کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کے زیر انتظام جموں کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کے خاتمے کے مودی حکومت کی طرف سے اگست میں کیے گئے اعلان کے بعد سے صرف کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن سے مقامی معیشت کو تقریباﹰ ڈیڑھ بلین ڈالر کے برابر نقصان ہو چکا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان اس متنازعہ خطے کے بھارت کے زیر انتظام حصے میں اقتصادی شعبے کی نمائندہ مرکزی تنظیم نے آج منگل کے روز بتایا کہ پانچ اگست کو نئی دہلی حکومت نے جموں کشمیر کے اپنے زیر انتظام حصے کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کا جو اعلان کیا تھا، اس پر اکتوبر کے آخر میں عمل درآمد ہو گیا تھا۔
اب اس خطے کو جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کر کے ان کو بھارت کے یونین علاقے بنایا جا چکا ہے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے مطابق صرف کشمیر میں اس دوران پانچ اگست سے مقامی معیشت کو بھارتی حکومت کے اقدامات سے ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت ایک بلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہو چکی ہے۔
ان نقصانات کی اہم ترین وجہ کشمیر میں اضافی بھارتی دستوں کی تعیناتی کے بعد وہ سکیورٹی لاک ڈاؤن اور کاروباری شعبے کی بندش بنی، جو مجموعی طور پر مہینوں جاری رہی اور جزوی طور پر اب بھی جاری ہے۔
کشمیر ایوان صنعت و تجارت کے سینئر نائب صدر ناصر خان کے مطابق پانچ اگست سے لے کر ستمبر تک کشمیر کو ہونے والے اقتصادی نقصانات کی مالیت 100 ارب بھارتی روپے سے تجاوز کر چکی تھی۔ یہ رقم 1.4 ارب امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
ناصر خان کے مطابق المیہ یہ ہے کہ کشمیر میں نہ صرف سکیورٹی لاک ڈاؤن اور انٹرنیٹ بلیک آؤٹ ان بےتحاشا اقتصادی اور کاروباری نقصانات کی وجہ بنے بلکہ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ رابطے منقطع ہونے کی وجہ سے ایوان صنعت و تجارت اپنے ارکان سے رابطے بھی نہ کر سکا کہ متاثرہ کاروباری حلقوں سے اس شٹ ڈاؤن کے مالیاتی اثرات کے تخمینے حاصل کیے جاتے۔
کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر کے مطابق، ”یہ معاشی نقصانات اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا مجموعی اندازہ لگانا بھی ہمارے بس کی بات نہیں رہی۔ ہم عدالت سے درخواست کریں گے کہ وہ کوئی ایسی بیرونی ایجنسی نامزد کرے، جو ان نقصانات کا درست اندازہ لگا سکے۔‘‘
پانچ اگست کے بعد سے اب تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سکیورٹی شٹ ڈاؤن میں کمی تو آئی ہے مگر معمول کی عوامی اور کاروباری زندگی ابھی تک بحال نہیں ہو سکی۔ وادی کے عوام کے بیرونی دنیا سے انٹرنیٹ رابطے آج بھی زیادہ تر معطل ہیں۔
نیوز ایجنسی روئٹرز نے سری نگر سے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اس شٹ ڈاؤن سے سب سے زیادہ نقصان تجارتی، سیاحتی اور زرعی شعبوں کو ہوا ہے۔ کشمیر کے سب سے بڑے شہر سری نگر میں اپنا ایک ہوٹل چلانے والے ویویک وزیر نے روئٹرز کو بتایا، ”مجھے تو آئندہ کئی مہینوں تک کشمیر میں استحکام پیدا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہر جگہ بےحد بےیقینی پائی جاتی ہے اور ناقابل تصور اقتصادی نقصانات کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔‘‘