اسلام مخالفت یورپی ممالک میں شدت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے۔ ناروے میں اشتعال انگیز واقعہ، اسی طرح آسٹریلیا میں حاملہ باحجاب خاتون پر حملہ کئے جانا اس کی تازہ ترین بدترین مثالیں ہیں۔ اسلام فوبیا، مہاجرین یا پھر نسل پرستی کی تعصب و نفرت کی خود ساختہ نظریات، دنیا بھر میں اپنے انتہا پسند جذبات و اقدامات سے مسلم کیمونٹی کے خلاف کاروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ یورپی ممالک کو ترقی یافتہ و تعلیم یافتہ معاشرہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ انسانی اقدار و حقوق کی کئی عالمی تنظیموں کے عالمی کردار کو سراہا بھی جاتا ہے، لیکن اسی معاشرے میں جب بات اسلام یا مسلمانوں کے خلاف آتی ہے تو بیشتر ممالک میں نسل پرستی و اسلام مخالف جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف مظاہرے، پر تشدد احتجاج سمیت مذہبی شعائر پر پابندی سمیت سخت ترین سیکورٹی پراسس مسلمانوں کے لئے کڑے امتحان ثابت ہوتے ہیں۔ اسلام مخالف تنظیموں کا مشترکہ ایجنڈا ہے کہ ”یورپ کی اسلامائزیشن کے خلاف جنگ ہمارا مشترکہ ایجنڈا ہے“۔یورپ ممالک میں مسلم کیمونٹی کے خلاف انتہا پسندجذبات کے مضمر اثرات پر رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔
جرمنی کا تصور مہاجرین کو یورپ میں سب سے زیادہ پناہ دینے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ زیادہ تر ایسے افراد بھی جرمنی کا رخ کرتے ہیں جو اسلام مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے مشتعل گروہوں سے خوف زدہ ہوکر جرمنی میں پناہ کے متلاشی ہوتے ہیں۔ جرمنی میں تارکین وطن کی ایک ایسی بڑی تعداد ہے جس میں زیادہ تر کا تعلق مسلمانوں سے ہے جو دنیا بھر کے ترقی پذیر مسلم اکثریتی ممالک سے جرمنی میں سیاسی پناہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔مسلمانوں کی بڑھتی ہوتی ہوئی تعداد کے پیش نظر نسل پرست تنظیموں نے مسلمانوں کے خلاف منظم تحریکیں تشکیل دیں اور حکومت پر دباؤ بڑھایا کہ وہ تارکین وطن کو جرمنی میں مزید قیام کی اجازت نہ دیں اور مزید آنے والے مہاجرین کو جرمنی میں پناہ نہ دیں۔ جرمنی میں انتہائی دائیں بازو کے اسلام و مہاجرین مخالف گروہ پیگیڈا موومنٹ مسلمانوں کے خلاف انتہائی سخت گیر موقف رکھتی ہے۔پیگیڈا موومنٹ کی بنیاد جرمن شہر ڈریسڈن میں رکھی گئی تھی۔ پیگیڈا موومنٹ اکتوبر 2014ء میں ایک غیر ملکیوں سے نفرت کے ایک فیس بک گروپ کے طور پر سامنے آئی تھی جس نے جرمنی کے مشرقی شہر ڈریسڈن میں کچھ سو افراد کے ساتھ اپنے احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا جس کو بعد میں قوت ملی اور اس کے مظاہروں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔اس تنظیم کے بانی لوٹز باک مین کی جانب سے انتہائی متعصب بیانات اور ہٹلر سٹائل کی مونچھیں اور ہئیر سٹائل رکھ کر سیلفی لینے پر اس تنظیم کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا گیا۔ یہ تحریک اسلام اور مہاجرین مخالف ہے۔ تاہم جرمنی کے زیادہ تر حلقوں میں اپنے انتہائی کٹر نظریات کے باعث اس تحریک کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے بھی دیکھا جاتا ہے۔تارکین وطن کی جرمنی میں دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی سماجی قبولیت کینیڈا اور امریکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔تاہم جرمنی میں انٹیلی جنس ایجنسیاں اسلام مخالف تحریک کی مانیٹرنگ کرتی ہیں۔ ترجمان وزارت داخلہ کے مطابق انتہاپسند گروپ پیگیڈا کی سرگرمیوں کی ریاستی اور مرکز کی سطح پر نگرانی کی جا رہی ہے۔جرمنی کی چانسلر اینجیلا مرکل کا ماننا ہے کہ دنیا بھر کے جنگوں اور بحران کے شکار علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا جرمنی میں خیرمقدم کرنا چاہیے۔ان کا مزید کہنا ہے کہ ”ان میں سے بہت سے تو بڑی مشکل سے جانیں بچا کر آرہے ہیں۔ہم پناہ کی تلاش میں آنے والے ان لوگوں کی مدد کریں گے اور انھیں اپنے ہاں رکھیں گے”۔
فرانس یورپی ممالک میں فرانس وہ ملک ہے جہاں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ فرانس میں مسلمان شہریوں کی تعداد 50 سے 75 لاکھ ہے، جبکہ جرمنی اور برطانیہ میں مسلمانوں کی آبادی بالترتیب 40 لاکھ اور 30 لاکھ ہے۔ برطانیہ اور جرمنی میں مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کا پانچ فیصد ہے۔ فرانس میں جنریشن آیڈینٹٹی نامی تنظیم مسلم کیمونٹی کے خلاف انتہا پسندانہ جذبات رکھنے میں بدنام ہے۔ یہ تحریک یورپ میں اسلام اور مہاجرین مخالف ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے مشہور ہے اور حالیہ چند برسوں میں اس کی جڑیں یورپ بھر میں مضبوط ہوئی ہیں۔فرانس میں نسل پرستی کے خلاف کام کرنے والے کارکن اور فرانسیسی حکومت ایک عرصے سے اس جماعت پر مکمل پابندی عائد کرنے کے حق میں ہیں۔ فرانس کی ایک عدالت اسلام اور مہاجرین مخالف جماعت ‘جنریشن آیڈینٹٹی‘ کے سربراہ اور دو دیگر رہنماؤں کو چھ چھ ماہ قید کی سزائیں بھی سناچکی ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق جماعت کے صدر کلیموں گانڈیلین، اُن کے ترجمان ایسپینو اور ایک تیسرے شخص ڈامی لیفیرے نے گزشتہ برس ایک مہم شروع کی تھی، جس کا مقصد الپس کے داخلی پہاڑی راستے پر جا کر مہاجرین کے داخلے کو زبردستی روکنا تھا۔اپنے فیصلے میں عدالت نے انہیں بعض ‘شہری حقوق‘ سے بھی محروم کیا تھاجس کے تحت وہ آئندہ پانچ برسوں تک ووٹ دینے کے اہل بھی نہیں ہوں گے۔ استغاثہ کے مطالبے پر اس جماعت پر 75 ہزار یورو کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔فرانس میں اسلام مخالف جذبات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی سب سے عظیم ہستی حضرت محمد ﷺ کے خلاف جب فرانسیسی رسالے ”چارلی ایبڈو‘ نے گستاخانہ خاکے شائع کرنے شروع کئے تو رسالے کی سرکولیشن میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا، پہلے رسالہ 50ہزار کی تعداد میں چھپتا تھا پھر گستاخانہ مہم کے بعد60لاکھ سے زیادہ تعداد میں شائع کئے جانے گا۔ مسلم امہ کے جذبات کو نظر انداز کرتے ہوئے چارلی ایبڈو نے رسالے کی تعداد میں اضافہ کیا اور یہاں تک کہ رسالہ خریدنے کے لئے انتہا پسند جذبات رکھنے والے کئی کئی گھنٹے لائنوں میں کھڑے ہوکر رسالہ خریدتے تھے۔ فرانس کے اُس وقت کے صدر نے اسے اظہار رائے کی ”آزادی“ قرار دیا۔ تاہم جب دو بھائیوں نے چارلی ایبڈو کے دفتر پر حملہ کرکے 12سے زائد افراد کو ہلاک کیا تو اس سے پورے فرانس سمیت یورپ ہل گیا۔فرانس میں جہاں مسلم کیمونٹی کے خلاف اسلام فوبیا عفریت کی صورت میں موجود ہے جس کے رد کے لئے مسلم کیمونٹی نے گذشتہ دنوں پھر مظاہرے کئے تھے۔ لیکن فرانس چارلی ایبڈو حملے سمیت 13 نومبر کو چھ مقامات پر دھماکے و فائرنگ کرکے 150سے زاید افراد کو ہلاک کردیا۔
فرانس میں کئے جانے والے ان حملوں کی ذمے داری داعش نے قبول کی تھی جس کا دین اسلام کے کسی نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن ان حملوں کو باقاعدہ بے گناہ مسلمانوں کے خلاف استعمال کیا گیا۔ ستمبر 2019 میں فرانسیسی دارالحکومت نے زائد تارکین وطن کے ایسے کیمپ اور ‘خیموں سے بنائی گئی بستیوں‘ کو خالی کرادیا تھا۔ جس میں 1600سے زاید پناہ گزین تھے۔ پناہ کے متلاشی مہاجرین کی یہ ‘ خیمہ بستیاں‘ ملکی حکومت کے اس اعلان کے محض ایک دن بعد خالی کرا لی گئیں، جس میں کہا گہا تھا کہ فرانس کی تارکین وطن سے متعلق پالیسیاں اب سخت تر بنا دی جائیں گی۔7 نومبر کو ختم کر دیے گئے ان مہاجر کمیپوں میں سے ایک تو پیرس شہر کے شمال میں قائم کیا گیا تھا اور دوسرا شہر کے ایک مضافاتی علاقے سینیٹ ڈینیس میں۔ ان کیمپوں میں 1600 سے زائد تارکین وطن اپنے خیموں میں بہت تکلیف دہ اور انسانی وقار کے منافی حالات میں رہ رہے تھے۔فرانس کے وزیراعظم ایڈورڈ فلپ نے انتہائی دائیں بازو کے حامیوں کی ایک کانفرنس میں اسلام مخالف تقاریر کو” غلیظ” قرار دیا ہے۔ فرانسیسی وزیراعظم نے کہاہے کہ اس قسم کی تقاریر اور بیانات ہماری ملکی اقدار کے خلاف ہیں۔ ایک تقریر میں شریک مصنف ایریک زامور نے کہا کہ ہجرت کا مسئلہ اسلام کے باعث ہے،کیا یہ ہماری نوجون نسل ہمارے آباو اجداد کے ان نو آبادیاتی ممالک میں اقلیت بننے کو تیار ہے اگر انہوں نے ایسا قبول کیا تو پھر وہ ان کی غلامی میں جینا پسند کر لیں۔بازئیرز بلدیہ کے ناظم رابرٹ منارڈ نے بھی کہا کہ اسلام اگر فرانس پر حاوی ہو گیا تو ہماری سڑکوں پر خواتین کا ملنا حسرت بن جائے گا۔
برطانیہ 2015 میں جرمنی کے اسلام مخالف تنظیم پیگیڈا موومنٹ نے پہلی مرتبہ برطانیہ میں مظاہرہ کیا تھا۔ پیگیڈا موومنٹ کی نفرت انگیز مہم جرمنی سے ہوتے ہوئے یورپ کے کئی ممالک میں پھیل چکی ہے۔ اور یورپی شہری بڑی تعداد میں پیگڈا کے پروپیگنڈوں سے متاثر ہو کر مسلمانوں کے خلاف متشدد کاروائیاں کررہے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے 2016 میں لندن کے مئیر کے الیکشن میں مسلمان (لیبر پارٹی کے) امیدوار کے خلاف جس طرح سے برطانوی وزیر اعظم تک نے ‘اسلامو فوبیا’ کا استعمال کیا ہے، اس کی شاید ہی کوئی اور مثال ملے۔ انتخابی مہم کے دوران(سابق) وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ایوان میں صادق خان کا شدت پسند عناصر سے تعلق جوڑا، کہا کہ ‘لیبر پارٹی کے امیدوار شدت پسندوں کے ساتھ ایک ہی پلیٹ فارم پر بیٹھ چکے ہیں اور مجھے ان کے بارے میں بہت خدشات ہیں ‘۔یہ الفاظ کسی انتہائی دائیں بازو یا انتہا پسند تحریک کے رہنما کے نہیں، ملک کے وزیر اعظم کے تھے۔اور ان ہی کی پارٹی کے امیدوار زیک گولڈسمتھ نے اسی اسلامو فوبیا کو اپنی انتخابی تحریک کا محور بنایا۔ بار بار مسلمان امیدوار کا تعلق اسلامی شدت پسندوں سے جوڑ کر ووٹروں کو ڈرایا۔ اور ہندو اور سکھ ووٹروں کو خاص طور پر ڈراتے رہے کہ مسلمان کا مئیر ہونا ان کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔منافرت پر مبنی جرائم کی معلومات جمع کرنے والی تنظیم ‘ٹیل ماما’ کے مطابق منافرت پر مبنی واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ اور ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے مطابق برسوں کے بعد پھر ‘پاکی’ کو بطور تضحیک استعمال کیا گیا اور حجاب پہنے والی خواتین کو بھی مختلف واقعات میں نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ گیارہ ستمبر کے بعد اضافہ ہوا۔ اور منفی سوچ نے برطانوی شہریوں میں جگہ بنانے شروع کی مسلمان مغربی معاشرے کے لئے ایک خطرناک مسئلہ ہیں۔ مسلمانوں کو مغربی اقدار و مذہب سے جداگانہ تسلیم کیا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ جب لندن،ویسٹ منسٹر، مانچسٹر ارینا سمیت کئی شہروں میں مساجد پر حملے کئے جاتے ہیں تو مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں پر حملوں کی وجہ سے مذہبی منافرت میں کئی گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
برطانیہ پہلے ہی نسل پرستانہ رجحان کی وجہ سے متشدد تنظیموں کے نظریات میں گھیرا ہوا ہے۔ تاہم نسل پرستی کے ساتھ ساتھ مسلم دشمنی میں اضافہ بھی برطانوی معاشرے میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس بات کا اندازہ لگایا جاسکتا جب 2011 میں برطانیہ میں حکمراں جماعت کنزروویٹیو پارٹی کی چئرمین اور کابینہ کی پہلی مسلمان خاتون بیرنِس سعیدہ وارثی نے یہ کہہ کر تہلکہ مچا دیا تھا کہ ‘برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سماج میں کافی حد تک قابلِ قبول بن چکا ہے اور یہ رویہ ‘ڈنر ٹیبل ٹیسٹ پاس کر چکا ہے’۔سیعدہ وارثی نے اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ مسلمانوں کو صرف یا تو انتہا پسند و قدامت پسند یا پھر ‘انتہائی ماڈرن’ اور مذہب سے دور رہنے والوں کے طور پر دیکھا جاتا ہے، اور ان دونوں انتہاوں کے درمیان کی سوچ رکھنے والے برطانوی مسلمانوں کو مصلحت کے طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ 2014 میں سعیدہ وارثی کابینہ سے مستعفی ہوگئی تھیں اور انھوں نے ‘مسلم بریٹن، دا اینیمی وِد اِن؟’ (برطانوی مسلمان، اندر کے دشمن؟) کے عنوان سے ایک کتاب شائع کی جس میں اپنا تجربہ ظاہر کیا اور برطانوی اور مسلمان ہونے پر تبصرہ کیا ہے۔
میئر صادق خان بھی اپنے آپ کو مسلمان سے زیادہ لندن کا شہری اور ٹوٹنگ کے رہائشی ظاہر کرتے ہیں۔ لیکن ان چند سیاستدانوں کی کوششیں ناکافی ہیں جب تک مساجد مسلمانوں کو الگ تھلگ رہنے کو کہتی رہیں گی۔برطانوی سیاست میں مسلم کردار بڑھنے کے باوجود اسلام مخالف تنظیموں و انتہا پسندوں کا رویہ تبدیلی سے نہیں گذر رہا بلکہ اس میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایسا کوئی دن نہیں گزرتا جب یورپی ممالک میں مسلمانوں کو نشانہ نہ بنایا جاتا ہو۔مسلمانوں کو تشدد بنانے کے رجحان میں اضافے پر یہ موقف اختیار کیا جاتا ہے ایسے افراد کا تعلق جنونی مجرموں کی قوم سے تعلق زیادہ ہے۔ یعنی ایسے کام کرنے والے مسلمانوں سے رابطہ کم اور ایسے قاتلانے واقعات میں ملوث مجرموں سے زیادہ گہرا رابطہ ہے۔ (چاہے ان کا کسی نسل یا مذہب سے تعلق ہو)۔
امریکا، اسلامی ملکوں کی امداد بند کر دے کیونکہ اسلام یہودیوں سے نفرت پر اکساتا ہے۔” یہ مطالبہ منافرت پر مبنی مہم کی منتظم امریکی مصنفہ پامیلا گیلر نے 2014 میں کیا تھا۔ امریکا میں 2011 کے ڈرامائی حملوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف شدت کے ساتھ نفرت انگیز مہم کا آغاز ہوا تھا جس سے امریکا میں مقیم مسلم کیمونٹی کو شدید جانی و مالی خطرات کا سامنا رہا۔ اب بھی امریکا مسلمانوں کے خلاف کسی بھی قسم کے اقدام سے باز نہیں آتا۔ اس کا مظاہرہ ہم عراق، شام، ایران، افغانستان، صومالیہ، یمن سمیت کئی مسلم اکثریتی ممالک کے خلاف امریکی پالیسیوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں۔2014 میں پامیلا گیلر کی منافرت سے پُر مہم کے تحت دارلحکومت واشنگٹن میں چلنے والی مسافر بسوں پر 73 سال قبل ہٹلر اور مفتی دیار القدس الحاج امین الحسینی کی قد آدم تصاویر چسپاں کی تھی۔ ‘آزادی کے تحفظ کا امریکی اقدام’ نامی انجمن کے زیر اہتمام منافرت پر مبنی مہم کی منتظم امریکی مصنفہ پامیلا گیلر تھی۔
انہوں نے ”امریکا کی اسلامائزیشن بند کرو” کے عنوان سے کتاب بھی لکھی۔ پامیلا نے اپنی مہم کے بارے میں کونسل آن امریکن مسلم ریلیشنز CAIR کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر نھاد عوض سے گفتگو بھی کی۔ ”آزادی کے تحفظ کا امریکی اقدام” نامی انجمن کی تاسیس خود پامیلا گیلر اور سستی شہرت کی طلبگار اس جیسی چند دوسری امریکی ہستیوں نے کی تھی۔ منافرت بھری اس مہم میں پامیلا گیلر کی زیر نگرانی چلنے والی اسلام مخالف مہم میں شہر کے اندر چلنے والے بسوں پر نازی رہنما ہٹلر کی قد آدم تصویر لگائی گئی جس میں وہ مفتی القدس الحاج امین الحسینی کے ہمراہ بیٹھے دیکھے جا سکتے ہیں۔ یاد رہے امین الحسینی نے 1941 میں برلن کا دورہ کیا تھا۔امریکا یہودی نواز ہونے کے سبب مسلمانوں کے خلاف انتہائی شدید منافرت کے جذبات رکھتا ہے۔ جس کی وجہ سے امریکا میں داخل ہونے والے مسلمانوں کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے اور ان کی نقل و حرکت پر ڈبل سیکورٹی سسٹم کے تحت سخت ترین نگرانی کی جاتی ہے۔
رینڈم سیکورٹی سسٹم کے تحت مسلمانوں کو امریکا میں ریاستی تحفظ کے حوالے سے مطمئن نہیں ہیں۔ اسلام دشمن تنظیموں کی جانب سے ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جس سے مسلم امہ کے جذبات شدید مجروح ہوئے لیکن امریکا نے اسلام دشمنی میں ایسے اظہار رائے کی آزادی قرار دے کر نظر انداز کیا۔گو کہ اس وقت امریکا نسل پرستی کے بڑے بحران سے گزر رہا ہے۔ یہاں تک کہ موجودہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کانگریس کی مسلم خواتین کے حوالے سے بھی سخت ترین ٹویٹ میں تبصرے کو امریکی اقدار کے منافی قرار دیا گیا، لیکن اس وقت امریکا اخلاقی انحطاط پزیری کے ساتھ ساتھ مسلم دشمنی میں حدود پار کرچکا ہے۔
یگر مغربی ممالک آسٹریا میں پہلی بار فروری 2015 میں اسلام مخالف ریلی نکالی گئی۔ جس کا اعلان جنوری کے اوائل میں کیا گیا تھا۔آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں نکالی جانے والی اس ریلی میں سینکڑوں افراد نے شرکت اور ان میں سے بعض نے نازی سیلوٹ بھی کیا۔پیگیڈا کے حامی وسطی ویانا میں جمع تھے اور نعرے لگا رہے تھے کہ’ہم ہی لوگ ہیں۔‘ 2016میں اسلام مخالف تحریک کی شدت میں اضافہ دیکھنے میں آیا جب اسلام کے پھیلاؤ کے خلاف فروری کو جمہوریہ چیک، ایسٹونیا، فن لینڈ، جرمنی، پولینڈ، سلوواکیا اور سوئٹزرلینڈ سمیت یورپ کے چودہ ملکوں میں بیک وقت ریلیاں نکالی گئیں۔مظاہروں کا انعقاد غیر ملکیوں کی یورپ آمد کے مخالف جرمن گروپ ‘پپیگیڈا موومنٹ نے کیا تھا جو اپنا تعارف ان یورپی شہریوں کے طور پر کراتی ہے کہ جو مغرب کی اسلامائزیشن کے خلاف ہیں۔
بھارت اسلام دشمنی میں بھارت کی ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے مذہبی منافرت و مسلم کشی کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے ہیں، بھارت کی انتہا پسندی کی حوالے سے تواتر سے لکھا جاتا رہا ہے اور انسانی اقدار و انسانی حقوق کے نام لیوا ؤں کو مودی سرکار کی سخت گیر مسلم کش پالیسیوں سے آگاہ کیا جاتا رہا ہے، تاہم بالا سطور میں امریکا سمیت یورپی ممالک میں اسلام کے خلاف منافرت کی لہر سے سمجھا جاسکتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور مسلم کش اقدامات پر خاموشی اختیار کرلی جاتی ہے۔بھارت، امریکا سمیت مغربی یورپی ممالک میں اسلام دشمنی سے خائف و منافرت پر مبنی نظریات رکھنے کی وجہ سے مذہبی روادری کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
مسلم اکثریتی ممالک کو مغرب کے اس رجحان کو ختم کرنے کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت تھی لیکن زیادہ تر ممالک آپسی خانہ جنگیوں و تجارتی مفادات کے سبب اسلام کی تعلیمات کو درست پیرائے میں سمجھانے و پھیلانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔پاکستان، ترکی اور ملائیشیا نے اسلام فوبیا کے خلاف انگریزی زبان میں چینل کھولنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پر جلد از جلد عمل درآمد کی ضرورت بڑھتی جا رہی ہے کیونکہ یورپ میں اسلام مخالف تحریکوں کی شدت پسندی میں تیزی آتی جارہی ہے اور پیگیڈا موومنٹ سمیت کئی انتہا پسند تنظیموں کی وجہ سے مسلم امہ کو مسائل کا سامنا ہے جسے کے سدباب کو جلد ازجلد دور کرنے کی ضرورت ہے۔