں ملوث پائے گئے توامریکا ان پرپابندیاں عائد کرے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اس وقت بغداد میں ہے جو عراق میں ہونے والے پرامن عوامی مظاہروں کو طاقت سے کچلنے میں ملوث ہے۔
امریکی عہدیدار نے انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ عراق میں صورتحال بہت خراب ہے۔نوجوانوں میں بہت سی اموات ہو رہی ہیں۔ ہم یہ تاثر نہیں دینا چاہتے کہ امریکا عراق میں مداخلت کر رہا ہے، کیونکہ کچھ لوگ امریکی مداخلت کواستعمال کریں گے اور اسے مغربی مداخلت کے ثبوت کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہی معاملہ لبنان کا ہے جہاں کچھ لوگ ہم پر مظاہروں کی پشت پناہی کا الزام عائد کرتے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ انقلابات کو دبانے کی کوششوں کے پیچھے ایران کا ہاتھ ہے۔
امریکی عہدیدار نے مزید کہا کہ “عراق میں ایرانی مداخلت واضح ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قاسم سلیمانی بغداد گئے اور وہاں کی حکومت کو بتایا کہ انہیں مظاہروں کو کس طرح دبانا ہے۔ ایران ہرصورت میں عراق میں جاری مظاہروں کو دبانا چاہتا ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ ایسی اطلاعات ہیں کہ بہت سے مظاہرین کی ہلاکت کے پیچھے سنائپرز کا ہاتھ تھا۔”
انہوں نے کہا کہ “ہم نے عراقی فٹ بال کھلاڑیوں نے مظاہرین سے اظہار یکجہتی کے لیے ایران کے خلاف فٹ بال میچ کے دوران اپنے چہروں پر ماسک چڑھا لیے تھے۔ اگرچہ یہ علامتی احتجاج تھا مگر اس نے پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذو کرادی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے مشرق وسطی میں اسٹریٹجک اتحاد ، جس کو میسا کے نام سے جانا جاتا ہے کے اجلاس میں عراق میں مظاہروں ، لبنان اور شام کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اجلاس میں مصر اور اردن کے ساتھ ساتھ جی سی سی ممالک بھی شامل ہیں تاکہ عراق پر متفقہ بین الاقوامی ردعمل سامنے آ سکے۔”
امریکی عہدیدار نے کہا کہ ‘ہم اقوام متحدہ کے کردار اورعراق میں اس کے مشن کی تعریف کرتے ہیں۔ مُجھے لگتا ہے کہ اس سے نئے انتخابات کی حمایت اور انتخابی قانون کا جائزہ لینے میں مدد مل سکتی ہے۔نئی حکومت عراقی شہریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بہتر مواقع فراہم کرسکتی ہے’۔