آج کل ملک کی پل پل بدلتی صورتِ حال میں تو خبروں پر بھی اعتبار نہیں رہا ہے۔سمجھ نہیں آتا کہ کون سی خبر مصدقہ اور حتمی ہے ۔کیا سُنیں اور کیا لکھیں؟ سب ہی میں جھوٹ اور بے اعتباری کی ملاوٹ 75 فیصد شامل ہوتی ہے۔ایسی کوئی تو خبر ہو۔ جس پر یقین ہو کہ یہ سو فیصد درست ہے۔ جس کے حتمی ہونے کا اعتبار اور یقین کرکے کالم کی صورت میں اپنا تجزیہ کیا پیش کیا جائے۔
غرض یہ کہ آج ہمارے مُلک کے جتنے بھی چینلز ہیں ۔یہ کسی بھی مُلکی یا عالمی خبر کو اپنے انداز سے کچھ اِس طرح پیش کرتے ہیں کہ دیر تک یہ اندازہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہوجاتا ہے کہ واقعی یہ خبر ایسی ہی جیسی کہ پیش کی جارہی ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ کہ فوری طور پر کوئی خبر سُنی تو جاسکتی ہے۔ مگر سُننے والا کسی بھی چینلز کی کسی بھی خبر کو حتمی اور مصدقہ خبر جان کر قطعاََ اعتبار نہیں کرسکتاہے۔
اَب ایسا کیوں ہے؟ اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ اِس کے ذمہ دار آج کل کی وہ تیزرفتار اور جلد باز صحافت ہے۔ جو خبر کی سچائی سے زیادہ اپنی ریٹنگ بڑھانے پر یقین رکھے ہوئے ہے۔جس کا مقصد صرف اور صرف یہ رہ گیاہے کہ خبر کو ”جیسی ہے جہاں ہے“ کی بنیاد پر اپنے سُننے اور پڑھنے والوں تک پہنچادیاجائے ۔بھلے سے بعد میں اِس کی تردید کرنے پڑے۔ تو کردی جائے ورنہ اِس کی بھی کو ئی خاص ضرورت نہیں ۔اگر ایسی کوئی خبر چل بھی جائے تو عوام خود اِسے تفریح کے طور پر لے کر بھول بھال جائیں گے۔افسوس یہ ہے کہ کبھی کسی بھی غلط یا غیر مصدقہ خبرچلی جانے پر اداروں کو معذرت کی بھی زحمت نہیںکرنی پڑتی ہے۔
بہر حال،دنیا نے دیکھ لیا کہ جِسے جاناتھا۔ وہ کیسے چلا گیاہے؟ اَب وہاں جا کر کیا ہورہاہے یہ بھی سب کے سامنے ہے۔چوں کہ ابھی معاملہ بیماری کا ہے۔ اِس لئے سات سمندر پار سے جیسی بھی خبریں آرہی ہیں۔ اتنی بھی کافی ہیں۔ مگردیکھتے جائیں ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جائے گا؛ اور بیمار کی بیماری پر دھول چڑھتی جائے گی۔ لوگ بھی پچھلا سب کچھ بھولتے جائیں گے ۔پھر برطانیہ اور امریکاکہ گلیاں ، پارکس ، سڑکیں اور بازار ہوں گے اور بیچارے بیمار کے اللے تللے کا گرماگرم بازار ہوگا۔تب دنیا والوں کو لگ پتہ جائے گا کہ بیمار کون تھا؟ کیا بیماری تھی؟ ہمارا بیچارہ بیمار معصوم دھول جھونک کر کس کی بینائی کمزور کرکے نکل گیا۔
تاہم آج دنیا کو اتنا تولگ پتہ گیاہے کہ سات یا ساڑھے سات ارب کی شخصیت کی اوقات کو کیسے اِس کے اپنوں نے پچاس ٹکے کی اوقات بنا کر پیش کیا۔ اور اپنے مُلک سے اغیار کی سرزمین علاج کے غرض سے جانے کے لئے جہاز پر سوار کیا ۔ بیچارہ بیمار کیسے اپنے گھر سے برطانیہ لے جانے والے جہاز تک اپنے پیروں پر ہنسی خوشی ،اوجھلتا کودتا بل کھاتا اٹھلاتا جھومتا جھامتا۔ ایسے جہاز تک پہنچا ۔جیسے کہ اِس معصوم سیاسی بیمار کے علاج کے لئے اِس کے اپنوں نے ڈرامہ بازی کی تھی۔ مگرجہاز تک اِسے جاتاہوا دیکھ کر ایک لمحے کو ایسالگاکہ جیسے یہ تو بیمار ہی نہیں ہے ۔اِسے تو اِس کے اپنے نے اِس کے احتساب سے بچانے کے لئے ساری نوٹنکی کی تھی۔
اِس کی تو بس اتنی سی خواہش تھی کہ بس بہت ہوگئی ہے اَب مجھے کسی بھی طرح سے کوٹ لکھپت جیل سے نکالو ۔اَب چاہئے اِس کے لئے میرے پیاروں تمہیں کچھ بھی کرنا پڑے۔تو تم کرو۔میں کچھ نہیں جانتااور کچھ نہیںمانتا ۔مگر مجھے کسی بھی طریقے سے جیل سے باہر نکالو اور کسی بھی طرح کسی بھی یورپی ملک بھیجو ۔اَب اِنکار نہیں میرے عزیروں اور پیاروں تمہاری ذمہ داری ہے ۔تم لوگ اپنی کوششوں سے مجھے جیل اور مُلک سے باہر نکالنے میں کس طرح کامیاب ہوتے ہو یہ تمہارا نہ صرف امتحان ہوگا بلکہ مجھ پر تمہارا احسان العظیم بھی ہوگا۔
سو اِس بیمار کے پیاروں ، دوستوں، عزیزوں اور پارٹی کے کارکنان سب نے مل کر اپنی ذمہ داری نبھائی اور اپنے بیمار سربراہ کو بیماری کی ٹاٹ میں لپیٹ کراپنے اور مُلکی سارے وسائل استعمال کئے ۔یوں بالآخر پچھلے دِنوں پارٹی قیادت اور کارکنان نے اپنی گردنیں تان کر اور سینے پھولا کر اپنے بیمار سربراہ کو ایک غیر مُلکی ہوائی ایمبولینس میں سوار کرکے بیماری کے نام پر علاج کی غرض سے برطانیہ اور امریکا تزک و احتشام سے روانہ کیا اِس طرح نہ صرف اِن لوگوں نے خود بھی سُکھ کا سانس لیا بلکہ بیچارے اپنے بیمار کو بھی چارہ ہفتے کے لئے ہنی مون بنانے کے لیئے چھوڑ کر اِسے ساتھ ہی یہ نصیحت ،وصیت اور قسم بھی دِلادی ہو گی کہ کم از کم موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے تک مُلک نہ آنے کی کوشش مت کرناورنہ ؟آج جانے والا تو چلا گیا ہے۔کیسے گیاہے؟ سب کو پتہ ہے۔اَب اداروں سے لڑنے اور لکیریں پیٹنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
آج یہ کتنی عجیب بات ہے کہ میرے مُلک میں ج سے جمہوریت اور جیل کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ پچھلے وقتوں میں جن لوگوں نے جمہوریت کی آبیاری کے لئے جیسی جیلیںکاٹی ہیں۔آج مُلکی تاریخ کے ابواب میں اُنہی کے مام جلی حرفوں میں عزت و احترام کے ساتھ درج ہیں۔ مگر گزشتہ کچھ دہائیوں سے مُلکی سیاست کی فیکٹری میں جیسے خاندانی سیاسی رہنماءپیداہورہے ہیں ۔وہ کسی سے جمہوریت کا سبق تو رٹ رہے ہیں۔مگر اِس کی حقیقی روح اور فلسفے سے پوری طرح ناواقف ہیں ۔اِنہیں یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ جمہوریت کی اچھی آبیاری وہ سیاسی رہنماءاور حکمران کرسکتاہے۔ جس نے جمہوریت کے لئے آمر کی آمریت سے لڑکر جیلیں کاٹی ہوں ۔
افسوس ہے کہ آج کل میرے دیس میں جیسے خاندانی سیاسی رہنماءپیداہورہے ہیں۔ اگر اِن کے مُلک میں پائیدار جمہوریت کے لئے ایسے ہی لچھن رہے۔جیسے کہ اِن خاندانی سیاسی نکموں کے ہیں۔ تو پھراِس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مُلک میںجیسی لولی لنگڑی ج سے جمہوریت باقی ہے اور یہ جمہوریت اِس کھینچا تی اور آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے بہت جلد جمہوری چوکیدار وں کے ہاتھوں سے ہوتی ہوئی جمہوری چوروں تک پہنچ کر دم توڑجائے گی ۔اگر ایسا ہوگیا تو پھرمُلک میں مدتوں جمہوریت پنپ نہیں سکے گی ۔بیشک، مُلک میں ج سے جیلیں تو ہوںگی۔مگر خاکم بدہن جمہوریت نہیں ہوگی۔(ختم شُد)